اسلام کے مبادی - جاوید احمد غامدی

اسلام کے مبادی

تحقیق و تخریج: محمدعامر گزدر

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: ۱ کُنَّا قَدْ نُہِیْنَا [فِی الْقُرْآنِ]۲ أَنْ نَسْأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ شَیْءٍ،۳ فَکَانَ یُعْجِبُنَا أَنْ یَجِیْءَ الرَّجُلُ مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ الْعَاقِلُ، فَیَسْأَلُہُ وَنَحْنُ نَسْمَعُ،۴[وَکَانُوْا أَجْرَأَ عَلٰی ذَاکَ مِنَّا]۵[قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُلُوْسًا فِی الْمَسْجِدِ دَخَلَ رَجُلٌ۶ عَلٰی جَمَلٍ فَأَنَاخَہُ فِی الْمَسْجِدِ، فَعَقَلَہُ۷ ثُمَّ قَالَ: أَیُّکُمْ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ؟ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ مُتَّکِی بَیْنَ ظَہْرَانَیْہِمْ، قَالَ: فَقُلْنَا: ہَذَا الرَّجُلُ الْأَبْیَضُ الْمُتَّکِی.۸ فَقَالَ الرَّجُلُ: یَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَبْتُکَ، ۹فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنِّیْ یَا مُحَمَّدُ سَاءِلُکَ فَمُشَدِّدٌ عَلَیْکَ فِی الْمَسْأَلَۃِ، فَلَا تَجِدْ عَلَیَّ فِیْ نَفْسِکَ. فَقَالَ: سَلْ مَا بَدَا لَکَ] ۱۰ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، أَتَانَا رَسُوْلُکَ فَزَعَمَ لَنَا أَنَّکَ تَزْعُمُ أَنَّ اللّٰہَ أَرْسَلَکَ. قَالَ: صَدَقَ، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ السَّمَاءَ؟ قَالَ:اللّٰہُ، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ الْأَرْضَ؟ قَالَ: اللّٰہُ، قَالَ: فَمَنْ نَصَبَ ہٰذِہِ الْجِبَالَ، وَجَعَلَ فِیہَا مَا جَعَلَ؟۱۱ قَالَ: اللّٰہُ. قَالَ: فَبِالَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاءَ، وَخَلَقَ الْأَرْضَ، وَنَصَبَ ہٰذِہِ الْجِبَالَ۱۲ آللّٰہُ أَرْسَلَکَ؟۱۳ قَالَ: نَعَمْ.۱۴ قَالَ: فَزَعَمَ رَسُوْلُکَ أَنَّ عَلَیْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ یَوْمِنَا وَلَیْلَتِنَا، قَالَ: صَدَقَ. قَالَ: فَبِالَّذِی أَرْسَلَکَ، آللّٰہُ أَمَرَکَ بِہَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ.۱۵ قَالَ: وَزَعَمَ رَسُوْلُکَ أَنَّ عَلَیْنَا زَکٰوۃً ۱۶فِیْ أَمْوَالِنَا، قَالَ: صَدَقَ. قَالَ: فَبِالَّذِیْ أَرْسَلَکَ، آللّٰہُ أَمَرَکَ بِہٰذَا؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: وَزَعَمَ رَسُوْلُکَ أَنَّ عَلَیْنَا صَوْمَ شَہْرِ رَمَضَانَ فِیْسَنَتِنَا،۱۷ قَالَ: صَدَقَ. قَالَ: فَبِالَّذِیْ أَرْسَلَکَ، آللّٰہُ أَمَرَکَ بِہٰذَا؟ قَالَ: نَعَمْ.۱۸ قَالَ: وَزَعَمَ رَسُوْلُکَ أَنَّ عَلَیْنَا حَجَّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا، قَالَ: صَدَقَ.۱۹ [فَقَالَ الرَّجُلُ: آمَنْتُ بِمَا جِءْتَ بِہِ،۲۰ وَأَنَا رَسُوْلُ مَنْ وَرَاءِیْ مِنْ قَوْمِیْ، وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَۃَ أَخُو بَنِیْ سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ]۲۱ قَالَ: ثُمَّ وَلّٰی،۲۲ فَقَالَ: وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَا أَزِیْدُ عَلَیْہِنَّ شَیْءًا، وَلَا أَنْقُصُ مِنْہُنَّ شَیْءًا،۲۳ [فَلَمَّا مَضٰی]۲۴ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَءِنْ صَدَقَ لَیَدْخُلَنَّ الْجَنَّۃَ.۲۵ [وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فَأَتٰی إِلٰی بَعِیْرِہِ، فَأَطْلَقَ عِقَالَہُ، ثُمَّ خَرَجَ حَتّٰی قَدِمَ عَلٰی قَوْمِہِ، فَاجْتَمَعُوْا إِلَیْہِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَا تَکَلَّمَ بِہِ أَنْ قَالَ: بِءْسَتِ اللَّاتُ وَالْعُزّٰی، قَالُوْا: مَہْ یَا ضِمَامُ، إِتَّقِ الْبَرَصَ وَالْجُذَامَ، إِتَّقِ الْجُنُوْنَ، قَالَ: وَیْلَکُمْ، إِنَّہُمَا وَاللّٰہِ لَا یَضُرَّانِ وَلاَ یَنْفَعَانِ، إِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ رَسُوْلًا، وَأَنْزَلَ عَلَیْہِ کِتَابًا إِسْتَنْقَذَکُمْ بِہِ مِمَّا کُنْتُمْ فِیْہِ، وَإِنِّیْ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ، إِنِّیْ قَدْ جِءْتُکُمْ مِنْ عِنْدِہِ بِمَا أَمَرَکُمْ بِہِ، وَنَہَاکُمْ عَنْہُ، قَالَ: فَوَاللّٰہِ مَا أَمْسٰی مِنْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ وَفِیْ حَاضِرِہِ رَجُلٌ وَلَا امْرَأَۃٌ إِلاَّ مُسْلِمًا، قَالَ: یَقُوْلُ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَمَا سَمِعْنَا بِوَافِدِ قَوْمٍ کَانَ أَفْضَلَ مِنْ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ].۲۶

