ابراہیم ذریت نوح نہیں (علیہما السلام): قرآن کا ایک انکشاف - ساجد حمید

ابراہیم ذریت نوح نہیں (علیہما السلام): قرآن کا ایک انکشاف

 

بائیبل کے مطابق طوفانِ نوح کے بعد کشتی میں سوار جانوروں اور انسانوں کے سوا تمام مخلوقات مرگئی تھیں۔ گویا طوفانِ نوح عالم گیر طوفان تھا،جس نے زمین کے ہر گوشے سے زندگی کا خاتمہ کردیا تھا۔۱؂ اسی طرح بائیبل یہ بتاتی ہے کہ طوفانِ نوح کے وقت کشتی میں صرف نوح علیہ السلام کے بہو بیٹے ہی سوار تھے، کوئی اور نہ تھا۔ کتاب پیدائش میں لکھا ہے:

’’طوفانی سیلاب سے بچنے کے لیے نوح اپنے بیٹوں، اپنی بیوی، اور بہوؤں کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا۔‘‘ (۷: ۷)

اسی ساتویں باب ہی میں لکھا ہے:

’’چالیس دن تک طوفانی سیلاب جاری رہا، پانی چڑھا تو اس نے کشتی کو زمین سے اٹھا لیا۔ پانی زور پکڑ کر بہت بڑھ گیا، اور کشتی اس پر تیرنے لگی آخر کار پانی اتنا زیادہ ہو گیا کہ تمام اونچے پہاڑ بھی اس میں چھپ گئے۔بلکہ سب سے اونچی چوٹی پر پانی کی گہرائی بیس فٹ تھی۔ زمین پر رہنے والی ہر مخلوق ہلاک ہوئی۔ پرندے، مویشی، جنگلی جانور، تمام جان دار جن سے زمین بھری ہوئی تھی اور انسان، سب کچھ مرگیا۔ زمین پر ہر جان دار مخلوق ہلاک ہوئی۲؂۔ یوں ہر مخلوق کو روے زمین پر سے مٹا دیا گیا۔ انسان، زمین پر پھرنے والے اور رینگنے والے جانور اور پرندے، سب کچھ ختم کردیا گیا ۔ صرف نوح اور کشتی میں سوار اس کے ساتھی بچ گئے۔ سیلاب ڈیڑھ سو دن تک زمین پر غالب رہا۔‘‘ (۱۷۔۲۴) 

کتاب پیدائش ہی کے آٹھویں باب میں لکھا ہے:

’’پھر اللہ نے نوح سے کہا: اپنی بیوی، بیٹوں اور بہوؤں کے ساتھ کشتی سے نکل آ۔ جتنے بھی جانور ساتھ ہیں، انھیں نکال دے، خواہ پرندے ہوں، خواہ زمین پر پھرنے یا رینگنے والے جانور۔ وہ دنیا میں پھیل جائیں، نسل بڑھائیں اور تعداد میں بڑھتے جائیں۔چنانچہ نوح اپنے بیٹوں، اپنی بیوی، اور بہوؤں سمیت نکل آیا۔ تمام جانور اور پرندے بھی اپنی اپنی قسم کے گروہوں میں کشتی سے نکلے۔‘‘(۱۵۔۱۹)

اسی کتاب کے ۹ویں باب میں لکھا ہے:

’’نوح کے جو بیٹے اس کے ساتھ کشتی سے نکلے سم (سام)، حام اور یافث تھے۔ حام کنعان کا باپ تھا، دنیا بھر کے تمام لوگ ان تینوں کی اولاد تھے۔‘‘ (۱۸۔۱۹)

بائیبل کے یہ وہ بیانات ہیں جن کی وجہ سے ہم مسلمان بھی حضرتِ نوح کو آدمِ ثانی مانتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاوہ دنیا میں کسی اور انسان کی نسل موجود نہیں ہے۔ قرآن مجید کے بیانات سے یہ لگتا ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ میں وہ مقامات آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں تاکہ ان پر غور وخوض کیا جاسکے۔ میری یہ تحریر قرآن کے فہم تک محدود رہے گی۔ میں اسے تاریخی بحث تک نہیں پھیلاؤں گا، کیونکہ پھر یہ بحث میرے دل چسپی کے دائرے سے نکل جائے گی۔

’مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کے معنی

سورۂ بنی اسرائیل کی آیتِ ذیل میں یہ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل، یعنی ذریتِ ابراہیم حضرت نوح کے بجاے ان کے کسی صحابی کی صلب سے ہیں، جو تاریخ میں گم نام رہے، لیکن اللہ نے ان کی ذریت کو نبوت کے لیے چنا۔ قرآن کا بیان ہے:

وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلًا. ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا.(۱۷: ۲۔۳)
’’ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اُس کو (اِنھی) بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا، اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بناؤ۔ اے اُن لوگوں کی اولاد جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر) سوار کیا تھا۔ جو (ہمارا) شکر گزار بندہ تھا۔‘‘۳؂ 

