نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی

ترجمہ و تدوین: شاہد رضا

عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِکَبْشٍ أَقْرَنَ یَطَأُ فِیْ سَوَادٍ وَیَبْرُکُ فِیْ سَوَادٍ وَیَنْظُرُ فِیْ سَوَادٍ فَأُتِیَ بِہِ لِیُضَحِّیَ بِہِ فَقَالَ لَہَا: یَا عَاءِشَۃُ، ہَلُمِّی الْمُدْیَۃَ، ثُمَّ قَالَ: اشْحَذِیْہَا بِحَجَرٍ فَفَعَلَتْ، ثُمَّ أَخَذَہَا وَأَخَذَ الْکَبْشَ فَأَضْجَعَہُ، ثُمَّ ذَبَحَہُ، ثُمَّ قَالَ: بِاسْمِ اللّٰہِ أَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ، ثُمَّ ضَحّٰی بِہِ.

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: شَہِدْتُّ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَضْحٰی بِالْمُصَلّٰی فَلَمَّا قَضٰی خُطْبَتَہُ نَزَلَ مِنْ مِنْبَرِہِ وَأُتِیَ بِکَبْشٍ فَذَبَحَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہِ وَقَالَ: بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ ہٰذَا عَنِّیْ وَعَمَّنْ لَمْ یُضَحِّ مِنْ أُمَّتِیْ.
عَنْ عَاءِشَۃَ وَعَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ یُّضَحِّیَ إِشْتَرٰی کَبْشَیْنِ عَظِیْمَیْنِ سَمِیْنَیْنِ أَقْرَنَیْنِ أَمْلَحَیْنِ مَوْجُوْءَ یْنِ فَذَبَحَ أَحَدَہُمَا عَنْ أُمَّتِہِ لِمَنْ شَہِدَ لِلّٰہِ بِالتَّوْحِیْدِ

وَشَہِدَ لَہُ بِالْبَلَاغِ وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.

ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا )سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم فرمایا، جو سیاہ پاؤں، سیاہ پیٹ اور سیاہ حلقوں والی آنکھوں والا(خوب صورت) ہو۔ چنانچہ ایسا مینڈھا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس لایا گیا تاکہ آپ اس کی قربانی کریں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت عائشہ سے فرمایا: اے عائشہ، چھری لائیے، پھر آپ نے فرمایا: اسے پتھر سے تیز کر لیں، میں نے ایسا ہی کر دیا، پھر آپ نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑ کر نیچے لٹایااور اسے ذبح فرمایا، پھر آپ نے فرمایا: اللہ کے نام سے۱، اے اللہ، اسے محمد، آل محمد اور امت محمدکی طرف سے قبول فرما۲۔ پھر آپ نے اسے دن کے پہلے حصے میں کھایا۳۔
حضرت جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدالاضحی میں عیدگاہ میں حاضر تھا۔جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنا خطبہ پورا کر لیا تو اپنے منبر سے اترے اور ایک مینڈھا لایا گیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھوں سے ذبح کیا ۴اور فرمایا: بسم اللہ واللہ اکبر، یہ میری طرف سے اور میری امت میں سے اس شخص کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔
ام المومنین حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ( رضی اللہ عنہما) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قر بانی کرنے کا ارادہ فرماتے تودو بڑے، موٹے، سینگوں والے، سیاہ و سفید (خوب صورت) اور خصی مینڈھے خریدتے ۵، اور ان میں سے ایک اپنے اس امتی کی طرف سے ذبح فرماتے جو توحید کا اقرار کرتا ہو اور اس بات کی شہادت دیتا ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا پیغام) پہنچا چکے ہیں اور دوسرا اپنی اور اپنی آل کی طرف سے ذبح فرماتے۔