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنھوں نے فرمایا:قرآن مجید میں ہمیں اِس بات سے روک دیا گیا تھا۱ کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں سوال کریں۔ چنانچہ ہم لوگوں کو بڑی خوشی ہوتی تھی کہ دیہاتیوں میں سے کوئی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص آئے، آپ سے سوال کرے اور ہم سنیں۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ سوال کرنے میں ہم سے کچھ زیادہ جرأ ت دکھاتے تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اِس اثنا میں اونٹ پر سوار ایک شخص آیا۔ اُس نے آکر اپنا اونٹ مسجد میں بٹھایا، پھر اُسے ایک جگہ باندھ دیا، پھر پوچھا:تم میں سے اللہ کے رسول محمد کون ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت صحابہ کے درمیان کسی چیزسے ٹیک لگا ئے تشریف فرما تھے۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جواب دیا:یہ گورے شخص جو ٹیک لگائے ہوئے ہیں،(یہی محمد ہیں)۔ اُس شخص نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:عبد المطلب کے بیٹے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:کہو، میں سن رہا ہوں۔ اُس شخص نے کہا:اے محمد،میں آپ سے سوالات کروں گا اوراُن میں کچھ سخت لب ولہجہ بھی اختیار کرسکتا ہوں، آپ برامحسوس نہ کیجیے گا۔ آپ نے فرمایا:پوچھو، جو پوچھنا چاہتے ہو۔ اُس نے عرض کیا:اے محمد،آپ کا قاصد ہمارے ہاں آیا تھا ۔ اُس نے ہمیں باور کرانا چاہاکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔آپ نے فرمایا:اُس نے سچ کہا ہے۔دیہاتی نے کہا:اچھا یہ بتائیے کہ آسمان کو کس نے بنایا ہے؟آپ نے فرمایا:اللہ نے۔ اُس نے کہا:اور زمین کو کس نے تخلیق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:اللہ نے۔اُس نے کہا:اور یہ پہاڑکس نے گاڑے ہیں؟اور جو کچھ اِن میں رکھا،وہ کس نے رکھا ہے؟ آپ نے فرمایا:اللہ نے۔ اِس پراُس نے کہا:آپ کو اُس ذات کی قسم جس نے آسمان کو بنایا،زمین کو تخلیق کیا اور اِن پہاڑوں کو گاڑا ہے، کیا اللہ نے فی الواقع آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا:یقینا۔اُس نے کہا:پھرآپ کے قاصد نے یہ بھی باور کرانا چاہا کہ ہمیں شب وروز میں پانچ نمازیں لازماً پڑھنی ہیں۔آپ نے فرمایا:سچ کہا ہے۔ اُس نے کہا:یہی بات ہے تومیں آپ کو اُس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا فی الواقع اُس نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا:یقینا۔ اُس نے کہا:اور آپ کے قاصد نے یہ بھی باور کرانا چاہا کہ ہمیں اپنے اموال میں سے کچھ زکوٰۃ بھی لازماً ادا کرنی ہے۔ آپ نے فرمایا:سچ کہا ہے۔ اُس نے کہا:میں اِس پر بھی آپ کو اُس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا فی الواقع اُس نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا:یقینا۔ اُس نے کہا:اور آپ کے قاصد نے یہ بھی باور کرانا چاہا کہ ہمیں ہر سال ماہِ رمضان کے روزے بھی ضرور رکھنا ہوں گے۔ آپ نے فرمایا:سچ کہا ہے۔ اُس نے کہا:میں پھر اُسی ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا فی الواقع اُس نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا:یقینا۔ اُس نے کہا:اور آپ کے قاصد نے یہ بھی باور کرانا چاہا کہ ہم میں سے جو خدا کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، اُس پر فرض ہے کہ اُس کا حج کرے۔ آپ نے فرمایا:اُس نے یہ بات بھی بالکل سچ کہی ہے۔۲ اِس پر اُس شخص نے کہا:آپ جو ہدایت لے کر آئے ہیں، میں اُس پر ایمان لاتا ہوں۔ میرے پیچھے میری قوم ہے جس نے مجھے قاصد کی حیثیت سے آپ کے پاس بھیجا ہے ۔ میں ضمام بن ثعلبہ ہوں اور میرا تعلق بنو سعد بن بکر کے قبیلے سے ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پھروہ پلٹا اور یہ کہتے ہوئے چل پڑا: اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میں اِن باتوں میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ یا کمی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِس آدمی نے فی الواقع سچی بات کہی ہے تو یہ ضرور جنت میں جائے گا۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اِس کے بعد وہ اپنے اونٹ کے پاس آیا، اُس کی رسی کھولی، پھر واپسی کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ یہاں تک کہ اپنی قوم کے پاس پہنچا تو سب اُس کے گرد جمع ہوگئے۔ لوگوں کو دیکھتے ہی پہلی بات جو اُس کی زبان سے نکلی، وہ یہ تھی کہ کیا ہی بُرے ہیںیہ لات اور عزّٰی۔۳ لوگ پکار اُٹھے:ضمام، (یہ کیا کہہ رہے ہو؟)رک جاؤ۔ برص اور جذام سے بچو، پاگل ہوجانے سے ڈرو۴۔ ضمام نے کہا:تم پر افسوس!خدا کی قسم، یہ دونوں کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ نے اپنا رسول بھیج دیا ہے اور اُس پر وہ کتاب نازل کی ہے جس کے ذریعے سے اُس نے تمھیں اُن سب خرافات سے نجات دلا دی ہے جن میں تم مبتلا رہے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ یکتا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں اُن کے ہاں سے تمھارے لیے اُن کے اوامر ونواہی لے کر تمھارے پاس آیا ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:سو خدا کی قسم، اُس دن شام نہیں ہوئی کہ اُن کے قبیلے میں سب مرد وعورت مسلمان ہوگئے۔ راوی کا بیان ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ہم نے ضمام بن ثعلبہ سے بہتر کسی قبیلے کے نمایندے کے بارے میں نہیں سنا۔۵

ترجمے کے حواشی

۱۔ یہ سورۂ مائدہ (۵)کی آیت۱۰۱کی طرف اشارہ ہے جس میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ غیر ضروری سوالات سے اجتناب کریں۔ اِس کی ضرورت اِس لیے محسوس ہوئی کہ اِس طرح کے سوالات حکم کے حدود وقیود بڑھادیتے ہیں، پھر لوگ اُنھیں نباہ نہیں پاتے اور اِس کے نتیجے میں اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ جو حکم جس طرح دیا گیا ہے، اُس پر اُسی طرح عمل کیا جائے اور ہر مجمل کی تفصیل اور ہر مطلق کی تعیین وتقیید سے اپنے لیے مشکلات پیدا نہ کی جائیں۔قرآن کی اِس ہدایت کو تدبر کی نگاہ سے دیکھیے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اِس سے اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہر گز یہ نہیں تھا کہ لوگ ضروری سوالات سے بھی اجتناب کریں۔ تاہم صحابہ کا عام مزاج چونکہ احتیاط کا تھا، لہٰذا اُن میں سے بعض نے امتثال امر کے لیے اگر وہی رویہ اختیار کرلیا جس کا ذکر روایت میں ہوا ہے تو اِس پر تعجب نہیں کرنا چاہیے۔

۲۔انسان کی زندگی میں اسلام کا ظہور اِنھی چیزوں سے ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی جگہ جگہ اِسی حیثیت سے اِن کی تاکید کی گئی ہے۔ اِن کے بارے میں کسی بحث ونزاع کی گنجایش بھی نہیں ہے، اِس لیے کہ یہ مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے منتقل ہوئی ہیں اور ہر لحاظ سے ثابت ہیں، لہٰذا کسی مسلمان کو اِن سے انحراف کی جسارت نہیں کرنی چاہیے۔

۳۔ توحید پر ایمان کے بعد یہ فطری احساسات ہیں جن کا اظہار ضمام بن ثعلبہ نے اپنی قوم کے سامنے کیا ہے۔ انھوں نے جاتے ہی یہ بات اِس لیے کہی کہ ہر سننے والے پر واضح ہوجائے کہ اُن کا اب اپنے پرانے معبودوں سے کسی نوعیت کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا ۔

