یہودی یا مسیحی مرد کے ساتھ مسلمان عورت کا نکاح - عمار خان ناصر

یہودی یا مسیحی مرد کے ساتھ مسلمان عورت کا نکاح

کتابی مرد کے ساتھ مسلمان عورت کے نکاح کے جواز یا عدم جواز کی بحث میں، ہمارے طالب علمانہ فہم کے مطابق جو قابل غور پہلو بنتے ہیں، ان کے حوالے سے ہماری معروضات حسب ذیل ہیں:
قرآن مجید نے سورۃ البقرۃ میں اس بات کی صریح ممانعت بیان کی ہے کہ مسلمان مرد کسی مشرک عورت سے یا مسلمان عورت کسی مشرک کے ساتھ رشتہ نکاح قائم کرے۔ تاہم اہل کتاب کے ساتھ معاشرتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے سورہ مائدہ میں ان کی پاک دامن خواتین کے ساتھ مسلمان مردوں کے نکاح کا تو تصریحاً‌ ذکر کیا ہے، لیکن مسلمان عورت کے کسی کتابی مرد کے ساتھ نکاح سے متعلق وضاحت کے ساتھ نفیاً‌ یا اثباتاً‌ کوئی بات نہیں کہی۔ چنانچہ سب سے بنیادی نکتہ اس بات کی تعیین ہے کہ مائدہ کی آیت میں محصنات اہل کتاب کے تصریحاً ذکر کیے جانے جب کہ محصنین سے سکوت کی وجہ ازروئے بلاغت کیا ہو سکتی ہے؟ آیا یہ سکوت اس پر دلالت کرتا ہے کہ اجازت صرف محصنات کے نکاح کی دینا مقصود ہے یا اس کے علاوہ کچھ دوسرے پہلووں کا بھی احتمال ہے؟
پہلے نکتے کے حق میں یہ دلیل دی جا سکتی ہے (جو امام ابوبکر الجصاص نے بیان کی ہے) کہ مائدہ کی آیت دراصل سورئہ بقرہ میں مشرکین (یعنی ہر قسم کے اہل کفر) کے ساتھ حرمت نکاح کے عمومی حکم کے بعد ایک استثنایا تخصیص کو بیان کرنے کے لیے آئی ہے اور اس اعتبار سے یہاں محصنات اہل کتاب کے ذکر پر اکتفا اس بات کی دلیل ہے کہ محصنین اہل کتاب سے مسلمان عورتوں کے نکاح کے حوالے سے حرمت کا سابقہ حکم علیٰ حالہ برقرار ہے۔
اگر اس استدلال کا بنیادی مقدمہ درست ہو تو ظاہر ہے کہ نتیجہ بھی بہت محکم ہے، تاہم میری طالب علمانہ رائے میں بقرہ کی آیت: ولا تنکحوا المشرکین کی تعمیم کو قرآن مجید کی مخصوص اصطلاح اور استعمال قبول نہیں کرتا۔ اہل کتاب میں سے نصاریٰ میں یقینا شرک پایا جاتا ہے، لیکن بطور ایک گروہ کے المشرکین کا لقب قرآن نے خاص طور پر اہل کتاب سے الگ، صرف مشرکین عرب کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس لحاظ سے صحیح صورت حال یہ بنتی ہے کہ قرآن نے بقرہ میں مشرکین سے نکاح کی تو ممانعت کر دی تھی، جبکہ کفار کے دیگر گروہوں کا حکم مسکوت عنہ رہا تا آنکہ مائدہ کی آیت میں اسے ایک مستقل ہدایت کے طور پر، نہ کہ بقرہ کی آیت کی تخصیص کے طور پر، بیان کیا گیا۔
الیوم احل لکم کے الفاظ سے بظاہر یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ یہاں ان چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جنھیں پہلے حرام قرار دیا گیا تھا، لیکن بدیہی طور پر یہ شبہ درست نہیں، کیونکہ یہ اسلوب قرآن کی زبان میں مسکوت عنہ اور مبہم چیزوں کی حلت کے واضح بیان کے لیے بھی اتنا ہی موزوں ہے۔ پہلے مفہوم پر اس لیے بھی انھیں محمول نہیں کیا جا سکتا کہ احل لکم الطیبت اور المحصنت من المومنات میں طیبات اور محصنات کو یہاں پہلی مرتبہ حلال نہیں کیا گیا، بلکہ ان کی پہلے سے معلوم حلت کو ایک خاص بلاغی فائدے کے لیے (جس کا ذکر آگے آتا ہے) دہرایا گیا ہے۔
