مسئلۂ قومیت - جاوید احمد غامدی

مسئلۂ قومیت

رنگ، نسل، زبان، تہذیبی روایات اور وطن کی بنیاد پر ایک قوم ہونے کا احساس انسان کی فطرت میں ودیعت ہے۔ تمام انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں، لیکن اپنے رشتہ داروں سے جو قربت محسوس ہوتی ہے، وہ دوسرے انسانوں سے محسوس نہیں ہوتی۔ یہی معاملہ قوم کا ہے۔ انسان جس طرح اپنی شخصیت، خاندان اور اعزہ و اقربا کے حوالے سے اپنی انفرادیت کا اظہار کرتا اور دوسروں سے آگے رہنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے، اِسی طرح قوم کے حوالے سے بھی محسوس کرتا ہے۔اپنی شناخت کا یہی احساس ہے جس سے لوگ مل کر مشترک معاشرت بناتے اور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے مددگار بنتے ہیں۔ قرآن نے اِسے’تعارف‘ کے لفظ سے تعبیر کیا اور فرمایا ہے کہ شعوب و قبائل اِسی کے پیش نظر وجود میں آئے ہیں۔

اسلام دین فطرت ہے۔ اُس کے نزدیک جو چیز قابل اعتراض ہے، وہ قومیت کی بنیاد پر تکبر ہے، دوسری قوموں سے نفرت ہے، اُنھیں کم تر سمجھ کر مغلوب کرنے، اُن کے حقوق غصب کرنے، اُن کے اور اپنے درمیان اونچ نیچ اور شریف اور کمین کے امتیازات قائم کرنے، اُنھیں ذلیل و حقیر سمجھنے اور اُن کا استحصال کرنے کے داعیات ہیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِن میں سے ہر چیز کو وہ انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا اور انسانیت کے خلاف بدترین جرم قرار دیتا ہے، لیکن قومیت کی نفی نہیں کرتا، بلکہ اُس کی اُن تمام بنیادوں کو تسلیم کرتا ہے جو علم سیاست میں بالعموم اُس کے لیے بیان کی جاتی ہیں۔ قوموں کے مابین مسابقت کے جذبے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اُس کے شایستہ اظہار پر بھی اُسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مسلمانوں کے مختلف گروہ اگر اپنی قوم کے حوالے سے اپنا تعارف کرائیں، حقوق کا مطالبہ کریں یا اپنی کوئی الگ قومی ریاست قائم کرنا چاہیں تو اِسے بھی وہ ناجائز نہیں کہتا۔ لہٰذا یہ نقطۂ نظر کہ اسلام میں قومیت کی بنیاد بھی اسلام ہی ہے، کسی طرح درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ قرآن نے کسی جگہ یہ نہیں کہا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا اُنھیں ایک ہی قوم ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے اندر اقوام و ملل کا وجودوہ تسلیم کرتا ہے۔ اُس نے جو بات کہی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں: ’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ‘ (الحجرات۴۹:۱۰)۔ قرآن کی رو سے مسلمانوں کا باہمی رشتہ قومیت کا نہیں، بلکہ اخوت کا ہے۔ وہ دسیوں ریاستوں اور بیسیوں ممالک میں تقسیم ہونے کے باوجود ایمان کے رشتے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اِس لیے یہ تقاضا تو اُن سے کیا جا سکتا ہے اور کرنا چاہیے کہ اپنے بھائیوں کے حالات کی خبر رکھیں، اُن کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں اُن کے کام آئیں، وہ مظلوم ہوں تو اُن کی مدد کریں، معاشی اور معاشرتی روابط کے لیے اُنھیں ترجیح دیں اور اُن پر اپنے دروازے کسی حال میں بند نہ کریں، مگر یہ تقاضا نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی قومی ریاستوں اور قومی شناخت سے دست بردار ہوکر لازماً ایک ہی قوم اور ایک ہی ریاست بن جائیں۔ وہ جس طرح اپنی الگ الگ قومی ریاستیں قائم کر سکتے ہیں، اِسی طرح دین و شریعت پر عمل کی آزادی ہو تو غیر مسلم اکثریت کی ریاستوں میں شہری کی حیثیت سے اور وطن کی بنیاد پر ایک قوم بن کر رہ بھی سکتے ہیں۔ اِن میں سے کوئی چیز قرآن و سنت کی رو سے ناجائز نہیں ہے۔

 

[۲۰۰۸ء]

_______________

یہ آرٹیکل جاوید احمد غامدی کی کتاب ’’مقامات‘‘ سے لیا گیا ہے۔
’’مقامات‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : جاوید احمد غامدی