۴۔ یعنی لات وعزّٰی کو برا کہو گے تو اندیشہ ہے کہ اِن میں سے کسی بیماری میں مبتلا ہوجاؤگے۔ شرک بالعموم اِسی طرح کے توہمات سے پیدا ہوتا اور اِنھی کی بنا پر قائم رہتا ہے۔ قرآن نے اِسی لیے جگہ جگہ متنبہ فرمایا ہے کہ نفع وضرر جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور اُسی کے اذن سے پہنچتا ہے۔ آگے ضمام رضی اللہ عنہ نے یہی حقیقت پوری صراحت سے واضح فرمائی ہے۔

۵۔ یعنی جس نے اِس طریقے سے سوالات کیے ہوں اور پھر اُن کے جواب سے مطمئن ہوکر اسلام کا پیغام اپنی قوم تک اِس انداز سے اور اِس عزم وجزم کے ساتھ پہنچایا ہو۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم۱۲۴۵۷سے لیاگیا ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے علاوہ یہ مضمون ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی نقل ہوا ہے۔

۲۔مسند احمد ، رقم ۱۳۰۱۱۔

۳۔مسند دارمی، رقم۶۷۶میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’لَمَّا نُہِینَا أَنْ نَبْتَدِءَ النَّبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ’’ہمیں جب روک دیا گیا تھا کہ ہم پہل کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات پوچھیں‘‘۔ مسند ابی یعلیٰ کی حدیث رقم ۳۳۳۳میں ’کُنَّا نَہَابُ أَنْ نَسْأَلَ‘ کے الفاظ ہیں،یعنی ہم آپ سے سوال کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔

۴۔سنن ترمذی، رقم۶۱۹ میں ’کُنَّا نَتَمَنّٰی أَنْ یَبْتَدِءَ الْأَعْرَابِیُّ العَاقِلُ‘ ’’ہم تمنا کیا کرتے تھے کہ کوئی سمجھ دار دیہاتی بات کی ابتدا کرے‘‘ کے الفاظ ہیں۔مسند ابی یعلیٰ کی روایت رقم۳۳۳۳میں یہاں ’نَسْمَعُ‘ ’’ہم سنیں‘‘ کے بجاے ’نَسْتَمِعَ‘ ’’ہم غور سے سنیں‘‘کا لفظ ہے۔

۵۔مستخرج ابی عوانہ، رقم۱ ۔

۶۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طریق، مثلاً نسائی کی السنن الصغریٰ، رقم۲۰۹۴میں یہی بات اِن الفاظ میں نقل ہوئی ہے: ’بَیْنَمَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَ أَصْحَابِہِ، جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ‘ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ اِس اثنا میں دیہاتیوں میں سے ایک شخص آیا‘‘۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طریق، مثلاً مسند احمد ، رقم۲۳۸۰میں تصریح ہے کہ ضمام بن ثعلبہ کو درحقیقت اُن کے قبیلے بنو سعدنے اپنے نمایندے کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا تھا، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں: ’بَعَثَتْ بَنُو سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ ضِمَامَ بْنَ ثَعْلَبَۃَ وَافِدًا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدِمَ عَلَیْہِ‘ ’’ضمام بن ثعلبہ کو بنو سعد نے اپنے قاصد کی حیثیت سے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا تھا، چنانچہ وہ اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ‘‘

ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اِسی روایت میں ضمام بن ثعلبہ کا حلیہ بھی بیان کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے: ’کَانَ ضِمَامٌ رَجُلًا جَلْدًا أَشْعَرَ ذَا غَدِیرَتَیْنِ‘ ’’یہ ضمام ایک مضبوط جسم کے آدمی تھے اور اِن کے بال ایسے بڑے تھے کہ دو چوٹیاں بنی ہوئی تھیں۔‘‘

۷۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت، مثلاً مسند طیالسی، رقم۲۴۴۹میں اِس طرح کے الفاظ ہیں: ’حَتَّی انْتَہٰی إِلَی الْمَسْجِدِ فَعَقَلَ رَاحِلَتَہُ بِبَابِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ‘ ’’یہاں تک کہ وہ مسجد کے پاس پہنچا اور اپنی سواری کو مسجد کے دروازے کے پاس باندھ کراُس میں داخل ہوا۔‘‘

۸۔ مسند احمد، رقم۲۳۸۰کے مطابق یہ سوال وجواب اِس طرح ہوا تھا: ’أَیُّکُمُ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ‘ ’’تم میں سے عبد المطلب کا بیٹا کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ہوں عبد المطلب کا بیٹا۔ اُس نے پوچھا:تم محمد ہو؟ آپ نے فرمایا:جی ہاں۔‘‘

۹۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ضمام بن ثعلبہ نے اِس موقع پر آپ کو سلام عرض کر کے پہلے اپنا تعارف کرایا تھا اور اپنی حاضری کا مقصد بھی بتایا تھا۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۰۳۱۷میں ہے: ’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا غُلَامَ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ: وَعَلَیْکَ، فَقَالَ: إِنِّیْ رَجُلٌ مِنْ أَخْوَالِکَ مِنْ بَنِیْ سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ، وَأَنَا رَسُوْلُ قَوْمِیْ إِلَیْکَ وَوَافِدُہُمْ‘ ’’تم پر سلامتی ہو، اے بنو عبد المطلب کے بیٹے،میرا تعلق تمھارے ماموؤں کے قبیلے بنو سعد بن بکر سے ہے۔ آپ کے پاس میں اپنے قبیلے کے نمایندے کی حیثیت سے حاضر ہوا ہوں اور مجھے اُنھی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘

۱۰۔ مسند احمد، رقم۱۲۷۱۹۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول بعض روایات، مثلاً نسائی کی السنن الصغریٰ، رقم ۲۰۹۴ میں یہ بات اِن الفاظ میں نقل ہوئی ہے: ’فَقَالَ: أَیُّکُمُ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟ قَالُوْا: ہٰذَا الْأَمْغَرُ الْمُرْتَفِقُ، فَقَالَ: إِنِّیْ سَاءِلُکَ فَمُشْتَدٌّ عَلَیْکَ فِی الْمَسْأَلَۃِ، قَالَ:سَلْ عَمَّا بَدَا لَکَ‘ ’’تم میں سے عبد المطلب کا بیٹا کون ہے؟ صحابہ نے فرمایا:یہ سرخ و سفید شخص جو ٹیک لگائے ہوئے ہیں۔ اُس نے آپ کو مخاطب کر کے کہا:میں آپ سے سوالات کروں گا اوراُن میں کچھ سخت لب ولہجہ بھی اختیار کرسکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: پوچھو،جس چیز کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو۔‘‘ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول بعض روایتوں،مثلاً صحیح ابن خزیمہ، رقم ۲۳۸۳ میں ضمام بن ثعلبہ کے الفاظ اِس طرح نقل ہوئے ہیں: ’وَإِنِّی سَاءِلُکَ، فَمُشَدِّدٌ مَسْأَلَتِیْ إِیَّاکَ، وَمُنَاشِدُکَ، فَمُشَدِّدٌ مُنَاشَدَتِی إِیَّاکَ‘ ’’میں آپ سے سوالات کروں گا اوریہ کچھ سخت انداز میں بھی کرسکتا ہوں، اِسی طرح آپ کو قسمیں دے کر بات کروں گا اور اُن میں بھی ذرا سختی برتوں گا۔‘‘ مسند احمد، رقم۲۳۸۰ میں اُنھی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’إِنِّیْ سَاءِلُکَ وَمُغَلِّظٌ فِی الْمَسْأَلَۃِ، فَلا تَجِدَنَّ فِیْ نَفْسِکَ، قَالَ: لَا أَجِدُ فِیْ نَفْسِی، فَسَلْ عَمَّا بَدَا لَکَ‘ ’’میں آپ سے سوالات کروں گا اوراُن میں کچھ سخت اسلوب کلام بھی اختیار کرسکتا ہوں، آپ ہرگز برامحسوس نہ کیجیے گا۔ آپ نے فرمایا:میں بُرا نہیں مانوں گا۔ پوچھو، جو پوچھنا چاہتے ہو۔‘‘ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۰۳۱۷کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا تھا: ’خُذْ عَنْکَ یَا أَخَا بَنِیْ سَعْدٍ‘ ’’کہو، جو کہنا چاہتے ہو، اے بنو سعد کے بھائی۔‘‘

