جناب عبد الستار غوری رحمہ اللہ - عمار خان ناصر

جناب عبد الستار غوری رحمہ اللہ

  جناب عبد الستار غوری بھی اپنے وقت مقرر پر اللہ کے حضور میں حاضر ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ أللّٰہم لا تحرمنا أجرہ ولا تفتنا بعدہ۔ آمین۔
ان سے پہلی ملاقات آج سے کوئی بائیس چوبیس برس قبل گوجرانوالہ میں ، جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں ہماری رہایش گاہ پر ہوئی۔ وہ اپنے کسی دوست کے ہمراہ والد گرامی سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ (میری یادداشت کے مطابق یہ ڈاکٹر سفیر اختر صاحب تھے، لیکن ایک موقع پر غوری صاحب نے تصحیح کرتے ہوئے غالباً افتخار بھٹہ صاحب کا نام لیا تھا)۔ اس زمانے میں مجھے مسیحیت اور بائیبل کے مطالعے کا نیا نیا شوق، بلکہ کسی حد تک جنون تھا اور میری علمی دل چسپی کا بنیادی دائرہ یہی تھا۔ غوری صاحب اپنے ساتھ اپنا ایک ۷۰ صفحات کا مقالہ لائے تھے جو کتاب استثناء کی اس مشہور پیشین گوئی کی تشریح پر مبنی تھا جس میں کوہ فاران سے دس ہزار قدسیوں کے جلوہ گر ہونے کی بات ذکر کی گئی ہے۔ غوری صاحب نے میری دل چسپی کو دیکھتے ہوئے ازراہ عنایت اس کی ایک نقل مجھے بھی دی اور کہا کہ یہ ابھی نامکمل اور غیر مطبوعہ ہے اور صرف مطالعے کے لیے تمھیں دے رہا ہوں۔ اسی موقع پر انھوں نے بتایا کہ انھوں نے یہودیت و مسیحیت کے مطالعہ وتحقیق سے متعلق نادر ونایاب کتب کا ذخیرہ اپنے پاس جمع کر رکھا ہے۔
اس موضوع کے حوالے سے میری شناسائی اس وقت تک زیادہ تر محمد اسلم رانا صاحب مرحوم سے تھی جو پہلے ’’طب وصحت‘‘ کے نام سے ایک رسالے میں یہودیت ومسیحیت سے متعلق اپنے نتائج تحقیق شائع کیا کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے ’’المذاہب‘‘ کے نام سے ایک مستقل رسالے کا ڈیکلریشن لے لیا جس کی اشاعت کا سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔ رانا صاحب کی تحریر تحقیقی حوالہ جات سے مزین ہونے کے ساتھ ساتھ کافی حد تک مناظرانہ اسلوب میں لکھی ہوتی تھی۔ وہ وقتاً فوقتاً گوجرانوالہ آتے رہتے تھے اور کھوکھرکی گوجرانوالہ میں مسیحی دینیاتی تعلیم کے عالمی سطح کے ادارے ’’فیتھ تھیولاجیکل سیمنری‘‘ میں بھی مختلف حضرات سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے۔ یاد پڑتا ہے کہ گوجرانوالہ کے معروف مسیحی عالم ڈاکٹر پادری کے ایل ناصر اور ان کے جریدہ ’’کلام حق‘‘ سے مجھے رانا صاحب نے ہی متعارف کروایا تھا اور میں غالباً ۱۹۹۰ء میں ایک مرتبہ ڈاکٹر کے ایل ناصر سے ملاقات کے لیے ان کے دفتر بھی گیا تھا۔
بہرحال، غوری صاحب سے ملاقات کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اس موضوع پر زیادہ اعلیٰ سطحی تحقیقی کام کرنے والے حضرات بھی موجود ہیں۔ تاہم اس کے بعد ان کے ساتھ ربط ضبط یا استفادہ کا کوئی خاص موقع مجھے نہیں ملا تا آنکہ ۲۰۰۴ء میں، میں نے جناب جاوید احمد غامدی کے قائم کردہ ادارے ’’المورد‘‘ کے ساتھ بطور ریسرچ اسکالر وابستگی اختیار کر لی۔ غور ی صاحب بھی اس وقت سینئر ریسرچ اسکالر کے طور پر ’’المورد‘‘ سے وابستہ تھے اور خاص اپنے موضوع کے دائرے میں تحقیقی کام میں مصروف تھے۔ مجھے ’’المورد‘‘ کی ہفتہ وار علمی نشستوں میں شرکت کے لیے ہفتے میں ایک دو دن جانا ہوتا تھا۔ چنانچہ اگلے پانچ چھ سالوں میں غوری صاحب سے میل ملاقات، نشستوں اور گفتگوؤں کے مواقع مسلسل ملتے رہے۔ ان کی نہایت قیمتی ذاتی لائبریری کا بھی کچھ حصہ ’’المورد‘‘ میں ان کے دفتر میں موجود تھا اور وقتاً فوقتاً اس کی کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھنے کا موقع بھی مجھے میسر آتا رہا۔