ترجمے کے حواشی

۱۔ یہ شریعت اسلامیہ کا ایک مستقل حکم ہے، اس لیے کھائے جانے والے تمام جانور صرف او ر صرف اللہ تعالیٰ کے نام پر ہی قربان کیے جائیں گے۔ اس حکم سے تجاوز کی صورت میں وہ جانور قربانی کے لیے درست نہیں ہیں۔
۲۔ اپنے اہل خانہ کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست کے سربراہ ہونے کے سبب، اہل اسلام کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی، اپنے اہل خانہ اور تمام مسلم امہ کی طرف سے قربانی کی، بالخصوص ان مومنین کی طرف سے قربانی کی جو بعض وجوہ کی بنا پر قربانی نہیں کر پائے تھے، جیساکہ اگلی روایت میں یہ بات مزید واضح ہو گئی ہے۔
۳۔ عام طور پر یہ روایت کیا گیا ہے کہ عید الاضحی کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم قربانی سے پہلے کچھ تناول نہیں فرماتے تھے، اور قربانی کے بعدذبح کیے گئے جانور کے گوشت سے اپنا روزہ افطار فرماتے تھے۔
۴۔ اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات عیدگاہ میں ہی قربانی کرتے تھے، جبکہ پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قربانی اپنے گھر ہی کے باہر کی۔ احکام الٰہیہ کے معلم ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے پیغام رساں ہونے کی حیثیت سے یہ بات بالکل قابل فہم ہے۔ عبادت کے حوالے سے بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کے سامنے عمل کرتے تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعامل کا مشاہدہ کریں اور اسے سیکھ لیں، جبکہ ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی عمل خلوت میں اپنے گھر میں کیا ہو۔
۵۔ پہلی دونوں روایتوں کے برعکس تیسری روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کے بجاے دو مینڈھوں کی قربانی کی۔ اس سے یہ بات بالبداہت واضح ہے کہ حالات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات ایک مینڈھے کی قربانی کی، جبکہ بعض اوقات دو یا دو سے زیادہ کی قربانی کی۔ تاہم یہ بات دل چسپ ہے کہ یہ روایت ایسے الفاظ میں روایت کی گئی ہے جن کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عمل تھا، جبکہ پہلی دونوں روایتیں اس سے مختلف تصویر پیش کرتی ہیں۔ یہ ایک دل چسپ حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ حدیث کے مطالعے کے ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ممکن ہے کہ راوی نے ایک خاص اور شاذ واقعے کو عمومی واقعے کے طور پر روایت کیا ہو۔ بعض اوقات یہ حقیقت اس وقت واضح ہو جاتی ہے جب اس باب کی دوسری روایات کو جمع کیا جائے، جیساکہ اس روایت سے واضح ہے، اور بعض اوقات یہ بات واضح نہیں ہوتی، بالخصوص جب پہلے مرحلے میں چند راویوں نے واقعے کو روایت کیا ہو۔

متون

بعض اختلافات کے ساتھ پہلی روایت مسلم، رقم ۱۹۶۷؛ ابوداؤد، رقم ۲۷۹۲؛ احمد، رقم۲۴۵۳۵؛ ابن حبان، رقم ۵۹۱۵؛ بیہقی، رقم۱۸۸۲۵۔۱۸۹۶۴ میں روایت کی گئی ہے۔
بعض اختلافات کے ساتھ دوسری روایت ابوداؤد، رقم ۲۸۱۰؛ترمذی، رقم۱۵۲۱؛ احمد، رقم۱۱۰۶۶، ۱۴۸۸۰، ۱۴۹۳۶، ۱۴۹۳۸ اور بیہقی، رقم۱۸۸۱۲۔۱۸۹۶۵ میں روایت کی گئی ہے۔
بعض اختلافات کے ساتھ تیسری روایت ابن ماجہ، رقم ۳۱۲۲؛ احمد، رقم۲۵۸۸۵، ۲۵۹۲۸، ۲۷۲۳۴؛ بیہقی، رقم۱۸۷۸۸، ۱۸۸۲۶۔۱۸۸۲۸، ۱۸۸۶۸، ۱۸۹۶۷ اور ابویعلٰی، رقم۱۴۱۷۔۱۴۱۸، ۳۱۱۸ میں روایت کی گئی ہے۔

پہلی روایت

ابوداؤد، رقم۲۷۹۲ میں ’فأتی بہ لیضحی بہ‘(چنانچہ ایسا مینڈھا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس لایا گیا تاکہ آپ اس کی قربانی کریں) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’فأتی بہ فضحی بہ‘ روایت کیے گئے ہیں۔
ابن حبان، رقم۵۹۱۵ میں ’اشحذیہا بحجر‘(اسے پتھر سے تیز کر لیں) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’حدیہا بحجر‘ روایت کیے گئے ہیں۔
ابن حبان، رقم۵۹۱۵ میں ’باسم اللّٰہ أللّٰہم تقبل من محمد‘(اللہ کے نام سے، اے اللہ، اسے محمد کی طرف سے قبول فرما) کے الفاظ کے بجاے ’بسم اللّٰہ أللّٰہم باسمک من محمد‘ (اللہ کے نام سے، اے اللہ، تیرے نام سے محمد کی طرف سے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