۱۱۔ بعض روایات، مثلاً سنن نسائی، رقم ۲۰۹۱ اورمسند بزار، رقم ۶۹۲۸ کے مطابق یہاں ضمام بن ثعلبہ نے ’وَجَعَلَ فِیہَا مَا جَعَلَ‘ کہنے کے بجاے مزید ایک سوال کیا تھا، چنانچہ پوچھا تھاکہ ’فَمَنْ جَعَلَ فِیہَا الْمَنَافِعَ؟‘ ’’ اور پہاڑوں میں یہ منفعتیں کس نے رکھی ہیں؟‘‘۔

۱۲۔ بعض روایتوں، مثلاً سنن نسائی، رقم ۲۰۹۱ اور مسند بزار، رقم ۶۹۲۸ میں یہاں ’وَجَعَلَ فِیہَا الْمَنَافِعَ‘ ’’جس نے اِن میں منفعتیں رکھی ہیں‘‘ کا اضافہ بھی منقول ہے۔ بعض طرق کے مطابق ضمام نے قسم اِن الفاظ میں دی تھی: ’فَبِالَّذِی رَفَعَ السَّمَاءَ، وَبَسَطَ الأَرْضَ، وَنَصَبَ الجِبَالَ‘ ’’آپ کو اُس ذات کی قسم جس نے آسمان کو بلند کیا، زمین کو بچھایا اور پہاڑوں کو گاڑا ہے۔‘‘مثال کے طور پر دیکھیے:سنن ترمذی، رقم۶۱۹،سنن دارمی، رقم۶۷۶، المعجم الاوسط، طبرانی ،رقم۵۰۷۰۔

۱۳۔بعض روایات، مثلاً مسند احمد ، رقم۱۲۷۱۹کے مطابق ضمام بن ثعلبہ کے الفاظ اِس جگہ یہ تھے: ’آللّٰہُ أَرْسَلَکَ إِلَی النَّاسِ کُلِّہِمْ؟‘ ’’ کیا اللہ نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے؟‘‘۔

۱۴۔بعض روایتوں،مثلاً صحیح بخاری، رقم۶۳ میں آپ سے اِن مواقع پر ’نَعَمْ‘ ہاں کے بجاے ’اَللّٰہُمَّ نَعَمْ‘ ’’ہاں، یقینا‘‘ کے الفاظ منقول ہیں۔

توحید و رسالت سے متعلق یہاں جو سوال وجواب نقل ہوئے ہیں، اُن کے الفاظ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی طرق میں بہت کچھ مختلف ہوگئے ہیں۔ اُن کی تفصیل درج ذیل ہے:

صحیح ابن خزیمہ، رقم ۲۳۸۳کے مطابق ضمام بن ثعلبہ کا پہلا سوال یہ تھا: ’مَنْ خَلَقَکَ؟ وَمَنْ خَلَقَ مَنْ قَبْلَکَ؟ وَمَنْ ہُوَ خَالِقُ مَنْ بَعْدَکَ؟ قَالَ: اللّٰہُ، قَالَ: فَنَشَدْتُکَ بِذٰلِکَ ہُوَ أَرْسَلَکَ؟ قَالَ: نَعَمْ‘ ’’آپ کا، آپ کے اگلوں کا اور آپ کے بعد آنے والوں کا خالق کون ہے؟ آپ نے فرمایا:اللہ۔ اُس نے کہا:میں اُسی ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا فی الواقع اُس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟آپ نے فرمایا: یقینا۔‘‘

مسند احمد، رقم ۲۳۸۰ کے مطابق اُس نے یہ بات اِس طرح دریافت کی تھی: ’أَنْشُدُکَ اللّٰہَ إِلٰہَکَ، وَإِلٰہَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ، وَإِلٰہَ مَنْ ہُوَ کَاءِنٌ بَعْدَکَ، آللّٰہُ بَعَثَکَ إِلَیْنَا رَسُوْلًا؟ فَقَالَ: اللَّہُمَّ نَعَمْ‘ ’’میں اُس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جو آپ کا، آپ کے اگلوں اور پچھلوں کا معبود ہے، کیا اُسی اللہ نے آپ کو ہمارے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا:ہاں، یقینا۔‘‘

طبرانی کی المعجم الکبیر، رقم۸۱۵۰ میں ہے کہ ضمام بن ثعلبہ نے یہ بات بھی کہی تھی: ’نَشَدْتُکَ بِہِ، أَہُوَ أَرْسَلَکَ بِمَا أَتَانَا کِتَابُکَ‘ ’’ میں اُسی ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا فی الواقع اُس نے آپ کو اُس ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے جو ہمارے پاس آپ کے خط کی صورت میں آئی ہے؟‘‘۔

مسند احمد، رقم ۲۳۸۰میں یہ سوال وجواب بھی نقل ہوا ہے: ’قَالَ: فَأَنْشُدُکَ اللّٰہَ إِلٰہَکَ، وَإِلٰہَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ، وَإِلٰہَ مَنْ ہُوَ کَاءِنٌ بَعْدَکَ، آللّٰہُ أَمَرَکَ أَنْ تَأْمُرَنَا أَنْ نَعْبُدَہُ وَحْدَہُ، لَا نُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا، وَأَنْ نَخْلَعَ ہٰذِہِ الْأَنْدَادَ الَّتِیْ کَانَتْ آبَاؤُنَا یَعْبُدُوْنَ مَعَہُ؟ قَالَ: اللَّہُمَّ نَعَمْ‘ ’’اُس نے کہا:میں آپ کو اُس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جو آپ کا، آپ کے اگلوں اور پچھلوں کا معبود ہے، کیا آپ کو اللہ ہی نے حکم دیا ہے کہ آپ ہمیں ہدایت فرمائیں کہ ہم تنہا اُسی کی بندگی کریں، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور یہ بھی کہ ہم اُس کے اُن شریکوں کوچھوڑدیں جن کی ہمارے آبا واجداد عبادت کیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: یقینا۔‘‘

