تقسیم وراثت - جاوید احمد غامدی

تقسیم وراثت

 تقسیم وراثت کا قانون قرآن مجید کی سورۂ نساء (۴) میں بیان ہوا ہے۔ یہ قانون جہاں مذکور ہے، وہیں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کو ہمیشہ کے عذاب کی وعید سنائی ہے جو اِس قانون کو تبدیل کریں یا جانتے بوجھتے اِس کی خلاف ورزی کی جسارت کریں۔ یہ وعید اگرچہ اُن سب حدود الٰہی کے بارے میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں واضح طور پر مقرر کر دی ہیں، لیکن تقسیم وراثت کا ضابطہ بیان کرنے کے فوراً بعد اِس کا ذکر بتاتا ہے کہ خاص اِس ضابطے کی خلاف ورزی لوگوں کے لیے کس قدر سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ، وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ، خٰلِدِیْنَ فِیْھَا، وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ. وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ، یُدْخِلْہُ نَارًا، خَالِدًا فِیْھَا، وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ.(النساء ۴:۱۳۔۱۴) 
’’یہ اللہ کی ٹھیرائی ہوئی حدیں ہیں، (اِن سے آگے نہ بڑھو) اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں برداری کریں گے، اُنھیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اُس کی ٹھیرائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھیں گے، اُنھیں ایسی آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کے لیے رسوا کر دینے والی سزا ہے۔‘‘

یہ وعید اِس قدر سخت ہے کہ آدمی آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اِس کو پڑھ کر کانپ جاتا ہے، لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان بالکل یہودیوں کی سی جسارت کے ساتھ خدا کے اِس قانون کو بدلتے بھی ہیں اور عملاً اِس کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اِس معاملے میں جو نافرمانیاں ہوتی ہیں، وہ خدا کے خلاف کھلی بغاوت کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ عورتوں کو میراث سے محروم کرتے ہیں۔ یہ قانون اگر کسی جگہ ریاست کی سطح پر نافذ ہے تو عدالتوں کی گرفت سے بچنے کے لیے بالکل ناجائز طریقوں سے دباؤ ڈال کر اُن سے دست برداری کی دستاویزات لکھواتے ہیں۔ عورتوں اور مردوں کا حصہ جہاں برابر نہیں ہے، اُسے برابر کر دینے کی جسارت کرتے ہیں۔ صرف بڑے بیٹے کو میراث کا مستحق ٹھیراتے ہیں۔ دیہات میں بالخصوص مشترک خاندانی جائداد کا طریقہ اختیار کر لینے پر اصرار کرتے ہیں۔ یتیموں کا حصہ کھا جانے کی تدبیریں کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر وہ کام کرتے ہیں جسے خدا کے قانون سے کھلی بغاوت ہی کہا جا سکتا ہے۔
یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ اُنھیں مسجدوں سے متنبہ کیا جائے، منبروں سے پکارا جائے، ریڈیو، ٹیلیویژن اور اخبارات کے ذریعے سے باربار توجہ دلائی جائے، تعلیم و تربیت کے اداروں میں درس دیا جائیق کہ دنیا کی زندگی اور اُس کا مال و منال ایک متاع غرور ہے۔ روز قیامت خدا کی بادشاہی میں حصہ پانے کے بجاے یہ تم کس چیز کا انتخاب کر رہے ہو۔ قرآن کے الفاظ میں گویا اپنے پیٹ میں انگارے بھر رہے ہو۔ اُنھیں بتایا جائے کہ ہمیشہ کی دوزخ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اُس سے بچو اور اپنی میراث پوری دیانت داری کے ساتھ ٹھیک اُس قانون کے مطابق تقسیم کرو جو اللہ نے اِس باب میں مقرر کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی شخص نے بالشت برابر زمین پر بھی ناجائز قبضہ کیا تو قیامت میں اُس کو طوق بنا کر اُس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔*
تقسیم وراثت کا یہ قانون کیا ہے؟ اِس کی تفصیلات ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کر دی ہیں۔ یہاں محض یاددہانی کے لیے اُس کا خلاصہ چند نکات کی صورت میں بیان کیے دیتے ہیں۔
۱۔ مرنے والے کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے اُس کے ترکے میں سے وہ ادا کیا جائے گا۔ پھر کوئی وصیت اگر اُس نے کی ہو تو وہ پوری کی جائے گی۔ اِس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی۔
۲۔ وارث کے حق میں وصیت نہیں ہو سکتی، الاّ یہ کہ اُس کے حالات یا اُس کی کوئی خدمت یا ضرورت کسی خاص صورت حال میں اِس کا تقاضا کرے۔ 
۳۔ والدین اور بیوی یا شوہر کا حصہ دینے کے بعد ترکے کی وارث میت کی اولاد ہے۔ مرنے والے نے کوئی لڑکا نہ چھوڑا ہو اور اُس کی اولاد میں دو یا دو سے زائد لڑکیاں ہی ہوں تو اُنھیں بچے ہوئے ترکے کا دو تہائی دیا جائے گا۔ ایک ہی لڑکی ہو تو وہ اُس کے نصف کی حق دار ہوگی۔ میت کی اولاد میں صرف لڑکے ہی ہوں تو یہ سارا مال اُن میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ اولاد میں لڑکے لڑکیاں، دونوں ہوں تو ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہو گا اور اِس صورت میں بھی سارا مال اُنھی میں تقسیم کیا جائے گا۔
۴۔ اولاد کی غیر موجودگی میں میت کے بھائی بہن اولاد کے قائم مقام ہیں۔ والدین اور بیوی یا شوہر موجود ہوں تو اُن کا حصہ دینے کے بعد میت کے وارث یہی ہوں گے۔ ذکور و اناث کے لیے اُن کے حصے اور اُن میں تقسیم وراثت کا طریقہ وہی ہے جو اولاد کے لیے اوپر بیان ہوا ہے۔
۵۔ میت کے اولاد ہو یا اولاد نہ ہو اور بھائی بہن ہوں تو والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ دیا جائے گا۔ بھائی بہن بھی نہ ہوں اور تنہا والدین ہی میت کے وارث ہوں تو ترکے کا ایک تہائی ماں اور دو تہائی باپ کا حق ہے۔ 
۶۔ مرنے والا مرد ہو اور اُس کی اولاد ہو تو اُس کی بیوی کو ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اُس کے اولاد نہ ہو تو وہ ایک چوتھائی ترکے کی حق دار ہوگی۔ میت عورت ہو اور اُس کی اولاد نہ ہو تو نصف ترکہ اُس کے شوہر کا ہے اور اگر اُس کے اولاد ہو تو شوہر کو چوتھائی ترکہ ملے گا۔
۷۔ اِن وارثوں کی عدم موجودگی میں مرنے والا اگر چاہے تو کسی کو ترکے کا وارث بنا سکتا ہے۔ جس شخص کو وارث بنایا گیا ہو، وہ اگر رشتہ دار ہو اور اُس کا ایک بھائی یا بہن ہو تو چھٹا حصہ اور ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو ایک تہائی اُنھیں دینے کے بعد باقی ۶/۵ یا دو تہائی اُسے ملے گا۔

________

* بخاری، رقم ٣١٩٨۔ مسلم، رقم ٤١٣٣۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اکتوبر 2010
مصنف : جاوید احمد غامدی