’’المورد‘‘ کے ساتھ غوری صاحب کی بطور محقق وابستگی کا ایک خوب صورت پہلو یہ تھا کہ وہ خود مسلکاً اہل حدیث تھے اور مولانا اصلاحی کے اسلوب تفسیر پر ان کی ناقدانہ تحریریں بھی بعض جرائد میں چھپ چکی تھیں، لیکن یہ چیز اہل ’’المورد‘‘ کے لیے ان کے علم وفضل کی قدر دانی میں مانع نہیں ہوئی۔ ان کا شمار ادارے کے سینئر محققین اور بزرگوں میں ہوتا تھا اور وہ کسی قسم کی انتظامی جواب دہی سے بالکل بالاتر ہو کر اپنی ذاتی صواب دید پر اپنے تحقیقی کاموں کی انجام دہی میں مشغول رہتے تھے۔ ’’المورد‘‘ میں نماز باجماعت کی امامت بھی عام طور پر غوری صاحب ہی کراتے تھے اور مجھے بے شمار نمازیں ان کی اقتدا میں ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
غوری صاحب قیام پاکستان کے موقع پر ریاست پٹیالہ کے کسی علاقے سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ وہ تقسیم کے موقع پر ہونے والی قتل وغارت کے بعض چشم دید واقعات سنایا کرتے تھے اور اس موضوع کے حوالے سے خاصے حساس تھے۔ ۲۰۰۵ء میں بھارت سے ہمارے ایک دانش ور دوست یوگندر سکند پاکستان آئے تو میرے ایما پر ان کے ساتھ ’’المورد‘‘ میں بھی ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔ غوری صاحب بھی اس میں موجود تھے۔ لاہور میں یوگندر سکند کی میزبان دیپ نامی ایک خاتون تھیں جو پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک خاص نقطۂ نظر رکھتی تھیں۔ مذکورہ نشست میں انھوں نے غالباً تقسیم کے حوالے سے کوئی ایسی بات کہہ دی تو میں نے دیکھا کہ غوری صاحب خاصے جذباتی ہو گئے اور کافی سخت لہجے میں ان کی تردید کرتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ غالباً یہ واحد موقع تھا جب میں نے انھیں غصے کی حالت میں دیکھا۔ اس کے علاوہ عمومی طور پر وہ بڑے خوش گوار موڈ میں رہتے تھے۔
علمی وتحقیقی کتابوں کی تلاش اور پھر دوسرے اہل علم تک انھیں پہنچانا، غوری صاحب کا خاص ذوق تھا۔ اس مقصد کے لیے شہر کے کتب فروشوں ، خاص طور پر پرانی کتابیں بیچنے والوں اور کتابوں کی عمدہ ومعیاری فوٹو کاپی اور جلد بندی کرنے والے حضرات کے ساتھ ان کے خصوصی روابط تھے۔ الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے دائرۂ معارف امریکیہ (Encyclopedia Americana) کا ایک نسبتاً پرانا نسخہ غوری صاحب ہی کی عنایت سے نہایت ارزاں داموں مہیا ہوا۔ اس کے علاوہ بھی ان کی طرف سے فراہم کردہ متعدد علمی کتابوں کے مجلد عکسی نسخے میری ذاتی اور اکادمی کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ وہ کتاب کی عکسی نقل اور جلد بندی ایسے خوب صورت انداز میں کرواتے تھے کہ ایک نظر دیکھنے پر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا تھا کہ یہ اصل چھپی ہوئی کتاب ہے یا اس کی عکسی نقل۔
