عبد الستار غوری مرحوم - ساجد حمید

عبد الستار غوری مرحوم

 عبد الستار غوری واقعی عبد الستار تھے۔ ان کی عبادت، ریاضت اور للہیت ماشاء اللہ قابل رشک تھی۔طویل القیام نمازیں، تہجد اور نوافل کا اہتمام کرنے میں وہ ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔ معاملات میں کھرے اور اخلاق میں نہایت درجے پر فائز تھے۔ ملنساری، انکسار، حسن سلوک، لوگوں کی مدد، دوسروں کا خیال رکھنا، ان کے نمایاں خصائص تھے۔
نہایت محنتی تھے۔ لگن سے تحقیق کرنے والے تھے۔ سارا سارا دن کام میں لگے رہتے۔ ’ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ‘ کی منہ بولتی تصویر تھے۔ انھوں نے ساری زندگی اپنے نام کے ساتھ علامہ یا مولانا جیسے سابقے اور لاحقے نہیں لگائے۔ عبد الستار کے نام کے ساتھ دنیا میں آئے اور اسی نام کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ کرے کل قیامت کو ان کی عبدالستار ی قبول ہو۔
میں ان کی سادگی اور انکساری کو ہمیشہ سراہتا رہا ہوں۔وہ عامی کے لبادہ میں عارف و داناتھے۔نہایت صابر و شاکر آدمی تھے۔ اس کے باوجود کہ نہایت حساس طبیعت پائی تھی۔میرے سامنے ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا، ایک طرف وہ نہایت راضی بہ رضاتھے تو دوسری طرف غم باوجود ضبط کے ان کے انگ انگ سے نمایاں تھا۔ وہ اہلیہ کی وفات پر فی الواقع رنجیدہ خاطر تھے۔یوں ایک ہی وقت میں دونوں کیفیتیں ا ن میں جمع تھیں، خدا کی رضاجوئی اور بیوی کی وفات کا رنج۔ کسی شاعر نے کہا ہے کہ:

 میں نے پوچھا کہ زندگی کیا ہے!
ہنس دیے  پھول ، رو  پڑی  شبنم!