طبرانی کی جس روایت کا حوالہ اوپر مذکور ہے، اُس میں یہ بات اِن الفاظ میں بیان ہوئی ہے:’وَأَتَتْنَا رُسُلُکَ أَنْ نشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنْ نَدَعَ اللَّاتَ وَالْعُزّٰی؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: نَشَدْتُکَ بِہِ، أَہُوَ أَمَرَکَ؟ قَالَ: نَعَمْ‘ ’’اور آپ کے قاصد ہمارے پاس اِس دعوت کے ساتھ آئے تھے کہ ہم اِس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اوریہ کہ ہم لات وعزّٰی کی عبادت کرنا چھوڑدیں، (کیا یہی آپ کا پیغام ہے؟)۔ آپ نے فرمایا:یقینا۔ اُس نے کہا:میں اُسی ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا فی الواقع اُس نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یقینا۔‘‘

۱۵۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک طریق، مثلاً مسند احمد رقم۲۳۸۰میں یہ سوال وجواب اِس طرح نقل ہوا ہے: ’قَالَ: فَأَنْشُدُکَ اللّٰہَ إِلٰہَکَ، وَإِلٰہَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ، وَإِلٰہَ مَنْ ہُوَ کَائِنٌ بَعْدَکَ، آللّٰہُ أَمَرَکَ أَنْ نُصَلِّیَ ہٰذِہِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ؟ قَالَ: اللَّہُمَّ نَعَمْ‘ ’’ اُس نے کہا:میں آپ کو اُس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جو آپ کا، آپ کے اگلوں اور پچھلوں کا معبود ہے، کیا فی الواقع اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم یہ پانچ نمازیں پڑھیں؟ آپ نے فرمایا: یقینا۔‘‘

اُنھی سے مروی بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۰۳۱۷ کے مطابق ضمام بن ثعلبہ کے الفاظ اِس موقع پر یہ تھے: ’فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا فِیْ کِتَابِکَ، وَأَمَرَتْنَا رُسُلُکَ أَنْ نُصَلِّیَ فِی الْیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ لِمَوَاقِیْتِہَا، نَشَدْتُکَ بِذٰلِکَ أَہُوَ أَمَرَکَ بِذٰلِکَ؟، قَالَ: ’نَعَمْ‘ ’’ہم نے واقعی آپ کے خط میں دیکھا ہے اور آپ کے نمایندوں نے بھی ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم شب وروز میں پانچ نمازیں اُن کے اوقات کی رعایت سے پڑھیں۔ میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں، کیا اُسی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یقینا۔‘‘

۱۶۔ مسند ابی یعلیٰ،رقم ۳۳۳۳ میں یہاں ’زَکٰوۃً‘ کے بجاے ’صَدَقَۃً‘ کا لفظ ہے۔ یہ دونوں مترادف ہیں، اِس لیے کہ ’زَکٰوۃ‘ کا لفظ نکرہ استعمال کیا جائے تو اِس کے اور ’صَدَقَۃً‘ کے معنی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

۱۷۔ نسائی کی السنن الکبریٰ ، رقم۲۴۱۲ میں یہاں ’صَوْمَ شَہْرٍ فِیْ کُلِّ سَنَۃٍ‘ ’’ ہر سال ایک ماہ کے روزے کے الفاظ آئے ہیں۔

۱۸۔طبرانی کی المعجم الاوسط، رقم۲۰۰۷کے مطابق یہ سوال وجواب اِس طرح تھے:

فَإِنَّا وَجَدْنَا فِیْ کِتَابِکَ وَأَمَرَتْنَا رُسُلُکَ أَنْ نَصُوْمَ شَہْرَ رَمَضَانَ، فَنَشَدْتُکَ بِذٰلِکَ أَہُوَ أَمَرَکَ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَإِنَّا وَجَدْنَا فِیْ کِتَابِکَ وَأَمَرَتْنَا رُسُلُکَ أَنْ نَأْخُذَ مِنْ حَوَاشِیْ أَمْوَالِنَا، فَنَجْعَلَہُ فِیْ فُقَرَاءِنَا، فَنَشَدْتُکَ بِذٰلِکَ أَہُوَ أَمَرَکَ؟ قَالَ:نَعَمْ۔
’’ہم نے واقعی آپ کے خط میں دیکھا ہے اور آپ کے نمایندوں نے بھی ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم رمضان کے روزے رکھیں۔ میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں، کیا اُسی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا:یقینا۔ اُس نے کہا: اور ہم نے آپ کے خط میں یہ بھی دیکھا ہے اور آپ کے قاصدوں نے بھی ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم اپنے اموال میں سے کچھ حصہ نکال کر اپنے ضرورت مندوں کو دیں۔ میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں،کیا اُسی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یقیناً۔‘‘

۱۹۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ایک روایت، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۱۴۶۹۵میں یہ سوال وجواب اِس طرح نقل ہوا ہے:

قَالَ: فَإِنَّا وَجَدْنَا فِیْ کِتَابِکَ وَأَمَرَتْنَا رُسُلُکَ أَنْ نَحُجَّ الْبَیْتَ الْعَتِیقَ، فَأُنْشِدُکَ أَہُوَ أَمَرَکَ بِذٰلِکَ؟ قَالَ: نَعَمْ۔
’’اُس نے کہا:اور ہم نے آپ کے خط میں یہ بھی دیکھا ہے اور آپ کے نمایندوں نے بھی ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم اللہ کے اِس قدیم گھر کا حج کریں۔ میںآپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں، کیا اُسی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا:یقیناً۔‘‘

انس رضی اللہ عنہ سے منقول بعض روایتوں میں یہ سوال و جواب اِن الفاظ میں نقل ہوئے ہیں:

فَقَالَ: أَسْأَلُکَ بِرَبِّکَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَکَ، آللّٰہُ أَرْسَلَکَ إِلَی النَّاسِ کُلِّہِمْ؟ فَقَالَ: اللّٰہُمَّ نَعَمْ. قَالَ: أَنْشُدُکَ بِاللّٰہِ، آللّٰہُ أَمَرَکَ أَنْ نُصَلِّیَ الصَّلَوَاتِ الخَمْسَ فِی الیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ؟ قَالَ: اللّٰہُمَّ نَعَمْ. قَالَ: أَنْشُدُکَ بِاللّٰہِ، آللّٰہُ أَمَرَکَ أَنْ نَصُوْمَ ہٰذَا الشَّہْرَ مِنَ السَّنَۃِ؟ قَالَ: اللّٰہُمَّ نَعَمْ. قَالَ: أَنْشُدُکَ بِاللّٰہِ، آللّٰہُ أَمَرَکَ أَنْ تَأْخُذَ ہٰذِہِ الصَّدَقَۃَ مِنْ أَغْنِیَائِنَا فَتَقْسِمَہَا عَلٰی فُقَرَائِنَا؟ فَقَالَ النَّبِیُّ: اللَّہُمَّ نَعَمْ۔
’’پھر اُس نے کہا:میں آپ کے اور آپ سے پہلوں کے رب کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا فی الواقع اللہ نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا:ہاں، یقینا۔ اُس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا واقعی اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم شب وروز کی پانچ نمازیں پڑھیں؟ آپ نے فرمایا:ہاں، یقینا۔ اُس نے کہا:میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا واقعی اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم سال کے اِس مہینے (رمضان)کے روزے رکھیں۔ آپ نے فرمایا:ہاں، یقینا۔ اُس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا فی الواقع اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے صاحب ثروت لوگوں سے یہ زکوٰۃ لے کر ہمارے ضرورت مندوں میں تقسیم کردیں۔ نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں، یقیناً۔‘‘

