فطرت اور عقیدہ - طالب محسن

فطرت اور عقیدہ

(مشکوٰۃ المصابیح حدیث:۹۰)  

عن ابی ہریرۃ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : ما من مولود الا یولد علی الفطرۃ ، فابواہ یہودانہ و ینصرانہ و یمجسانہ ، کما تنتج البہیمۃ بہیمۃ الجمعاء ، ہل تحسون فیہا جدعاء ۔ ثم یقول: فطرۃ اللّٰہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اﷲ ذلک الدین القیم ۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر بچے کو فطرت ہی پر پیدا کیا جاتا ہے ۔ پھر یہ بچے کے والدین ہیں جو اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ جیسے کن کٹا جانور صحیح الاعضا جانور کو جنم دیتا ہے ۔کیا تم اس میں کٹے کان کا کوئی اثر دیکھتے ہو ۔ پھر فرماتے ہیں :اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کی فطرت بنائی ہے۔اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ۔ یہ محکم دین ہے۔‘‘

لغوی مباحث

الفطرۃ :الفطرکے معنی پھاڑنے کے ہیں ۔ فطر کا فعل پہلی دفعہ بنانے ، کھودنے ، آٹا گوندھ کر روٹی بنانے وغیرہ کے معنی میںآتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن مجید میں فاطر السمٰوٰت و الارض کی ترکیب آئی ہے ۔ اس کا مطلب زمین و آسمان کا بنانے والا ہے ۔ اسی طرح فطرۃ کا لفظ خلقۃکے مترادف کے طور پر بھی آتا ہے ۔قرآن مجید میں یہ اسی آیت میں آیا ہے جس کا حوالہ اس روایت میں بھی دیا گیا ہے ۔ اس میں اس سے مرادوہ ضابطہ ہے جس پر انسان کی تخلیق کی گئی ہے۔
جمعاء :مجتمعۃ الاعضاء سلیمۃ من النقصسارے اعضا والا ، نقص سے محفوظ ۔
جدعاء : مقطوعۃ الاذن أو غیرہا من الأعضاء،جس کا کان یا کوئی اور عضو کٹا ہوا ہو۔مطلب یہ کہ وہ بکری جس کا کوئی عضو کٹا ہوا ہو ، اس کے بچے کا وہ عضو کٹا ہوا نہیں ہوتا۔
لاتبدیل لخلق اﷲ :اللہ کے بنائی ہوئی کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے ۔ بظاہر ترکیب کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ لیکن یہ مطلب درست نہیں ہے ۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’ یہ لاے نفی، نفی امکان یا نفی وقوع کے مفہوم میں نہیں ہے ۔ بلکہ نفی کے جواز کے مفہوم میں ہے ۔‘‘( تدبر قرآن ۶/ ۹۵)

متون

اس روایت کے متون میں بھی کوئی بنیادی فرق نہیں ہے ۔ روایت تین اجزا پر مشتمل ہے ۔ ایک جز اصول کابیان ہے ۔ دوسرا والدین کے اثرات سے متعلق ہے ۔ اور تیسرے جز میں بات کو واضح کرنے کے لیے ایک تمثیل بیان کی گئی ہے ۔چوتھی چیز آیت ہے ۔ عام طور پر اس آیت سے استشہاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے منسوب کیا گیا ہے ۔ لیکن بخاری کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا استشہاد ہے ۔بہرحال اس روایت کے بعض متون میں یہ استشہاد سرے سے نقل ہی نہیں ہوا ۔ اسی طرح اس روایت کے بعض متون میں تمثیل بھی روایت نہیں ہوئی ۔
اس روایت کے عام متون میں یہ بات بیان نہیں ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کس موقع پر ارشاد فرمائی تھی ۔ مسند احمد کی ایک روایت میں اس کی بھی تصریح ہے :