یہاں، ’ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ‘ کے الفاظ سے بنی اسرائیل ہی کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ اسلوب کسی طرح درست نہیں ہے، اگربنی اسرائیل حضرت نوح کی اولاد تھے۔ مثلاً جب آپ کہیں کہ یہ علی کے دوست کی اولاد ہے تو یہ جملہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ یہ اولاد علی کی نہیں ہے ۔ یہ اسلوب لازمی طور پر یہ بتا رہا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ذریت حضرت نوح کے ساتھ سوار کسی اورشخص کی ذریت ہیں، حضرت نوح کی نہیں۔ گویا قرآنِ مجید بائیبل کی غلطی سے آگاہ کررہا ہے کہ اس میں صرف نوح کی بہو ئیں اور بیٹے ہی سوار نہیں تھے، بلکہ کوئی اور بھی تھا، جن کی ذریت کو ذریتِ نوح نہیں کہا جاسکتا ۔ورنہ سادہ بات آنی چاہیے تھی ’ذُرِّیَّۃَ نُوْحٍ‘ (اے اولاد نوح)۔ جب بھی ہم یہ کہیں گے کہ وہ نوح کے ساتھی کی اولاد ہیں، تو نوح کی اولاد ہونے کی نفی ہو جائے گی۔گویا اتنی بات اس مقام سے قطعی معنی میں واضح ہے کہ بنی اسرائیل اولادِ نوح نہیں ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کے ان جدِ امجد کا بغیر نام کے ذکر سورۂ بنی اسرائیل کی زیر بحث آیت میں کرنے کے بعد ان پر اس جملے: ’اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا‘ (۱۷: ۳) میں تعارفی تبصرہ کیا گیا ہے۔۴؂ انھی الفاظ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، بات کرنے کی سہولت کی خاطر، جدِ ابراہیم علیہما السلام کو ’عبدًا شکورا‘ ۵؂ کا لقب دے لیتے ہیں۔
مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کا جملہ سورۂ مریم میں بھی آیا ہے:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَّمِنْ ذُرِّیَّۃِ اِبْرٰھِیۡمَ وَاِسْرَآءِ یۡلَ وَمِمَّنْ ھَدَیۡنَا وَاجْتَبَیۡنَا اِذَا تُتْلٰی عَلَیۡھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا.(مریم ۱۹: ۵۸)

’’یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے پیغمبروں میں سے اپنا فضل فرمایا، آدم کی اولاد میں سے اور ان لوگوں کی نسل سے جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور ابراہیم اور اسرائیل کی نسل سے اور اُن لوگوں میں سے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا تھا۔ اُن کو جب خداے رحمن کی آیتیں سنائی جاتی تھیں تو سجدے میں گر پڑتے اور روتے جاتے تھے۔‘‘

اس آیت میں خط کشیدہ الفاظ کو دیکھیے کہ آدم، ابراہیم اور اسرائیل علیہم السلام کے ساتھ براہِ راست ’ذریت‘ کا لفظ آیا ہے، لیکن حضرت نوح کے ساتھ نہیں آیا۔ لہٰذا یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ یہاں بھی اولادِ نوح کے ساتھ کچھ اور کا ذکر بھی پیش نظر ہے۔ ۶؂ اگر کشتی میں بس انھی کی اولاد سوار تھی تو ’ومن ذریۃ نوح‘ کہنا کافی تھا۔یہاں بھی اسلوب وہی ہے جو اوپر سورہ بنی اسرائیل میں اختیار کیا گیا ہے: ’وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘۔ ان الفاظ سے ذہن واضح طور پر اسی طرف جاتا ہے کہ کشتی والوں میں سے نوح علیہ السلام ہی کی نہیں، بلکہ ان کے ساتھیوں کی اولاد بھی زیر بحث ہے۔ یہ اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ حضرت نوح کے ان ہم سفینہ ساتھیوں کے نام ہم نہیں جانتے۔ سورۂ مریم اور سورۂ بنی اسرائیل کے ان دونوں مقامات میں ایک فرق ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں صرف ایک شخص کا ذکر ہے، جو جدِابراہیم علیہما السلام ہیں،اس لیے کہ اس کے بعد ’إنہ کان عبدًا شکورا‘، نے واحد ہونا واضح کردیا ہے۔ جب کہ سورۂ مریم میں زیادہ لوگوں کا ذکر بھی ہوسکتا ہے، جس کی طرف اشارہ سورۂ ہود کی ۴۰ ویں اور ۴۸ ویں آیات سے ہوتا ہے۔

’وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہِ لَاِبْرَاہِیْمَ‘ کا شاہد

ہماری اس تفسیر کہ ذریتِ ابراہیم اولادِ نوح نہیں ہے، کی تائید اس مقام سے بھی ہوتی ہے جہاں ابراہیم علیہ السلام کو آپ کی ذریت قرار دینے کے بجاے، حضرت نوح سے آپ کے تعلق کو ’مِنْ شِیْعَتِہِ‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے:

سَلٰمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ. اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ. اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ. ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ. وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَاِبْرٰھِیْمَ.(الصافات ۳۷: ۷۹۔۸۳) 
’’نوح پر سلامتی ہے تمام دنیا والوں میں۔ ہم خوبی سے عمل کرنے والوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ پھر (اُس کو اور اُس کے ماننے والوں کو الگ کر کے) ہم نے اوروں کو غرق کر دیا۔ یقیناً اُسی کے گروہ میں سے ابراہیم بھی تھا۔‘‘۷؂ 

یہاں ابراہیم علیہ السلام کو حضرت نوح کا ساتھی یا پیرو کار قرار دیا گیا ہے،ان کی اولاد قرار نہیں دیا گیا۔ یہاں ’شِیعَتِہِ‘ کے الفاظ بولے گئے ہیں،جو ذریت میں سے ہونے کے معنی نہیں دیتے ، آگے اسی سلسلۂ آیات میں اسحق و یعقوب علیہما السلام کا ذکرجس پیراے میں ہے، ان کے لیے ’ذریت‘ ہی کا لفظ بولا گیا ہے، یہاں بھی اولیٰ یہی تھا کہ ’شِیْعَتِہِ‘ کے بجاے ’ذریتہ‘ کے الفاظ بولے جاتے۔ یہ آیات ایک قوی شاہدہیں کہ حضرت نوح کا تعلق حضرت ابراہیم کے ساتھ صلبی نہیں، روحانی و فکری ہے۔ عین ممکن ہے سام یہی ’عبدًا شکورا‘ ہوں۔ کسی اور خاندان سے حضرت نوح کے امتی رہے ہوں، جنھیں نوح علیہ السلام پر ایمان کی بنا پر کشتی میں پناہ ملی ہو اور انھیں طوفانِ نوح کے عذاب سے بچا لیا گیا ہو۔لیکن بائیبل میں اس کے مترجم یا مدون نے انھیں ابن نوح قرار دے دیا ہو۔

کشتی میں اولادِ نوح کے علاوہ مؤمنین

قرآن مجید میں ان اہل ایمان کا ذکر واضح طور پر کیا گیا ہے جو حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے، اورنوح علیہ السلام کے اہل میں سے نہیں تھے :

حَتّٰٓی اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ۸؂ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ.(ہود ۱۱: ۴۰)
’’یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور طوفان ابل پڑا تو ہم نے کہا:ہر قسم کے جانوروں میں سے نر و مادہ، ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی (اِس کشتی میں سوار کرا لو)، سواے اُن کے جن کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے، اور اُن کو بھی جو ایمان لائے ہیں۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔‘‘

یہ آیت بتا رہی ہے کہ حضرت نوح کے ساتھ ان کی اولاد کے علاوہ لوگ بھی تھے، جنھیں نہ صرف ایمان کی دولت نصیب ہوئی، بلکہ طوفانِ نوح کی صورت میں آنے والے عذاب سے بھی محفوظ رکھے گئے تھے۔یہ بھی اشارہ نکل رہا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ تھے،۹؂ اگرچہ قلیل التعداد تھے۔یہ اشارہ بھی نکل رہا ہے کہ حضرت نوح کے اہل خانہ کومحض ان کے اہل ہونے کی بنا پر بھی سوار ہونے کی اجازت تھی، سواے اس کے کہ ان میں سے کوئی آپ کے اہل میں سے نہ ہو۔ ۱۰؂ لیکن بہرحال یہ ہمارے موضوع سے باہر ہے۔ ’وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ‘ میں ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کا عطف ’أہلک‘ سے مغایرت کا تقاضا کرتا ہے، اس لیے انھیں ’اَھْلَکَ‘ سے الگ مراد لینا ہوگا۔کوئی یہاں کہہ سکتا ہے کہ عربی میں بعض اوقات ’أہل‘ کا لفظ صرف بیوی کے لیے آجاتا ہے۔ تو یہاں کہیں یہ تو مراد نہیں ہے کہ بیوی اور دوسرے اہل ایمان مراد ہوں۔ واضح رہے کہ یہاں ایسا نہیں ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات (مثلاً: ہود ۱۱: ۴۶) سے واضح ہوتا ہے کہ ’أہلک‘ سے مراد ان کے بیوی بچے سبھی تھے۔یہاں ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ‘ بھی اس کا قرینہ ہے۔

’اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ‘ پر برکات

ایک آیت میں یہ ذکر ہے کہ حضرت نوح کے ساتھ جتنے لوگ کشتی پر سوار تھے، ان سے قومیں پیدا ہوئیں۔ان قوموں میں سے سب پر فضل وعنایت کا معاملہ ہوا۔یہ آیت بالکل صراحت سے واضح کردیتی ہے کہ حضرت نوح کی اولاد کے علاوہ بھی ایسے لوگ تھے جن کی اولادوں پر فضل و عنایت ہوا، اور کچھ ایسی بھی تھیں جن کو بعد میں اتنی مہلت حیات ملی کہ ان میں خدا کے رسول آئے ، کچھ نے مانا اور بہتوں نے انکار کیا تو ان پر سزا کا نزول ہوا،جیسے قومِ عاد اور قومِ ثمود۔۱۱؂ وہ آیت ذیل میں ہے:

قِیْلَ یٰنُوْحُ اھْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَکٰتٍ عَلَیْکَ وَعَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُھُمْ ثُمَّ یَمَسُّھُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(ہود ۱۱: ۴۸) 
’’ارشاد ہوا: اے نوح، اتر جاؤ، ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اور برکتوں کے ساتھ، یہ برکت و سلامتی تم پر بھی اور اُن امتوں پر بھی ہے جو اُن سے ظہور میں آئیں گی جو تمھارے ساتھ ہیں۔ اور (ان میں سے) کچھ ایسی امتیں بھی ہیں جنھیں ہم آگے بہرہ مند کریں گے،(ان میں رسول آئیں گے) پھر اُن کو بھی ہماری طرف سے ایک دردناک عذاب پکڑ لے گا (اگر وہ ہمارے رسولوں کو جھٹلائیں گے)۔‘‘۱۲؂

اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ‘ کے الفاظ قابل توجہ ہیں، اوپر ہم جان چکے ہیں کہ قرآنِ مجید نے آپ کے اہل خانہ کے ساتھ غیر خاندان کے مومنین کے کشتی میں سوار ہونے کا ذکر کیا ہے۔ تو یہاں ’مِّمَّنْ مَّعَکَ‘ میں سے ان کو خارج نہیں کیا جاسکتا، بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہی ’عبدًا شکورا‘ یہاں بھی پیش نظر ہیں جو ان برکات و سلامتی کے حق دار بنے اور ان کی اولاد میں ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بعد پے در پے نبی ہوئے۔
لہٰذا یہ آیت بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ نوح علیہ السلام کے ساتھ، ’عبدًا شکورا‘ سمیت، جتنے لوگ سوار ہوئے، ان سب پر برکت و سلامتی اتری، اور ان سب سے امتیں پیدا ہوئیں۔ لہٰذا ان سب کے بارے میں یہ ماننا کہ وہ نابود ہوگئے، اس آیت کی سلامتی اور ’بَرَکَات‘ کی بشارت کے خلاف ہے۔یہاں ’مِّمَّنْ مَّعَکَ‘ کے اسلوب کو بھولنا نہیں چاہیے، یعنی جو تمھارے ساتھ ہیں، ان سے پیدا امتیں۔ ہماری مراد یہ ہے کہ یہاں یہ نہیں کہا کہ ’وعلی أمم معک‘، ۱۳؂ بلکہ ’مِّمَّنْ مَّعَکَ‘ کے الفاظ سے یہ بتایا ہے کہ وہ مسلمان جو تمھارے ساتھ کشتی میں سوار ہیں، ان کے بطن سے پیدا ہونے والی امتیں بھی برکات پائیں گی، بلکہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس آیت میں التفات نوح علیہ السلام کی شخصیت پر ہے،اور ’مَنْ مَّعَکَ‘ سے بیان ہونے والے گم نام افراد اور حضرت نوح کی اپنی اولاد پر فضل و عنایت بیان ہوا ہے، یعنی حضرت نوح کے تینوں بیٹے، اور ’عبدًا شکورا‘ جیسے سب مومنین کو برکات حاصل ہوئیں، اور ان کی اولادیں پیدا ہوئیں اور ان اولادوں نے بھی برکات پائیں۔ اس کی تائید سورۂ یونس کی ۷۳ویں آیت سے بھی ہوتی ہے، اس آیت کو ہم نے حاشیہ نمبر ۱۳ میں بیان کیا ہے۔ ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے۔ انھی لوگوں میں سے وہ امتیں بھی پیدا ہوئیں جن میں رسالت کا سلسلہ جاری ہوا اور پھر عذاب و جزا کا قانون ان میں نافذ ہوا۔ اس میں بھی اولادِ ابراہیم، یعنی ’عبدًا شکورا‘ کی اولاد شامل ہے، کیونکہ ان میں رسالت کااجرا زیادہ واضح طور پر ثابت ہے۔ ان میں قومِ عاد وثمود وغیرہ بھی شامل ہیں۔ جس طرح آیت عذاب پر ختم ہوئی ہے، ذہن اولادِ ابراہیم سے زیادہ انھی قوموں کی طرف جاتا ہے جنھیں ہلاک کردیا گیا۔ 
اُمَم‘ کا لفظ بھی بہت اہم ہے، یعنی جتنے لوگ سفینۂ نوح میں سوار تھے، وہ اللہ کی طرف سے سلامت رکھے جانے اور برکات کے نزول کے سبب سے امتوں کے اب وجد بننے والے تھے۔چند ایک افراد کے یا دو ایک نسلوں کے نہیں۔ یہ لفظ ان سارے تصورات کا قلع قمع کردیتا ہے جن میں نوح علیہ السلام کے علاوہ کسی غیر کی اولاد کی بقا نہیں مانی جاتی۔