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک طریق، نسائی کی السنن الصغریٰ،رقم ۲۰۹۴میں اُن کے الفاظ یہ ہیں:

قَالَ: أَسْأَلُکَ بِرَبِّکَ، وَرَبِّ مَنْ قَبْلَکَ، وَرَبِّ مَنْ بَعْدَکَ، آللّٰہُ أَرْسَلَکَ؟ قَالَ: اللّٰہُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُکَ بِہِ، آللّٰہُ أَمَرَکَ أَنْ تُصَلِّیَ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ؟ قَالَ: اللّٰہُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُکَ بِہِ، آللّٰہُ أَمَرَکَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْ أَمْوَالِ أَغْنِیَاءِنَا فَتَرُدَّہُ عَلَی فُقَرَاءِنَا؟ قَالَ: اللّٰہُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُکَ بِہِ، آللّٰہُ أَمَرَکَ أَنْ تَصُوْمَ ہٰذَا الشَّہْرَ مِنَ اثْنَیْ عَشَرَ شَہْرًا؟ قَالَ: اللّٰہُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُکَ بِہِ، آللّٰہُ أَمَرَکَ أَنْ یَحُجَّ ہٰذَا الْبَیْتَ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا؟ قَالَ: اللَّہُمَّ نَعَمْ۔
’’ اُس نے کہا:میں آپ کے اور آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے رب کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا فی الواقع اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا:ہاں، یقینا۔ اُس نے کہا:میں اُسی کی قسم دیتا ہوں کہ کیا واقعی اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ شب وروز کی پانچ نمازیں پڑھیں؟آپ نے فرمایا:ہاں، یقینا۔ اُس نے کہا: میں اُسی کی قسم دیتا ہوں، کیا فی الواقع اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے صاحب ثروت لوگوں کے اموال میں سے کچھ حصہ لے کر ہمارے ضرورت مندوں کو لوٹادیں۔ آپ نے فرمایا:ہاں، یقینا۔اُس نے کہا:میں اُسی کی قسم دیتا ہوں ، کیا واقعی اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ بارہ مہینوں میں سے اِس ماہ (رمضان)کے روزے رکھیں۔ آپ نے فرمایا:ہاں، یقینا۔ اُس نے کہا:میں پھر اُسی کی قسم دیتا ہوں،کیا فی الواقع اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ جو اِس گھر (بیت اللہ)تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ لازماً اِس کا حج کرے؟ آپ نے فرمایا:ہاں، یقیناً۔‘‘

۲۰۔ نسائی کی السنن الصغریٰ، رقم ۲۰۹۴ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہاں ’فَإِنِّیْ آمَنْتُ وَصَدَّقْتُ‘ ’’سو میں ایمان لاتا ہوں اور تصدیق کرتا ہوں‘‘کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

۲۱۔صحیح بخاری،رقم ۶۳۔ا بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول طرق میں یہاں متعدد تعبیرات روایت ہوئی ہیں۔ یہ درج ذیل ہیں:

مسند احمد، رقم۲۳۸۰میں ہے: ’حَتّٰی إِذَا فَرَغَ قَالَ: فَإِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ، وَسَأُؤَدِّی ہٰذِہِ الْفَرَاءِضَ، وَأَجْتَنِبُ مَا نَہَیْتَنِیْ عَنْہُ، ثُمَّ لَا أَزِیدُ وَلا أَنْقُصُ‘ ’’یہاں تک کہ وہ سوالات کر کے فارغ ہوا تواُس نے کہا:میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ میں آیندہ اِن فرائض کو ادا کروں گا، اور جن چیزوں سے آپ نے مجھے روکا ہے، اُن سے اجتناب کروں گا، پھر اِن پر اپنی طرف سے کوئی اضافہ یا کمی نہیں کروں گا‘‘۔

مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۰۳۱۷میں ہے: ’وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَأَعْمَلَنَّ بِہَا وَمَنْ أَطَاعَنِیْ مِنْ قَوْمِیْ‘ ’’اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میں بھی اِن احکام پر ضرور عمل کروں گااور میری قوم کے لوگ بھی جو میری بات مانیں گے‘‘۔

مسند احمد رقم، ۲۲۵۴ میں اُس کے الفاظ ہیں: ’وَسَأَفْعَلُ مَا أَمَرْتَنِیْ بِہِ، لَا أَزِیْدُ وَلا أَنْقُصُ‘ ’’اور میں آپ کے اِن احکام کو ضرور بجا لاؤں گا اور اِن میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ یا کمی نہیں کروں گا‘‘۔

۲۲۔صحیح ابن حبان،رقم ۵۵اور مسند ابی یعلیٰ، رقم۳۳۳۳میں یہاں ’وَلّٰی‘ کے بجاے ’قَفّٰی‘ کا لفظ نقل ہوا ہے۔ یہ دونوں مترادف ہیں، یعنی وہ پلٹ کر لوٹ گیا۔ مسند احمد ۲۳۸۰میں یہ الفاظ آئے ہیں: ’ثُمَّ انْصَرَفَ رَاجِعًا إِلٰی بَعِیرِہِ‘ ’’پھر وہ پلٹ کر اپنے اونٹ کی طرف لوٹا‘‘۔ طبرانی کی المعجم الکبیر، رقم۸۱۵۱میں یہ بات بھی بیان ہوئی کہ ضمام بن ثعلبہ کے رخصت ہوتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوب ہنسے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں: ’فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ‘ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے بعد کھلکھلاکر ہنس پڑے‘‘۔

۲۳۔ بعض روایات میں یہاں بھی مختلف تعبیریں نقل ہوئی ہیں۔ مسند احمد، رقم۱۳۰۱۱میں ہے: ’لَا أَزْدَادُ وَلَا أَنْتَقِصُ مِنْہُنَّ شَیْئًا‘ ’’ میں اضافہ کروں گا، نہ اِن میں سے کسی چیز میں کمی کروں گا۔‘‘ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۰۳۱۸میں ہے: ’لَا أَزْدَادُ عَلَیْہِ شَیْئًا وَلَا أَنْقُصُ مِنْہُ شَیْئًا‘ ’’ اِن پر کسی چیز کا اضافہ کروں گا، نہ اِن میں سے کچھ کم کروں گا‘‘۔ مستخرج ابی نعیم، رقم ۹۱ میں ہے: ’لَا أَزْدَادُ عَلَیْہِنَّ وَلا أُنْقِصُ مِنْہُنَّ شَیْئًا‘ ’’میں اِن پر اضافہ کروں گا،نہ اِن میں سے کوئی چیز کم کروں گا‘‘۔ سنن دارمی، رقم۶۷۶اورسنن ترمذی، رقم ۶۱۹ میں ہے: ’لَا أَدَعُ مِنْہُنَّ شَیْئًا وَلَا أُجَاوِزُہُنَّ‘ ’’میں اِن میں سے کچھ چھوڑوں گا ،نہ اِن سے تجاوز کروں گا‘‘۔