عن الأسود بن سریع رضی اﷲ عنہ قال أتیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم و غزوت معہ فأصبت ظہرا ۔ فقتل الناس یومئذ حتی قتلوا الولدان و قال مرۃ الذریۃ ۔ فبلغ ذلک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ۔ فقال ما بال الأقوام جاوزہم الیوم القتل الیوم حتی قتلوا الذریۃ ۔ فقال رجل:إنما ہم أولاد المشرکین ۔ فقال ألا أخیارکم أبناء المشرکین۔ ثم قال:ألا لا تقتلوا ذریۃ ، ألا لا تقتلوا ذریۃ ۔ قال کل نسمۃ تولد علی الفطرۃ حتی یعرب عنہا لسانہا ۔ فأبواہا یہودانہا و ینصرانہا۔ (مسند احمد ، رقم ۱۵۰۳۷)
’’ حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور ان کے ساتھ ایک جنگ میں شریک ہوا ۔ چنانچہ ظہر کا وقت ہو گیا ۔ لوگوں نے اس روز قتال کیا یہاں تک کہ بچوں کو بھی قتل کر دیا ۔ راوی نے ایک دفعہ الولدان کے بجائے الذریۃ کا لفظ بھی روایت کیا ہے ۔یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پہنچی ۔ آپ نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ۔ آج قتال نے انھیں (حد) سے نکال دیا۔ حتیٰ کہ انھوں نے بچے بھی مار ڈالے ۔ ایک آدمی نے کہا : یہ مشرکین ہی کے بچے تھے ۔ آپ نے کہا: تمھارے بہترین لوگ مشرکین ہی کی اولاد ہیں ۔ پھر فرمایا : خبردار ، بچوں کو نہ مارو ، خبردار بچوں کو نہ مارو۔ہر جان فطرت پر پیدا ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ وہ زبان سے کچھ نہ بولے ۔ یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی اور نصرانی بناتے ہیں ۔‘‘

اس تصریح سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات صرف اسی موقع پر فرمائی ہے ۔ یقیناًیہ بات مختلف مواقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کی ہو گی ۔
باقی فرق معمولی نوعیت کے ہیں ،مثلا : ما من مولود إلا یولد علی الفطرۃ کا جملہ اکثر روایت میں کل مولود یولد علی الفطرۃکی صورت میں مروی ہے ۔کچھ روایات میں یہودانہ ، ینصرانہ اور یمجسانہ و کے ساتھ ، کچھ میں أوکے ساتھ اور کچھ میں ایک و اور دوسرا أو کے ساتھ عطف ہوا ہے ۔ بعض روایات میں یمجسانہ کا لفظ روایت نہیں ہوا اور مسند احمد کی ایک روایت میں یشرکانہ کا اضافہ بھی روایت ہوا ہے ۔اسی طرح تنتج کے بجائے تناتج ، بہیمۃ کی جگہ الإبل ، تحسون کے بدلے تجدون کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔ ایک روایت میں ہل تجدون فیہا من جدعائک کے بعد حتی تکونوا أنتم تجدعونہا کا اضافہ بھی مروی ہے ۔