یہودیت ومسیحیت اور بائیبل کا تحقیقی مطالعہ، جیسا کہ عرض کیا گیا، ان کا خاص موضوع تھا اور وہ اس کے نہایت بلند پایہ متخصص کا درجہ رکھتے تھے۔ اس حوالے سے ان کے متعدد نتائج تحقیق مقالات اور کتابوں کی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ کتاب استثناء کی پیشین گوئی پر ان کا پرانا مقالہ معلوم نہیں کہ پایۂ تکمیل کو پہنچا اور کہیں شائع ہوا یا نہیں، لیکن وہ نامکمل حالت میں بھی خاصے کی چیز ہے۔ ’’ذبیح کون ہے؟‘‘ کے موضوع پر ہمارے دینی لٹریچر میں اب تک کی آخری چیز مولانا حمید الدین فراہی علیہ الرحمہ کا رسالہ سمجھا جاتا ہے اور قرآن مجید اور تورات کے داخلی شواہد کی حد تک یقیناًاب بھی ہے، تاہم غوری صاحب نے اس بحث میں یہودی تاریخی لٹریچر سے متعلق بعض نکات کی تحقیق کے ضمن میں نمایاں علمی اضافہ کیا ہے اور ان کی یہ تحقیق ’’المورد‘‘ کے زیر اہتمام اردو اور انگریزی، دونوں زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ کتاب زبور کے ایک پیراگراف پر مبنی ان کی تحقیقی کتاب بھی سامنے آ چکی ہے جس میں، غوری صاحب کی تحقیق کے مطابق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کو بیان کیا گیا ہے۔ غوری صاحب اپنی شائع ہونے والی ہر نئی تصنیف بڑے اہتمام کے ساتھ مجھے عنایت فرماتے تھے اور یہ وعدہ بھی لیتے تھے کہ میں اس پر ’الشریعہ‘ میں تفصیلی تبصرہ کروں گا۔ افسوس ہے کہ ان کی طرف سے متعدد بار یاددہانی کے باوجود میں ان کی یہ فرمایش پوری نہیں کر سکا۔
۲۰۰۳ء؍۲۰۰۴ء میں جب میں نے مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا تو اس پر غوری صاحب کا رد عمل خلاف توقع تھا۔ یہودیت ومسیحیت کے مطالعے سے ان کے خصوصی شغف کے تناظر میں میرا گمان یہی تھا کہ وہ بھی اس مسئلے کو ’’اسلامی غیرت‘‘ کے زاویۂ نظر سے دیکھتے ہوں گے اور میرا نقطۂ نظر انھیں پسند نہیں آئے گا، لیکن مجھے حیرانی ہوئی جب ایک موقع پر انھوں نے میرے نقطۂ نظر سے اتفاق کیا اور کہا کہ مسلمانوں کو ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو میں رکاوٹ ڈالنے کے بجاے اس معاملے میں یہودیوں کی مدد کرنی چاہیے۔
غوری صاحب نے مطالعۂ یہودیت ومسیحیت کا یہ ذوق اپنی اگلی نسل کو بھی منتقل کیا ہے۔ ان کے فرزند برادرم ڈاکٹر احسان الرحمن غوری صاحب (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور) کو اپنے والد محترم سے اس موضوع پر براہ راست تربیت پانے کا موقع ملا ہے اور انھوں نے اپنا ایم فل اور ڈاکٹریٹ کا تحقیقی کام بھی انھی موضوعات سے متعلق ان کی زیر نگرانی مکمل کیا ہے۔مجھے پوری امید ہے کہ وہ اس روایت کو نہ صرف زندہ رکھیں گے، بلکہ اس میدان میں تحقیق ومطالعہ کی وسعتوں میں مزید اضافہ کریں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے مرحوم بزرگ کی دینی خدمات کا اعلیٰ سے اعلیٰ صلہ عطا فرمائے، ان کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے اور ان کے اَخلاف کو ان کے کیے ہوئے علمی وتحقیقی کام کا فیض زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

 

____________

 تاریخ: جون 2012ء
بشکریہ: عمار ناصر

مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Jan 06, 2016
3481 View