ایک ضمیر کی شہادت

یہ سورۂ انعام کی آیت ہے، اس میں حضرت ابراہیم اور حضرت نوح علیہما السلام کا ذکر ایک ساتھ ہوا ہے، لیکن سیدنا ابراہیم کی ذریت سے پیدا ہونے والے چھ نبیوں داؤد، سلیمان ، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کا ذکرآتا ہے تو ابراہیم و نوح علیہما السلام کے لیے ضمیر تثنیہ کی نہیں لائی جاتی، بلکہ واحد کی لائی جاتی ہے، حالاں کہ اگر یہ چھ نبی حضرت نوح اور حضرت ابراہیم دونوں کی ذریت سے تھے تو ’ذُرِّیَّتِہِ‘ میں ضمیر ’ہِ‘ کے بجاے ’ہُما‘ آنی چاہیے تھی۔ ضمیر کا یوں آنا واضح ثبوت ہے کہ اولادِ ابراہیم حضرت نوح کی اولاد نہیں ہے۔ آیت یہ ہے:

وَتلِْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ. وَوَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَا — وَنُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ — وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ۱۴؂ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَھٰرُوْنَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ.(الانعام ۶: ۸۳۔۸۴)
’’یہ تھی ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیم کو عطا فرمائی کہ اپنی قوم پر قائم کرے۔ ہم جس کو چاہتے ہیں، اُس کے درجے پر درجے بلند کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار حکیم و علیم ہے۔ (پھر یہی نہیں)، ہم نے ابراہیم کو اسحٰق اور یعقوب عنایت فرمائے۔ اُن میں سے ہر ایک کو ہم نے ہدایت بخشی۔ — اِس سے پہلے یہی ہدایت ہم نے نوح کو بخشی تھی — اور اس کی ذریت میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ ہم نیکوکاروں کو اِسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘

یہاں شاید کوئی کہہ سکتا ہے کہ کلام کا موضوع سیدنا ابراہیم ہیں، اس لیے حضرت نوح کے بعد کلام انھی کی طرف دوبارہ پلٹا ہے، تو اس لیے ضمیر واحد ہی آنی چاہیے۔میرے خیال میں آیت میں ذکرِ نوح نے کلام کو خالصتاً ابراہیم علیہما السلام کی طرف متوجہ نہیں رہنے دیا۔ آیت ۸۵ تا ۸۷ پر نگاہ ڈال لیں تو یہ بات کہنا ممکن نہیں رہے گا کہ کلام کا موضوع ابراہیم علیہ السلام ہیں۔دوسرے یہ کہ ضمیر کے یوں آنے سے ایک تصور کی نفی ہوتی ہے کہ یہ انبیا حضرت نوح کی اولاد نہیں تھے۔ اگران انبیا کے اولادِ نوح ہونا ہی سچ تھا تو اللہ کے کلام میں ضمیر کے یوں آنے کی توقع نہیں ہے، جس سے ان کے اولادِ نوح ہونے کا انکار ثابت ہوتا ہو۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کے بیچ میں حضرت نوح کا ذکر کیا ہی اس لیے گیا ہے تاکہ وہ بات واضح ہو جو اہل کتاب نے بگاڑدی ہوئی ہے ، اورجو ہم نے اس مضمون میں بیان کرنا چاہی ہے۔

ذریت نوح ہی باقی رہے گی؟

ذیل کی آیت کی وجہ سے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ خود قرآن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ذریت نوح ہی دنیا میں باقی رہی، باقی سب ہلاک ہو گئے اور وہ آیت یہ ہے:

وَلَقَدْ نَادٰنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ. وَنَجَّیْنٰہُ وَاَھْلَہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ. وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہٗ ھُمُ الْبٰقِیْنَ.(الصافات ۳۷: ۷۵۔۷۷)
’’نوح نے ہم سے فریاد کی تھی۔ پھر (دیکھو کہ) ہم کیا خوب فریاد سننے والے ہیں! ہم نے اُس کو اور اُس کے لوگوں کو بہت بڑی مصیبت سے بچا لیا۔ اور ہم نے اس کے بچوں کے بارے میں ٹھیرایا کہ وہی بچیں گے۔‘‘