معنی

یہ روایت اصلاً باب تقدیر سے متعلق نہیں ہے ۔اسے باب تقدیر میں درج کرنے کی دو وجہیں سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ محدثین جبر کا وہ تاثر زائل کرنا چاہتے ہیں جو اس باب کی دوسری روایات سے پیدا ہوتا ہے ۔ دوسری یہ کہ بچوں کے جہنم یا جنت کے جانے کے معاملے میں حدیثوں کے تضاد سے پیدا ہونے والی بحث میں یہ روایت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
ایک اور زاویے سے بھی یہ روایت باب تقدیر سے متعلق ہو سکتی ہے ۔ وہ زاویہ یہ ہے کہ اس روایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت سے انسان کو کس شے پر استوار کیا ہے ۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو حق پر پیدا کیا ہے ۔ یعنی اس کی ساخت کی تقدیرحق ٹھہرائی ہے ۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اپنے ماحول سے کچھ چیزیں سیکھ کر انھیں اختیار کر لیتا ہے ۔ وہ چیزیں خیر بھی ہو سکتی ہیں اور شر بھی۔
ما من مولود الا یولد علی الفطرۃ کے جملے میں فطرۃ کا لفظ قرآن مجید کی سورۂ روم کی آیۂ فطرت کی طرف تلمیح ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کو ایک ہی قاعدے اور قانون پر استوار کیا ہے ۔ سورہ میں اس آیت کے سیاق وسباق سے واضح ہے کہ وہاں اس کا اطلاق توحید کے شعور پر ہوا ہے ۔لیکن لا تبدیل لخلق اللّٰہکے اگلے جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت کے اجزا میں دوسرے اخلاقی ضوابط ، یہاں تک کہ انسان کی جسمانی ساخت بھی شامل ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی زیر بحث روایت میں فطرت کو وسیع معنی ہی میں لیا ہے ۔
فأبواہ یھودانہ و ینصرانہ و یمجسانہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات واضح کی ہے کہ جب ہر انسان حق پر پیدا ہوتا ہے ، اس کے باوجود وہ گمراہ کیسے ہو جاتا ہے ۔ نبی صلی اللہ کا مدعا یہ ہے کہ کوئی شخص پیدایشی طور پر یہودی ، نصرانی یا مجوسی نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے برعکس وہ دین فطرت پر قائم ہوتا ہے۔اور اپنے ماحول کے زیر اثر اپنے فطری سبق کو بھول جاتا ہے ۔
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقطوع العضو جانور کی نسل سے صحیح الاعضا بچے کے پیدا ہونے کے عربوں کے عام مشاہدے کو اپنی بات واضح کرنے کے لیے پیش کیا ہے۔ جس طرح جانورکے جسم میں کسی بھی سبب سے پیدا ہونے والی تبدیلی اس کی نسل کو منتقل نہیں ہوتی ۔اسی طرح یہودی کا بچہ ہو یا نصرانی کا یا کسی اور مذہب کے ماننے والے کا وہ دین فطرت ہی پر قائم ہوتا ہے ۔
اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ یہودی اور نصرانی ہونا مقدر ہوتا ہے ۔ یہ متکلم کا منشا نہیں ہے ۔ متکلم کے پیش نظر وہی بات جس کی وضاحت ہم نے اوپر کر دی ہے ۔

کتابیات

بخاری ، کتاب الجنائز ، رقم ۱۲۷۰، ۱۲۷۱ ،۱۲۹۶ ،کتاب تفسیر القرآن ، رقم ۴۲۰۲ ، کتاب القدر ، رقم ۶۱۱۰ ۔ مسلم ، کتاب القدر ، رقم۴۸۰۳ ، ۴۸۰۴ ، ۴۸۰۵۔ترمذی ، کتاب القدر ، رقم ۲۰۶۴ ۔ ابوداؤد ، کتاب السنۃ ، رقم ۴۰۹۱ ، ۴۰۹۳ ۔ مسند احمد ، رقم ۶۸۸۴ ، ۷۳۸۷ ، ۸۷۳۹ ، ۸۹۴۹ ، ۹۸۵۱ ، ۱۴۲۷۷ ، ۱۵۰۳۷ ۔ مؤطا ، رقم ۵۰۷۔صحیح ابن حبان ، رقم ۱۲۸، ۱۲۹،۱۳۰ ، ۱۳۱ ،۱۳۲ ، ۱۳۳۔ المستخرج علی مسلم ، رقم ۲۰۶۲، مجمع الزواید ، ج ۷ ، ص ۲۱۸ ۔سنن البیہقی الکبری ، رقم ۱۱۹۱۷، ۱۱۹۱۹، ۱۱۹۲۰، ۱۱۹۲۱ ، ۱۱۹۲۲ ، ۱۱۹۲۳ ، ۱۱۹۲۴ ، ۱۱۹۲۵ ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ، رقم ۳۳۱۳۱ ۔ الجامع لمعمر بن راشد ۲۰۰۸۷ ، ۲۰۰۹۰ ۔ مصنف عبدالرزاق ، رقم ۹۳۸۶، ۱۶۸۲۱ ۔ المعجم الاوسط، ۱۹۸۴ ، ۴۰۵۰، ۴۹۴۱، ۵۳۵۰۔ مسند الطیالسی، رقم ۲۳۵۹۔ مسند ابی یعلی ، رقم ۹۴۲، ۶۳۰۶ ، ۶۳۹۴۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مارچ 2002
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Feb 08, 2017
2968 View