ان دنوں ان کی یہی حالت تھی جیسے پھول اور شبنم صبح دم یکجا ہو گئے ہوں۔
مجھے نہیں معلوم غوری صاحب کہاں پیدا ہوئے ، زندگی کے کن نشیب و فراز سے گزرے ۔میری ان کی شناسائی ان کی ’’المورد‘‘ آمد پر ہوئی اور دنیا سے جانے تک رہی۔اسی عرصہ میں ان سے دوستی ہوئی، جورفتہ رفتہ گہری ہوگئی اور پھر مرنے تک قائم رہی ۔مجھ سے انھیں ایک خاص انس تھا۔ ہمیشہ شفقت سے پیش آتے۔میرے وقت و بے وقت آنے پر بھی ہمیشہ مسکراہٹ سے استقبال کرتے۔شاید سب کے ساتھ ہی ان کا یہ معاملہ رہا ہو۔میرے مذاقوں پر ہنستے اور داد دیتے تھے۔ ’’المورد‘‘ میں باہر پچھلے صحن میں لیموں کا پوداتھا، جس پر اکثر لیموں لگے رہتے تھے۔سب الموردی گیارہ بجے چائے کے وقفے میں چائے پیتے تھے۔ چند ماہ کے لیے یہ چائے کا دور غوری صاحب کے کمرے میں چلنے لگا۔ غوری صاحب کے پاس قہوہ بھی ہوتا تھا، جس میں وہ ’’المورد‘‘ میں لگے لیموں نچوڑ کر اس کے ذائقے کو دوآتشہ کر لیتے تھے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ یہ لیموں ’’المورد‘‘ میں باہرپچھلے صحن میں لگے ہوئے تھے، پنجابی میں باہر کی چیز کو بارلی چیز کہا جائے گا، بارلی مونث ہے اور بارلے اس کا مذکر ہوگا۔ مثلاً بارلے لیموں، یعنی وہ لیموں جو باہر لگے ہیں۔ ایک دن جب قہوہ زیب مائدہ ہوا تو کٹے ہوئے لیموں ٹرے میں نہیں تھے۔ میں نے پوچھا کہ آج لیمن بارلے نہیں ہیں؟ غوری صاحب ہنسنے لگے، کیونکہ لیمن بارلے کے یہ الفاظ ذو معنی ہیں، یہ ایک معروف مشروب ’’ Lemon Barley‘‘ کا بھی نام ہے اور پنجابی میں یہ الفاظ باہر والے لیموں کے معنی بھی رکھتے ہیں۔ اس ترکیب کی اسی ذوجہتی نے انھیں محظوظ کیا، اور بعد میں کئی دفعہ خود بھی یہ ترکیب انھوں نے استعمال کی۔
وہ موت کے استقبال کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ ’’المورد‘‘ کی موجودہ بلڈنگ میں جب ہم آئے تو ان دنوں ابھی ان کے بچے ٹیکسلا ہی میں مقیم تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ اگر میں مرگیا تو میرا جنازہ پڑھنے کے لیے صرف فلاں مسلک کے لوگوں کو بلانا، اگر میرے بچے ہوئے تو وہ جو چاہے فیصلہ کریں۔
غوری صاحب نے پوری زندگی نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی نذر کردی۔ اس کے لیے نہایت عرق ریزی سے بائیبل اور اس سے متعلق بے شمار کتابیں کھنگال ڈالیں۔ نبی پاک کی نبوت کے حق میں سابق انبیا کے فرامین و پیشین گوئیوں کو تحقیق و فہم کے بعد یکجا کیا اور ان کی توضیح میں عمدہ تصانیف چھوڑیں۔ مجھے ان میں سے سیدنا موسیٰ والی دلیل بہت متاثر کرتی ہے،جس میں آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کو وقت کے پیراے میں بیان کیا ہے، اس لیے کہ غوری صاحب نے اسے جس طرح سے واضح کردیا ہے، شاید ہی اس کے بعد کسی توضیح کی ضرورت ہو!
ہم آپ غوری صاحب کے منہج تحقیق اور نتائج فکر سے اختلاف تو کرسکتے ہیں، لیکن ان کی محنت، لگن، عرق ریزی، مطالعہ ، علمی دیانت، سنجیدہ طرز کلام، اسلوب کی متانت، محتاط الفاظ کا چناؤ، جیسے امور سے اختلاف نہیں کرسکتے۔
مولانا اصلاحی اور مولانا مودودی رحمہما اللہ کو اگر مثال بنایا جائے تو ان کے کام کا منہج اصلاحی نہیں مودودی تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کو تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ بھی پسندتھی ، لیکن ’’تفہیم القرآن‘‘ کے وہ دل دادہ تھے۔ اردو میں ان کا اسلوب نگارش بھی مودودی صاحب سے متاثر تھا، اگرچہ وہ اپنے الگ خصائص بھی رکھتا ہے۔
یونیورسٹی میں ملازمت سے پہلے میرے ساتھ ان کی علمی گفتگوبہت زیادہ رہتی۔تصنیف و تالیف کے دوران میں جب کوئی فصل لکھ لیتے، یا کوئی نئی بات دریافت کرتے تو مجھے بلا لیتے، اپنی دریافت اور اس تک پہنچنے کے واقعے کو پوری تفصیل سے بتاتے۔ میں پوری توجہ سے سنتا، وضاحتی استفسارات چلتے رہتے ، لیکن ان کا بیان تادیر جاری رہتا۔ اسی طرح تحقیق و تصنیف کے دوران میں وہ عربی زبان، قرآن و حدیث کے بعض نصوص کے فہم میں مجھ سے از راہ عنایت مشورہ کرتے تھے۔ عربی زبان کی مشکلوں میں تو اکثر وہ مجھے کہتے کہ تم نے اچھی بات بتائی ہے۔ لیکن قرآن و حدیث کے نصوص کے سمجھنے میں چونکہ میرا منہج اور تھا، اس لیے بعض جگہوں پر جب اختلاف ہوتا تو پھر قائم رہتا۔اس کی اصل وجہ اصولوں کا اختلاف تھا۔ہمارے مدرسۂ فکر میں قرآن وحدیث کے فہم میں اگرچہ خارجی وسائل بھی پوری طرح ملحوظ ہوتے ہیں، مگرداخلی وسائل کی اہمیت زیادہ ہے، جبکہ غوری صاحب مرحوم کا اصول اس کے برعکس تھا۔ لیکن جس بات کے کہنے کے لیے میں نے یہ گفتگو شروع کی تھی، وہ یہ ہے کہ کبھی بھی یہ بات راے کے قبول کرنے میں آڑے نہیں آئی کہ تم چھوٹے ہو یا میرا تجربہ زیادہ ہے۔ وہ ہمیشہ ان چیزوں سے بلند ہو کر سوچتے، بات کرتے اور جب بات واضح ہوجاتی تو اسے بلا جھجک تسلیم کرلیتے۔ یہی حق پرستوں کا شیوہ رہا ہے۔
مجھے ان کی کتاب ’’Muhammad Foretold in The Bible by Name‘‘ میں حضرت داؤد والی پیشین گوئی کی تاویل سے اختلاف تھا، لیکن میں ادب و احترام میں کبھی ان کو یہ نہیں بتا سکا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جب بھی اس پیشین گوئی پر بات شروع ہوئی، وہ اس پیشین گوئی کی حلاوت میں ایسے کھو جاتے کہ ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اس پیشین گوئی کے الفاظ کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا دیکھ رہے ہیں۔ خدا اس ایمانی حلاوت کے بدلے ان کو جنت کی نعمتوں کی حلاوت سے بہرہ یاب کرے۔ آمین۔

____________

    تاریخ: جون 2014ء
بشکریہ: ساجد حمید

مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Mar 07, 2016
3517 View