تورات کی روشنی میں خط کشیدہ آیت کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ بعد کی دنیا میں انھی کی اولاد زندہ رہی۔ہمارے خیال میں ’ھُمُ الْبٰقِیْنَ‘ میں حصر کا اسلوب نہیں، بلکہ تاکید کاہے، لیکن یہ حصر کا اسلوب بھی لیا جائے تو اس بات کو مستلزم نہیں کہ نوح علیہ السلام کی اولاد کے سوا سب لوگ مارے گئے، بلکہ یہ اپنے موقع و محل کے لحاظ سے صرف ان کے دشمنوں کے مقابل میں بولاگیا ہے، جوآپ کو ماردینے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ ۱۵؂ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ نوح کو ستانے والوں کے مقابلے میں نوح علیہ السلام کے اہل خانہ لازمابچائے گئے۔یعنی یہ جملہ اسی معنی میں آیا ہے جس معنی میں سورۂ بقرہ کا یہ جملہ: ’اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ‘ (۲: ۱۲) ہے۔ یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ پوری دنیا میں بس وہ منافقین ہی مفسدون تھے، اور کوئی نہیں تھا، بلکہ مراد یہ تھی کہ صحابہ نہیں، بلکہ یہ منافقین ہی مفسد ہیں۔ اسی طرح اس آیت میں باقی اہل ایمان کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے، یہ صرف اولادِ نوح کے بارے ہی میں ہے۔ 
جیسا ہم نے اوپر لکھا ہے کہ حضرت نوح کے اہل کو محض ان کے اہل ہونے کی وجہ سے کشتی میں سوار ہونے کی اجازت تھی۔ان کی دعا کی قبولیت شاید ان کے خلاف فضا کے باوصف یوں ہوئی تھی کہ ان کے تمام اہل وعیال کو بچایا جائے گا۔ قصۂ نوح سے متعلق آیات میں ’أہلک‘ کی یہ تکرار بلاسبب نہیں ہے۔ اس مکالمے پر ایک نظر ڈالنا مفید رہے گا جو اللہ تعالیٰ اور نوح علیہ السلام کے درمیان ہوا، جس میں حضرت نوح یہ نہیں کہہ رہے کہ میرا بیٹا اہل ایمان میں سے ہے ، اس لیے اسے بچایا جائے۔وہ اسے اپنے اہل میں سے کہہ کر نجات کے طالب ہیں، اور حضرت نوح کو اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہے کہ وہ اہل ایمان میں سے نہیں ہے، بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ کہا جارہا ہے کہ تمھیں اس کا علم نہیں ہے کہ وہ تمھارے اہل میں سے نہیں ہے۔ اس آیت سے یہ حقیقت واضح ہوگی کہ حضرت نوح اور ان کے اہل کو کربِ عظیم سے نجات دینے کے اس عمل میں ’أہلک‘ ایک اور اہمیت رکھتا ہے۔اس روشنی میں ’وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہٗ ھُمُ الْبٰقِیْنَ‘ کے حقیقی زور کو ہم سمجھ سکیں گے۔ مکالمہ کی آیات یوں ہیں:

وَنَادٰی نُوْحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ. قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَاِلحٍ فَلَا تَسْئَلْنِ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ.(ہود ۱۱: ۴۵۔۴۶)
’’نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ پروردگار، میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور اِس میں شبہ نہیں کہ تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بڑا فیصلہ کرنے والا ہے۔ فرمایا: اے نوح، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ فعلِ نابکار ہے۔۱۶؂ سو مجھ سے اُس چیز کے بارے میں سوال نہ کرو جس کا تجھے کچھ علم نہیں ہے۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ جذبات سے مغلوب ہو جانے والوں میں سے نہ بنو۔‘‘

دوسرے یہ کہ یہ ان کی دعا کی قبولیت میں اللہ نے جو کچھ کیا، اس کا بیان ہے ۔ آیا وہ یہ دعا کررہے تھے کہ سب لوگ مارے جائیں۔ وہ یقیناً اپنے اور اپنے اہل خانہ کے دشمنوں سے نجات ہی کی دعا کررے ہوں گے۔اس لیے تمام دنیا کو ہلاک کرکے صرف ان کی اولاد کے باقی رکھے جانے کا مطلب اس جگہ بے محل ہو جائے گا۔ہاں، اس صورت میں درست ہوتا اگر کوئی بھی اور ان پر ایمان نہ لایا ہوتا ، یا واقعی صرف ان کے اہل ہی بچے ہوتے۔ تیسرے یہ کہ اس آیت کی یہ تفسیر کہ دنیا بھر میں صرف انھی کے بچوں کو بچایا گیا ، ان آیات کے خلاف ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ ان کے اہل خانہ کے علاوہ اہل ایمان کو بھی سوار کیا گیا (ہود ۱۱: ۴۰)، یا جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کشتی میں سوار تمام لوگوں سے امتیں پیدا ہوں گی (ہود ۱۱: ۴۸)۔ چوتھے یہ کہ اب یہ تفسیر سورۂ مریم (۱۹: ۵۸) اور سورۂ بنی اسرائیل ۱۷: ۲۔ ۳) کی مذکورہ بالا آیات کے بالکل خلاف ہو گی، جس میں ’مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کے الفاظ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ذریتِ ابراہیم کا حضرت نوح سے صلبی رشتہ نہیں ہے، بلکہ آپ اپنے جدِ امجد ’عبدًا شکورا‘ کی ذریت سے ہیں۔ اسی طرح اس آیت کی یہ تفسیر کہ اولادِ نوح کے علاوہ کوئی نہیں بچا تھا اوپر بیان کردہ چھ آیات سے مجموعی طور پر مستفاد علم کے خلاف ہے۔