میرے خیال میں قرآن مجید کے مجموعی اسالیب کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ احتمال کے علاوہ کم سے کم دو مزید احتمالات قابل غور ہیں:
ایک یہ کہ قرآن مجید میں مناکحات کے بیان میں عمومی طور پر مردوں کو ہی مخاطب کیا گیا ہے اور اصلاً انھی کے تعلق سے احکام بیان کیے گئے ہیں، جبکہ خواتین کے احکام ان سے بالتبع اخذ کیے جاتے ہیں۔ مثلاً نساءمیں محرمات کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ آزاد عورتوں سے نکاح نہ کر سکتے ہوں، وہ لونڈیوں سے نکاح کر لیں: فمن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنت المومنت فمن ما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المومنت۔ یہاں آزاد عورتوں کے، غلاموں سے نکاح کا تصریحاً ذکر نہیں، لیکن ظاہر ہے کہ بالتبع اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اسی اصول پر مائدہ کی آیت میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ چونکہ مناکحات میں اصلاً مرد ہی مخاطب ہوتے ہیں، اس لیے انھی کے زاویے سے محصنات اہل کتاب کا ذکر کیا گیا ہے اور محصنین اہل کتاب کا حکم اس سے بالتبع اخذ کیا جائے گا۔ گویا مسلمان عورتوں کے لیے محصنین اہل کتاب کی حلت کا عدم ذکر کوئی قطعی دلیل اس بات کی نہیں بنتی کہ ان کے ساتھ نکاح کو ممنوع سمجھا جائے۔
بقرہ کی آیت ولا تنکحوا میں صنفین کے نکاح کی ممانعت کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ وہاں سادہ طور پر صرف نکاح کے احکام کا بیان پیش نظر نہیں، بلکہ بحیثیت مجموعی مسلمان سوسائٹی کے مشرک سوسائٹی کے ساتھ تعلقات کی تحدید مقصود ہے۔ دونوں کے مابین خاندانی رشتے ناتے پہلے سے چلے آ رہے تھے اور قرآن اب اس پر پابندی عائد کرنا چاہتا تھا، اس لیے تصریحاً یہ کہنے کی ضرورت تھی کہ مشرکین کے ساتھ ازدواجی تعلق کی کوئی بھی صورت اختیار نہ کی جائے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہاں نئے رشتے قائم کرنے کی ممانعت بتائی گئی ہے، جبکہ سابقہ رشتوں سے متعلق کوئی واضح ہدایت نہیں دی گئی۔ سابقہ رشتوں سے متعلق واضح ہدایت بہت بعد میں سورئہ ممتحنہ میں معاہدئہ حدیبیہ کی ایک شق کے تناظر میں دی گئی اور یہ کہا گیا کہ نہ مسلمان مرد، مشرک عورتوں کو اپنے نکاح میں روکے رکھیں اور نہ مسلمان عورتوں کو، ان کے مشرک خاوندوں کے پاس واپس بھیجا جائے۔
دوسرا احتمال جو قابل غور ہے، وہ یہ کہ قرآن مجید عام طور پر حکم کے بیان میں مخاطبین کے ذہنی حالات اور زمانہ نزول کی معروضی صورت حال کو بھی مد نظر رکھتا ہے اور اس کی بیان کردہ قیود اور شرائط کا صحیح رخ سمجھنے کے لیے اس پہلو کو ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے، جیسے مثال کے طو رپر من اصلابکم کی قید کا مقصد سمجھنے کے لیے متبنیٰ سے متعلق عرب روایت کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ مائدہ کی آیت میں صرف محصنات کے حکم پر اکتفا کی ایک ممکنہ وجہ، اس اسلوب کی رو سے، یہ ہو سکتی ہے کہ اس ماحول میں مسلمانوں کے ہاں اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کا رجحان اور رغبت تو موجود تھی اور غالباً یہی چیز یسئلونک ماذا احل لہم کا محرک بنی تھی، لیکن خواتین کو ان کے نکاح میں دینے کی کوئی خاص روایت یا رجحان موجود نہیں تھا۔ اس لحاظ سے قرآن نے اگر سائلین کے ذہنی رجحان کے تناظر میں اسی پہلو کے بیان پر اکتفا کی (اور دوسرے پہلو کے، سرے سے زیر بحث ہی نہ ہونے کی وجہ سے صرف نظر کیا) تو اسے کوئی قطعی قرینہ اس بات کا نہیں کہا جا سکتا کہ وہ محصنین سے نکاح کو ممنوع قرار دینا چاہتا ہے۔
مذکورہ وجوہ سے میری طالب علمانہ رائے کے مطابق محصنین اہل کتاب کے ساتھ نکاح کی ممانعت کو قطعی طور پر منصوص کہنا ازروئے اصول فقہ کافی مشکل ہے۔ البتہ چند قرائن سے شارع کا یہ رجحان یقینا معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نکاح اس کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔ مثلاً مائدہ کی آیت میں قرآن نے اہل کتاب کے ساتھ معاملات کے حوالے سے دو امور کا ذکر کیا ہے: ایک خور ونوش اور دوسرا نکاح۔ خور ونوش کے ذکر میں صریحاً دو طرفہ حلت بیان کی گئی ہے، یعنی طعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم وطعامکم حل لہم، جبکہ نکاح کے بیان میں صرف یک طرفہ حلت کا ذکر ہے۔ ایک ہی سیاق میں اسلوب کی یہ تبدیلی قطعی دلیل نہ سہی، ایک بہت مضبوط قرینہ اس بات کا ضرور ہے کہ شارع نکاح کی اجازت کو یک طرفہ ہی رکھنا چاہتا ہے۔
قرآن کے دیگر بیانات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ مناکحت کے تعلق کو اصلاً اہل ایمان ہی کے مابین پسند کرتا ہے۔ چنانچہ مائدہ کی زیر بحث آیت میں اصولی طور پر المحصنات من المومنات کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ ان کی حلت پہلے سے واضح تھی، تاہم قرآن نے اس کو یہاں دہرایا ہے اور اس کے بعد بالتبع محصنات اہل کتاب کا ذکر کیا ہے تاکہ نکاح کے معاملے میں شارع کی ترجیحات واضح رہیں۔ سورئہ نساءمیں لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اجازت میں من فتیاتکم المومنات کی قید بھی اسی ترجیح کو واضح کرتی ہے۔
مزید برآں شریعت کے عمومی مقاصد اور پیش نظر مصالح بھی اس رجحان کی تائید کرتے ہیں۔ رشتہ نکاح میں عورت کا مرد کے تابع ہونا ایک بدیہی امر ہے اور ظاہر ہے کہ اسلام کا مجموعی مزاج اس کو ناپسند ہی کرے گا کہ ایک مسلمان عورت کسی غیر مسلم مرد کے فراش پر ہو۔ فی نفسہ ایک ناگوار امر ہونے کے ساتھ ساتھ اگر عورت اور اس کی اولاد کے، شوہر کے دین اور کافرانہ ماحول سے متاثر ہونے کا خطرہ بھی ہو تو ظاہر ہے کہ اس رشتے کی قباحتیں شریعت کی نظر میں مزید بڑھ جاتی ہیں۔