۲۴۔ السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم۸۶۱۱۔سنن دارمی ، رقم۶۷۶ میں اِس جگہ: ’ثُمَّ وَثَبَ الْأَعْرَابِیُّ‘ ’’پھر یہ دیہاتی اُٹھ کھڑا ہوا ‘‘کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

۲۵۔ روایت کے مختلف طریقوں میں اِس مقام پر متنوع تعبیرات اختیار کی گئی ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ رقم ۳۰۳۱۸ میں انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں: ’إِنْ صَدَقَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ‘ ’’اگر اِس نے سچ کہا ہے تو جنت میں جائے گا‘‘، جبکہ سنن دارمی، رقم۶۷۶ میں ہے: ’إِنْ صَدَقَ الْأَعْرَابِیُّ دَخَلَ الْجَنَّۃ‘ ’’اِس دیہاتی نے سچی بات کہی ہے تو یہ جنت میں جائے گا‘‘۔ مسند احمد، رقم۲۳۸۰میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی بات اِس طرح روایت کی گئی ہے: ’إِنْ یَصْدُقْ ذُو الْعَقِیصَتَیْنِ، یَدْخُلِ الْجَنَّۃ‘ ’’ یہ دو چوٹیوں والا سچ کہہ رہا ہے تو یہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔ طبرانی کی المعجم الکبیر، رقم۸۱۴۹میں اُن کے الفاظ ہیں: ’إِنْ صَدَقَ ذُو الْغَدِیرَتَیْنِ، دَخَلَ الْجَنَّۃَ‘ ’’اِس دو چوٹیوں والے نے سچی بات کہی ہے تو یہ جنت میں جائے گا‘‘۔ بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۰۳۱۷میں یہ تعبیر ہے: ’وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَئِنْ صَدَقَ لَیَدْخُلَنَّ الْجَنَّۃَ‘ ’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اِس نے سچ کہا ہے تو ضرور جنت میں داخل ہو گا‘‘۔ طبرانی کی المعجم الاوسط، رقم۲۷۰۷میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: ’لَئِنْ صَدَقَ لَیَدْخُلَنَّ الْجَنَّۃَ بِہَا‘ ’’اِس نے سچ کہا ہے تو اِن اعمال کے بنا پریہ ضرور جنت میں جائے گا‘‘۔ طبرانی کی المعجم الکبیر، رقم۸۱۵۰میں یہی بات اِس طرح روایت ہوئی ہے: ’أَمَا إِنَّہُ إِنْ فَعَلَ الَّذِیْ قَالَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ‘ ’’سنو، اِس شخص نے جو کہا ہے، اگر کر دکھایا تو یقیناً جنت میں داخل ہوگا‘‘۔

۲۶۔ مسند احمد، رقم ۲۳۸۰۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ درج ذیل مصادر میں نقل ہوا ہے:

مسند احمد، رقم۱۲۴۵۷،۱۲۷۱۹، ۱۳۰۱۱۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۰۳۱۸۔صحیح بخاری، رقم۶۳۔ صحیح مسلم، رقم۱۲۔ مسند بزار، رقم ۶۱۹۲، ۶۹۲۸ ۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۳۳۳۳۔ صحیح ابن خزیمہ، رقم۲۳۵۸۔ سنن ابی داؤد، رقم۴۸۶۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۹۱۔ ۲۰۹۴۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۲۴۱۲۔۲۴۱۴، ۵۸۳۲۔ صحیح ابن حبان، رقم۱۵۴، ۵۵۱۔ سنن ترمذی، رقم۶۱۹۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۱۴۰۲۔ سنن دارمی، رقم ۶۷۶۔ معرفۃ السنن والآثار، بیہقی، رقم ۱۳۲۸۲۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم۴۳۳۱، ۸۶۱۱، ۱۳۱۳۷ ۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم۵۰۷۰۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم۱،۲۔ مستخرج ابی نعیم، رقم۹۱۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اِس کی روایت کے مراجع درج ذیل ہیں:

السنن الصغریٰ، نسائی، رقم۲۰۹۴۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۲۴۱۵۔ مسند طیالسی، رقم۲۴۴۹ ۔

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ حدیث کی جن کتابوں میں نقل ہوا ہے، وہ یہ ہیں:

مسند احمد، رقم ۲۲۵۴، ۲۳۸۰، ۲۳۸۱۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۳۰۳۱۷، ۱۴۶۹۵۔ صحیح ابن خزیمہ، رقم۲۳۸۳۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۲۷۰۷۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم۸۱۴۹۔ ۸۱۵۲۔ سنن دارمی، رقم ۶۷۷۔ ۶۷۸۔ سنن ابی داؤد، رقم ۴۸۷۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۳۸۰۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم۱۳۱۲۱۔

المصادر والمراجع

ابن أبی شیبۃ، أبوبکر عبد اللّٰہ بن محمد العبسی. (۱۴۰۹ھ). المصنف فی الأحادیث والآثار. ط۱. تحقیق: کمال یوسف الحوت. الریاض: مکتبۃ الرشد.

ابن حبان، أبو حاتم، محمد بن حبان البُستی. (۱۳۹۳ھ؍۱۹۷۳م). الثقات. ط۱. حیدر آباد الدکن ۔ الہند: دائرۃ المعارف العثمانیۃ.

ابن حبان، أبو حاتم، محمد بن حبان البُستی. (۱۴۱۴ھ؍۱۹۹۳م). صحیح ابن حبان. ط۲. تحقیق: شعیب الأرنؤوط. بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ.

ابن حبان، أبو حاتم، محمد بن حبان البُستی. (۱۳۹۶ھ). المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروکین. ط۱. تحقیق: محمود إبراہیم زاید. حلب: دار الوعی.

ابن حجر، أحمد بن علی، أبو الفضل العسقلانی. (۱۴۱۵ھ). الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ. ط۱. تحقیق: عادل أحمد عبد الموجود وعلی محمد معوض. بیروت: دار الکتب العلمیۃ.

ابن حجر، أحمد بن علی، أبو الفضل العسقلانی. (۱۴۰۶ھ؍۱۹۸۶م). تقریب التہذیب. ط۱. تحقیق: محمد عوامۃ. سوریا: دار الرشید.

ابن حجر، أحمد بن علی، أبو الفضل العسقلانی. (۱۴۰۴ھ؍۱۹۸۴م). تہذیب التہذیب. ط۱. بیروت: دار الفکر.

ابن حجر، أحمد بن علی، أبو الفضل العسقلانی. (۲۰۰۲م). لسان المیزان. ط۱. تحقیق: عبد الفتاح أبو غدۃ. د.م: دار البشائر الإسلامیۃ.

ابن خزیمۃ، أبوبکر محمد بن إسحاق، النیسابوری. (د.ت). صحیح ابن خزیمۃ. د.ط. تحقیق: د. محمد مصطفی الأعظمی. بیروت: المکتب الإسلامی.

ابن عبد البر، أبو عمر یوسف بن عبد اللّٰہ القرطبی. (۱۴۱۲ھ ؍ ۱۹۹۲م). الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب. ط۱. تحقیق: علی محمد البجاوی. بیروت: دار الجیل.