خلاصہ

ان آیات سے معلوم ہواکہ ابراہیم علیہ السلام کے جدِ امجد سفینۂ نوح کے ایک سوارجنھیں ہم نے اللہ تعالیٰ کے جملے کی بنیاد پر ’عبدًا شکورا‘ کا لقب دیا ہے حضرت نوح کے ایک صحابی تھے۔ ’عبدًا شکورا‘ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا تھا کہ ان کی نسل سے انبیا مبعوث کیے۔ ذریتِ ابراہیم علیہ السلام انھی کی نسل سے ہے، جس سے معلوم ہوا کہ یہ نظریہ قرآن کے خلاف ہے کہ حضرت نوح ہم سب کے اب و جد ہیں۔ تورات کے مذکورہ بالا تمام بیانات بھی درست نہیں ہیں، جس میں تمام انسانوں کو نوح علیہ السلام کے تین بچوں حام، سام اور یافث کی اولاد قرار دیا گیا ہے۔ خود بنی اسمٰعیل اور بنی اسرائیل بھی اولادِ نوح نہیں ہیں، بلکہ یہ ’عبدًا شکورا‘ کی نسل سے ہیں۔
ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سفینۂ نوح کے تمام سواروں پر برکات نازل ہوئیں اور ان سب کی اولادیں اتنی زیادہ پھلی پھولیں کہ امتیں بنیں۔
ہمارے اس موقف پر قرآن کے کم ازکم چھ مقامات شاہد ہیں، جن کی تفصیل اوپر کی گئی ہے۔
میری راے اگر درست ہے، تو یہ تاریخ انسانی کا ایک بڑا گم شدہ باب ہے، جو شاید تاریخ کے بارے میں کئی دریافتوں کے دروازے کھولے گا۔
اگرچہ اس مضمون میں ہمارا موضوع دلالتِ لسانی نہیں ہے، لیکن قرآن کے یہ مقامات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ ہماری معلوم و معروف اخبار و آرا کس طرح الفاظ کی دلالت کی طرف توجہ نہیں جانے دیتیں۔
[۵؍اگست ۲۰۱۸ء]