مذکورہ ساری بحث کے تناظر میں، میری رائے یہ ہے کہ اہل کتاب کے مردوں او رمسلمان عورتوں کے مابین نکاح کو عمومی اباحت کے طور پر پیش کرنا اور خاص طور پر یہود ونصاریٰ کے علاوہ دوسرے غیر مسلم گروہوں کو بھی ”اہل کتاب“ میں شمار کرتے ہوئے باہمی مناکحت کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنا شریعت کے مزاج اور ترجیحات کی درست ترجمانی نہیں۔ البتہ ایک خاص صورت میں عملی مصالح کے تناظر میں اہل کتاب مرد اور مسلمان عورت کے نکاح کو گوارا کیا جا سکتا ہے، یعنی جب میاں بیوی میں سے صرف عورت مسلمان ہو جائے اور اس کے لیے عملی حالات کے لحاظ سے اپنے شوہر اور بچوں سے علیحدگی اختیار کرنا بوجوہ مشکل ہو جائے۔ یہ صورت اس وقت یورپ میں کثرت سے پیش آ رہی ہے اور عالم اسلام کے بعض جید اہل علم نے اس پر اجتہادی زاویہ نظر اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ (یورپی مجلس افتاءکا رجحان بھی اس حوالے سے تیسیر کی طرف ہے، جبکہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے ”مقاصد شریعت“ میں اس کی تائید کی ہے)۔ میرا طالب علمانہ رجحان بھی اسی طرف ہے اور اپنی کتاب ”حدود وتعزیرات:چند اہم مباحث“ میں، میں اس پر اپنی رائے ان الفاظ میں بیان کر چکا ہوں:
”نصوص کے فہم کا ایک بے حد اہم پہلو یہ ہوتا ہے کہ اس دائرئہ اطلاق کو متعین کیا جائے جس میں نص قطعی طور پر موثر ہے اور جس سے باہر ایک مجتہد اپنی مجتہدانہ بصیرت کو بروے کار لانے کے لیے پوری طرح آزاد ہے۔ اس فہم میں ظاہر ہے کہ اختلاف بھی واقع ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کی رو سے ایک مسلمان خاتون کو کسی غیرمسلم مرد سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ حکم کوئی نیا رشتہ نکاح قائم کرنے کی حد تک تو بالکل واضح ہے، لیکن میاں بیوی اگر پہلے سے غیرمسلم ہوں اور بیوی اسلام قبول کر لے تو کیا ان کے مابین تفریق بھی لازم ہوگی؟ حکم کا اس صورت کو شامل ہونا قطعی نہیں۔ عقلی اعتبار سے حالت اسلام میں کسی غیر مسلم شوہر کا ارادی انتخاب کرنے اور پہلے سے چلے آنے والے رشتہ نکاح کو نبھانے میں ایک نوعیت کا فرق پایا جاتا ہے اور سیدنا عمر کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اس صورت میں تفریق کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ بعض مقدمات میں انھوں نے میاں بیوی کے مابین تفریق کر دی ،جبکہ بعض مقدمات میں بیوی کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہے تو خاوند سے الگ ہو جائے اور چاہے تو اسی کے نکاح میں رہے۔ (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۰۰۱، ۳۸۰۰۱) یقیناً‌ اس فیصلے میں انھوں نے بیوی کو درپیش عملی مسائل ومشکلات کا لحاظ رکھا ہوگا اور آج کے دور میں بالخصوص غیرمسلم ممالک میں پیش آنے والے اس طرح کے واقعات میں سیدنا عمر کا یہ اجتہاد رہنمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔“ (ص ۳۵۲، ۳۵۳) 

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام، تحریر/اشاعت 24 اکتوبر 2016
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Dec 01, 2016
3811 View