ابن عدی، عبد اللّٰہ أبو أحمد الجرجانی. (۱۴۱۸ھ؍۱۹۹۷م).الکامل فی ضعفاء الرجال. ط۱. تحقیق: عادل أحمد عبد الموجود، وعلی محمد معوض. بیروت۔ لبنان: الکتب العلمیۃ.

ابن ماجہ، أبو عبد اللّٰہ محمد القزوینی.(د.ت). سنن ابن ماجہ. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی د.م: دار إحیاء الکتب العربیۃ.

أبو داؤد، سلیمان بن الأشعث، السِّجِسْتانی. (د.ت). سنن أبی داؤد. د.ط.تحقیق: محمد محیی الدین عبد الحمید. بیروت: المکتبۃ العصریۃ.

أبو عوانۃ، الإسفرایینی، یعقوب بن إسحاق النیسابوری.(۱۴۱۹ھ؍۱۹۹۸م). مستخرج أبی عوانۃ. ط۱. تحقیق: أیمن بن عارف الدمشقی. بیروت: دار المعرفۃ.

أبو نعیم، أحمد بن عبد اللّٰہ، الأصبہانی. (۱۴۱۷ھ؍۱۹۹۶م). المسند المستخرج علی صحیح مسلم. ط۱. تحقیق: محمد حسن محمد حسن إسماعیل الشافعی. بیروت: دار الکتب العلمیۃ.

أبو یعلٰی، أحمد بن علی التمیمی الموصلی. مسند أبی یعلٰی. ط۱. (۱۴۰۴ھ؍ ۱۹۸۴م). تحقیق: حسین سلیم أسد. دمشق: دار المأمون للتراث.

أحمد بن محمد بن حنبل، أبو عبد اللّٰہ الشیبانی. (۱۴۲۱ھ؍۲۰۰۱م). المسند. ط۱. تحقیق: شعیب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وآخرون. بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ.

البخاری، محمد بن إسماعیل، أبو عبداللّٰہ الجعفی. (۱۴۲۲ھ).الجامع الصحیح. ط۱. تحقیق: محمد زہیر بن ناصر الناصر. بیروت: دار طوق النجاۃ.

البزار، أبوبکر أحمد بن عمرو العتکی. (۲۰۰۹م). مسند البزار. ط۱. تحقیق: محفوظ الرحمٰن زین اللّٰہ، وعادل بن سعد، وصبری عبد الخالق الشافعی. المدینۃ المنورۃ: مکتبۃ العلوم والحکم.

البیہقی، أبوبکر، أحمد بن الحسین الخراسانی. (۱۴۱۰ھ؍۱۹۸۹م). السنن الصغرٰی. ط۱. تحقیق: عبد المعطی أمین قلعجی. کراتشی: جامعۃ الدراسات الإسلامیۃ.

البیہقی، أبوبکر، أحمد بن الحسین الخراسانی. السنن الکبرٰی. ط۳. تحقیق: محمد عبد القادر عطا. بیروت: دار الکتب العلمیۃ. (۱۴۴۳ھ؍۲۰۰۳م).

البیہقی، أبوبکر، أحمد بن الحسین الخراسانی. (۱۴۱۲ھ؍۱۹۹۱م). معرفۃ السنن والآثار. ط۱. تحقیق: عبد المعطی أمین قلعجی. القاہرۃ: دار الوفاء.

الترمذی، أبو عیسٰی محمد بن عیسٰی. (۱۳۹۵ھ؍۱۹۷۵م). سنن الترمذی. ط۲. تحقیق وتعلیق: أحمد محمد شاکر، ومحمد فؤاد عبد الباقی، وإبراہیم عطوۃ عوض. مصر: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی.

الحاکم ، أبو عبد اللّٰہ محمد بن عبد اللّٰہ النیسابوری. (۱۴۱۱ھ؍۱۹۹۰م). المستدرک علی الصحیحین. ط۱. تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا. بیروت: دار الکتب العلمیۃ.

الدارمی، أبو محمد عبد اللّٰہ بن عبد الرحمٰن التمیمی. (۱۴۱۲ھ؍۲۰۰۰م). سنن الدارمی. ط۱. تحقیق: حسین سلیم أسد الدارانی الریاض: دار المغنی للنشر والتوزیع.

الذہبی، شمس الدین أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد. (۱۳۸۷ھ؍۱۹۶۷م). دیوان الضعفاء والمتروکین وخلق من المجہولین وثقات فیہم لین. ط۲. تحقیق: حماد بن محمد الأنصاری. مکۃ: مکتبۃ النہضۃ الحدیثۃ.

الذہبی، شمس الدین، أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد. (۱۴۰۵ھ؍۱۹۸۵م). سیر أعلام النبلاء. ط۳. تحقیق: مجموعۃ من المحققین بإشراف الشیخ شعیب الأرنؤوط. د.م: مؤسسۃ الرسالۃ.

الذہبی، شمس الدین، أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد. (۱۴۱۳ھ؍۱۹۹۲م). الکاشف فی معرفۃ من لہ روایۃ فی الکتب الستۃ. ط۱. تحقیق: محمد عوامۃ أحمد محمد نمر الخطیب. جدۃ: دار القبلۃ للثقافۃ الإسلامیۃ ۔ مؤسسۃ علوم القرآن.

السیوطی، جلال الدین، عبد الرحمٰن بن أبی بکر. (۱۴۱۶ھ؍۱۹۹۶م). الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج. ط۱. تحقیق وتعلیق: أبو اسحٰق الحوینی الأثری.الخبر: دار ابن عفان للنشر والتوزیع.

الطبرانی، أبو القاسم، سلیمان بن أحمد الشامی. (د.ت). المعجم الأوسط. د.ط. تحقیق: طارق بن عوض اللّٰہ بن محمد، عبد المحسن بن إبراہیم الحسینی. القاہرۃ: دار الحرمین.

الطبرانی، أبو القاسم، سلیمان بن أحمد الشامی. (د.ت). المعجم الکبیر. ط۲. تحقیق: حمدی بن عبد المجید السلفی. القاہرۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ.

الطیالسی، أبو داؤد سلیمان بن داؤد البصری. (۱۴۱۹ھ؍۱۹۹۹م). مسند أبی داؤد الطیالسی. ط۱. تحقیق: الدکتور محمد بن عبد المحسن الترکی. مصر: دار ہجر.

مسلم بن الحجاج النیسابوری. (د.ت). الجامع الصحیح. د.ط. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی. بیروت: دار إحیاء التراث العربی.

النسائی، أبو عبد الرحمٰن أحمد بن شعیب الخراسانی. (۱۴۰۶ھ؍۱۹۸۶م). السنن الصغرٰی. ط۲. تحقیق: عبد الفتاح أبو غدۃ. حلب: مکتب المطبوعات الإسلامیۃ.

النسائی، أبو عبد الرحمٰن أحمد بن شعیب الخراسانی. (۱۴۲۱ھ؍۲۰۰۱م). السنن الکبرٰی. ط۱. تحقیق وتخریج: حسن عبد المنعم شلبی. بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ.

النووی، یحیٰی بن شرف، أبو زکریا. (۱۳۹۲ھ). المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج. ط۲. بیروت: دار إحیاء التراث العربی.

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مئی 2016
مصنف : جاوید احمد غامدی