اصول و مبادی - جاوید احمد غامدی

اصول و مبادی

 ہم نے دین کو جس طرح سمجھاہے، اُس میں تین چیزیں بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی ہیں:

اول یہ کہ قرآن حق و باطل کے لیے میزان اور فرقان اور تمام سلسلۂ وحی پر ایکمُہَیْمِنہے۔ یہ اِس لیے نازل کیا گیا ہے کہ دین و شریعت کے معاملے میں لوگوں کے مابین تمام اختلافات کا فیصلہ کر دے اور اِس کے نتیجے میں وہ ٹھیک حق پرقائم ہو جائیں۔ قرآن نے اپنی یہ حیثیت اپنے لیے خود بیان فرمائی ہے، لہٰذا اِس کی بنیاد پر جو باتیں اُس کے بارے میں بطور اصول ماننی چاہییں، وہ یہ ہیں:

اولاً، اُس کا متن بالکل متعین ہے۔ یہ وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسیمغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں امت مسلمہ کی عظیم اکثریت اِس وقت تلاوت کر رہی ہے۔ یہ تلاوت جس قراء ت کے مطابق کی جاتی ہے، اُسے قراء ت عامہ کہا جاتا ہے۔ اِس کے سوا کوئی دوسری قراء ت نہ قرآن ہے اورنہ اُسے قرآن کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔

ثانیاً، قرآن قطعی الدلالۃ ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کے الفاظ پوری صلاحیت رکھتے ہیں کہ انسان اُن کی رہنمائی قبول کر لے تو اُسے قطعیت کے ساتھ ٹھیک اُس مدعا تک پہنچا دیں جس کے لیے وہ لائے گئے ہیں۔ یہ صرف قلت علم اور قلت تدبر ہے جس کی بنا پر انسان بعض اوقات اُسے سمجھنے سے قاصر رہ جاتا ہے ۔ قرآن کی زبان اور اُس کے اسالیب بیان سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اپنا مدعا بیان کرنے سے کبھی قاصر نہیں رہتا۔

ثالثاً، قرآن کی وہ سب آیتیں محکم ہیں جن پر اُس کی ہدایت کا مدار ہے اور متشابہات صرف وہ آیتیں ہیں جن میں آخرت کی نعمتوں اور نقمتوں میں سے کسی نعمت یا نقمت کا بیان تمثیل اور تشبیہ کے انداز میں ہوا ہے یا اللہ تعالیٰ کے صفات و افعال اور ہمارے علم اور مشاہدے سے ماورا اُس کے کسی عالم کی کوئی بات تمثیلی اسلوب میں بیان کی گئی ہے۔ یہ آیتیں نہ غیر متعین ہیں اور نہ اِن کے مفہوم میں کوئی ابہام ہے۔ اِن کے الفاظ بھی عربی مبین ہی کے الفاظ ہیں اور اِن کے معنی ہم بغیر کسی تردد کے سمجھتے ہیں۔ اِن کی حقیقت ، البتہ ہم اِس دنیا میں نہیں جان سکتے، لیکن اِس جاننے اور نہجاننے کا قرآن کے فہم سے چونکہ کوئی تعلق نہیں ہے، اِس لیے ہم اِس کے درپے بھی نہیں ہوتے۔

رابعاً، قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر وہ نازل ہوا ہے، اُس کے کسی حکم میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے ردوقبول کا فیصلہ اُس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ ایمان و عقیدہ کی ہر بحث اُس سے شروع ہوتی اور اُسی پر ختم کر دی جاتی ہے۔ ہر وحی، ہر الہام ، ہر القا، ہر تحقیق اور ہر راے اُس کے تابع ہے۔ بوحنیفہ و شافعی ، بخاری و مسلم، اشعری و ماتریدی اور جنید و شبلی، سب پر اُس کی حکومت قائم ہے اور اُس کے خلاف اِن میں سے کسی کی کوئی چیز بھی قبول نہیں کی جا سکتی۔

دوم یہ کہ سنت دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ قرآن میں آپ کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ روایت بھی اُسی کا حصہ ہے۔ ثبوت کے اعتبار سے اِس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے، یہ اِسی طرح اُن کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا اِس کے بارے میں کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔

سوم یہ کہ دین صرف وہی ہے جو قرآن و سنت میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اُسے دین قرار دیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحادجنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، اُن سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں اُن میں آتی ہیں، وہ درحقیقت، قرآن و سنت میں محصور اِسی دین کی تفہیم و تبیین اور اِس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اِس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اُسے قبول کیا جا سکتا ہے۔

اِس دائرے کے اندر، البتہ حدیث کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اُس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اُسے قبول کر لیتا ہے ۔ اُس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اُس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سرتسلیم خم کر دے۔

[۲۰۱۰ء]

_______________

یہ آرٹیکل جاوید احمد غامدی کی کتاب ’’مقامات‘‘ سے لیا گیا ہے۔
’’مقامات‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : جاوید احمد غامدی