________

۱؂ ایسا ماننا، قرآن کے اصولِ دینونت کے خلاف ہے کہ تکذیبِ رسول توحضرت نوح کی قوم کرے اور سزا دوسرے بھی پائیں، سوائے اس کے کہ یہ مانا جائے کہ حضرت نوح کی رسالت کی قلم رو میں ساری دنیا شامل تھی ، اور انھوں نے ان سب پر اتمامِ حجت کیا تھا۔یا یہ مانا جائے کہ قومِ نوح ہی اس وقت کی کل انسانی آبادی تھی۔
۲؂ خط کشیدہ عبارت ’زمین پر ہر جان دار مخلوق ہلاک ہوئی‘ قابل توجہ ہے۔ تورات کے اس جملے میں غالباً آبی مخلوقات شامل نہیں ہوں گی، کیونکہ ان کے لیے تو طوفانِ نوح کے بعد زمین زیادہ ساز گار بن گئی ہوگی۔ اتنے ہلاک شدہ جانور اور انسان ان کی ضیافت کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ ہوں گے۔صاف لگتا ہے کہ اس مقام کا بیان انسانی ہے، جس کی نگاہ آبی مخلوقات سے چوک گئی ہے۔ یا پھر یہاں ’زمین‘ کے بجاے ’خشکی‘ کا لفظ رہا ہو گا۔
۳؂ آیات کے تراجم زیادہ تر استاذ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی دامت برکاتہ کی تفسیر ’’البیان‘‘ سے لیے گئے ہیں۔
۴؂ یعنی ’إنہ‘ کی ضمیر ’مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ‘ میں ’مَن‘ کی طرف راجع ہے۔
۵؂ میں نے ’عبدًا شکورا‘ کو منصوب رکھا ہے تاکہ اسمِ صفت کا تاثر کم ہو کر ایک نوع کا عَلم بن جائے۔یوں کہ ’عبدًا‘ کو تنوین کے ساتھ اور ’شکورا‘ کو تنوین کے بغیر پڑھا جائے۔
۶؂ یہ واضح رہے کہ حضرت نوح کی اولاد میں نبوت کا ذکر قرآن میں الگ سے بھی آیا ہے: ’وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰھِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِھِمَا النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ فَمِنْھُمْ مُّھْتَدٍ وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ‘ (الحدید۵۷: ۲۶)، اس لیے ان کی ذریت تو سورۂ مریم میں مذکور انعام میں شامل ہے ہی۔سورۂ حدید کی اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ابراہیم کے خاندان میں نبوت مختص ہونے سے پہلے اولاد نوح میں سے نبی آئے ۔
۷؂ اگر اسے دور کی کوڑی نہ سمجھا جائے تو طوفانِ نوح کے بعد لگ بھگ تین سو سال حضرت نوح زندہ رہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے نبوت سے پہلے شاید ان کے عہد کا کچھ حصہ پایا ہو،کیونکہ آپ کے لیے ’شیعۃ‘ کا لفظ ذہن کو اس طرف لے جاتا ہے۔ یہ بعد میں ماننے والے اورپیروکار کے معنی میں اتنا صریح نہیں ہے،بلکہ یہ جماعت، جتھے، یا حمایتیوں میں شامل ہونے والے کے معنی رکھتا ہے۔ یہ مقام دیکھیے: ’...فَوَجَدَ فِیْھَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ ھٰذَا مِنْ شِیْعَتِہٖ وَھٰذَا مِنْ عَدُوِّہٖ فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہٖ عَلَی الَّذِیْ...‘ (القصص ۲۸: ۱۵) ۔ مثلاً عربی میں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لحاظ سے ’مِنْ شِیْعَتِہِ‘ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن بہرحال یہ لفظ تحقیق کا متقاضی ہے ، ہو سکتا ہے کہ یہ لفظ توسعًا استعمال ہوتا ہو۔ حدیثوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بات آتی ہے کہ نوح اور ابراہیم علیہما السلام کے درمیان ایک ہزار سال کا عرصہ ہے۔
۸؂ اس آیت سے معلوم ہورہا ہے کہ آپ کے اہل خانہ محض ’أہل‘ میں سے ہونے کی بنا پر کشتی میں آ سکتے تھے۔
۹؂ حدیثوں سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کے ساتھ صرف چھ بہو بیٹے اور ایک پوتے کنعان ہی نہیں تھے، بلکہ سواروں کی تعداد اسی (۸۰) کے قریب تھی۔
۱۰؂ یہی بات ذیل کی آیت میں کہی گئی ہے۔ جب آپ کا ایک بیٹا کشتی میں سوار ہونے سے روک دیا گیا ،تواس وقت یہی کہا گیا کہ وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے، جب کہ اگر اہل خانہ کے لیے ایمان کی شرط ہوتی تو کہا جاتا کہ وہ ایمان والوں میں سے نہیں ہے، بلکہ یہ کہا گیا کہ وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔ ’قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَاِلحٍ فَلَا تَسْءَلْنِ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ‘ (ہود ۱۱: ۴۶)۔
۱۱؂ مثلاً، دیکھیے سورۂ اعراف (۷) کی آیات ۶۵ سے ۷۳ تک۔
۱۲؂ یہ حذف ہم نے اس آیت کی وجہ سے کھولے ہیں: ’...وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۱۵)۔
۱۳؂ جیسا اس آیت میں اسلوب اختیار کیا گیا ہے: ’فَکَذَّبُوْہُ فَنَجَّیْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ وَجَعَلْنٰھُمْ خَلٰٓءِفَ وَاَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنْذَرِیْنَ‘ (یونس ۱۰: ۷۳)۔ یہاں ’مَنْ مَّعَہٗ‘ سے پہلے ’مِنْ‘ نہیں بولا گیا۔ 
یہ آیت بھی ہمارے مقدمے کو ثابت کرتی ہے، کیونکہ اس میں ذکر ہے کہ حضرت نوح اور ان کے ساتھ بچنے والے لوگ قومِ نوح کے خلائف بنے۔ یہاں اگر ’وَجَعَلْنٰہُمْ خَلٰٓئِفَ‘ کے بجاے ’وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ خَلَائِفَ‘ ہوتا تو پھر دوسرا مقدمہ ثابت ہوتا کہ ان کے ساتھ سوار ہونے والے کچھ لوگ خلائف بنے، کچھ نہیں۔گویا سب برکات و سلامتی کے مستحق تھے۔ سب پر یہ انعام ہوا کہ وہ قومِ نوح کے بعد زمین آباد کرنے والے بنے۔
۱۴ ؂ اس ضمیر کا یوں لانا، صاف واضح کررہا ہے کہ قرآن اپنے پڑھنے والوں کو متنبہ کرنا چاہتا ہے کہ یہ انبیا حضرت نوح کی نسل سے نہیں ہیں۔
۱۵ ؂ ’قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ یٰنُوْحُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِیْنَ‘ (الشعراء ۲۶: ۱۱۶)۔
۱۶  ؂ مزید وضاحت کے لیے دیکھیے: سورۂ تحریم کی ۱۰ ویں آیت۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت ستمبر 2018
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Oct 10, 2018
3533 View