دوسری روایت

احمد،ر قم۱۴۸۸۰ میں ’بسم اللّٰہ واللّٰہ أکبر، ہذا عنی وعمن لم یضح من أمتی‘(بسم اللہ واللہ اکبر، یہ میری طرف سے اور میری امت میں سے اس شخص کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی) کے بجاے ’بسم اللّٰہ واللّٰہ أکبر، أللّٰہم ہذا عنی وعمن لم یضح من أمتی‘(بسم اللہ واللہ اکبر، اے اللہ، یہ میری طرف سے اور میری امت میں سے اس شخص کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں، جبکہ احمد، رقم۱۴۹۳۶ میں یہ الفاظ ’بسم اللّٰہ وباللّٰہ، أللّٰہم ہذا عنی وعمن لم یضح من أمتی‘ (بسم اللہ وباللہ ، اے اللہ، یہ میری طرف سے اور میری امت میں سے اس شخص کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی) روایت کیے گئے ہیں۔
احمد، رقم ۱۱۰۶۶ میں یہ روایت درج ذیل الفاظ میں روایت کی گئی ہے:

أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضحی بکبش أقرن وقال: ہذا عنی وعمن لم یضح من أمتی.
’’(روایت کیا گیا ہے) کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سینگوں والے مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایا: یہ میری طرف سے اور میری امت میں سے اس شخص کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔‘‘

تیسری روایت

احمد، رقم ۲۷۲۳۴ میں یہ روایت اس طرح روایت کی گئی ہے:

أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا ضحی إشتری کبشین سمینین أقرنین أملحین فإذا صلی وخطب الناس أتی بأحدہما وہو قائم فی مصلاۃ فذبحہ بنفسہ بالمدیۃ، ثم یقول: أللّٰہم أن ہذا عن أمتی جمیعًا ممن شہد لک بالتوحید وشہد لی بالبلاغ، ثم یؤتی بالآخر فیذبحہ بنفسہ ویقول: ہذا عن محمد وآل محمد فیطعمہما جمیعًا المساکین ویاکل ہو وأہلہ منہما.
’’(روایت کیا گیا ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قر بانی کرنے کا ارادہ فرماتے تودو بڑے، موٹے، سینگوں والے، سیاہ و سفید (خوب صورت) مینڈھے خریدتے، پھر جب آپ نماز اور لوگوں کے سامنے خطبے سے فارغ ہوتے تو ان میں سے ایک مینڈھا لایا جاتا، جبکہ آپ ابھی جاے نماز پر ہی ہوتے ، آپ خود چھری کے ساتھ اسے ذبح کرتے، پھر دعا میں کہتے: اے اللہ، یہ میرے ان امتیوں کی طرف سے ہے جو تیری توحید کی گواہی دیں اور اس بات کی گواہی دیں کہ میں نے (تیرا پیغام) پہنچا دیا ہے۔ پھر دوسرا مینڈھا لایا جاتا اور اسے بھی آپ خود ذبح کرتے اور فرماتے: یہ محمد اور آل محمد کی طرف سے ہے۔ پھر آپ ان دونوں کا گوشت تمام مساکین کو کھلاتے اور خود بھی اور آپ کے اہل خانہ بھی ان کا گوشت کھاتے۔‘‘

بیہقی، رقم۱۸۸۲۷ میں یہ روایت ان الفاظ میں روایت کی گئی ہے:

أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أتی بکبشین أملحین أقرنین عظیمین موجوء ین فأضجع أحدہما فقال: بسم اللّٰہ واللّٰہ أکبر أللّٰہم ہذا عن محمد، ثم أضجع الآخر فقال: بسم اللّٰہ واللّٰہ أکبر أللّٰہم ہذا عن محمد وأمتہ ممن شہد لک بالتوحید وشہد لی بالبلاغ فذبحہ.
’’(روایت کیا گیا ہے) کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو سیاہ و سفید (خوب صورت)، سینگوں والے، بڑے اور خصی مینڈھے لائے گئے تو آپ نے ان کو لٹایا اور فرمایا: بسم اللہ واللہ اکبر، اے اللہ، یہ محمد کی طرف سے ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دوسرا مینڈھا لٹایا اور فرمایا: بسم اللہ واللہ اکبر، اے اللہ، یہ میری اور میری اس امت کی طرف سے ہے جس نے تیری توحید کی گواہی دی اور اس بات کی گواہی دی کہ میں نے (تیرا پیغام) پہنچا دیا ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے ذبح فرمایا۔‘‘

بیہقی، رقم۱۸۹۶۷ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا ’بسم اللّٰہ واللّٰہ أکبر أللّٰہم منک ولک عن محمد وأمتہ من شہد لک بالتوحید وشہد لی بالبلاغ‘(بسم اللہ واللہ اکبر، اے اللہ، یہ نعمت تیری طرف سے ہے اور یہ قربانی محمد اور ان کی اس امت کی طرف سے ہے جس نے تیری توحید کی گواہی دی اور اس بات کی گواہی دی کہ میں نے (تیرا پیغام) پہنچا دیا ہے ) کے الفاظ میں روایت کی گئی ہے۔
ابویعلٰی، رقم ۱۴۱۷ میں یہ روایت قدرے مختلف الفاظ میں روایت کی گئی ہے:

أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضحی بکبشین أملحین، فقال عند الذبح الأول: عن محمد وآل محمد وقال عند الذبح الثانی: عمن آمن بی وصدق من أمتی.
’’(روایت کیا گیا ہے) کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خوب صورت مینڈھوں کی قربانی کی اور پہلے کو ذبح کرتے ہوئے فرمایا: یہ محمد اور آل محمد کی طرف سے ہے، اور دوسرے کو ذبح کرتے ہوئے فرمایا: یہ میری امت میں سے اس شخص کی طرف سے ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی۔‘‘

ابویعلٰی، رقم ۳۱۱۸ میں یہ روایت اس طرح روایت کی گئی ہے:

ضحی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بکبشین أقرنین أملحین، فقرب أحدہما فقال: بسم اللّٰہ أللّٰہم منک ولک ہذا عن محمد وأہل بیتہ وقرب الآخر فقال: بسم اللّٰہ أللّٰہم منک ولک ہذا عمن وحدک من أمتی.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خوب صورت مینڈھوں کی قربانی کی۔ جب (قربانی کے لیے) ان میں سے ایک کے قریب ہوئے تو فرمایا: اللہ کے نام سے، اے اللہ، یہ نعمت تیری طرف سے ہے اور یہ قربانی محمد اور ان کے اہل بیت کی طرف سے تیرے لیے ہے، اور دوسرے کے قریب ہوئے تو فرمایا: اللہ کے نام سے، اے اللہ، یہ نعمت تیری طرف سے ہے اور یہ قربانی میری امت میں سے اس شخص کی طرف سے جس نے تجھے ایک مانا۔‘‘

مذکورہ روایات میں بعض اضافی الفاظ کے ساتھ ابوداؤد، رقم ۲۷۹۵ میں یہ روایت کچھ مختلف الفاظ میں روایت کی گئی ہے:

ذبح النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الذبح کبشین أقرنین أملحین موجئین فلما وجہہما قال: إنی وجہت وجہی للذی فطر السماوات والأرض علی ملۃ إبراہیم حنیفًا وما أنا من المشرکین إن صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للّٰہ رب العالمین لا شریک لہ وبذلک أمرت وأنا من المسلمین أللّٰہم منک ولک عن محمد وأمتہ باسم اللّٰہ واللّٰہ أکبر ثم ذبح.
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحی کے دن دو سینگوں والے، خوب صورت اور خصی مینڈھوں کی قربانی کی۔ چنانچہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا: میں نے اپناچہرہ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، ملت ابراہیم پر جو (پروردگار کے لیے) بالکل یک سو تھے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ بے شک، میری نماز، میری قربانی، میری حیات اور میری موت اللہ رب العٰلمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں سر تسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوں۔ اے اللہ، یہ نعمت تیری طرف سے ہے اور یہ قربانی محمد اور ان کی امت کی طرف سے تیرے لیے ہے، اللہ کے نام سے، اور وہ سب سے عظیم ہے۔ پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے ذبح فرمایا۔‘‘

یہ روایت بیہقی، رقم۱۸۹۶۶ میں بھی روایت کی گئی ہے۔ تاہم علامہ ناصر الدین الالبانی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔

____________

بشکریہ ماہنامہ اشراق
تحریر/اشاعت جون 2015
Uploaded on : May 26, 2016
3277 View