کورونا اور گھروں میں اعتکاف - ڈاکٹر محمد عامر گزدر

کورونا اور گھروں میں اعتکاف

 سوال: کورونا کی موجودہ صورتِ حال میں ریاست کے حکم پر مساجد بند ہیں، لہٰذا مسلمان کیا اعتکاف کی عبادت اپنے گھروں میں انجام دے سکتے ہیں؟

جواب: اسلامی عبادات میں اعتکاف ایک نفل عبادت اور پسندیدہ سنت ہے۔ اِس کی انجام دہی کا مسجد میں ہونا شریعت کے قانون میں ایک بنیادی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ شرط سنت میں بھی معلوم ومعروف ہے اور قرآن مجید میں بھی اِس کا ذکر موجود ہے(البقرہ ۲: ۱۲۵، ۱۷۸)۔ ہمارے فقہا نے بھی اِس کو اعتکاف کا اساسی  رکن مانا ہے۔اعتکاف کی عبادت میں بندۂ مومن اپنی گھریلو اور کاروباری مصروفیات سے الگ ہوکر اللہ کی عبادت اور اُس کی طرف تبتل کے لیے مسجد میں گوشہ نشین ہوجاتا اور بغیر کسی ناگزیر انسانی ضرورت کے مسجد سے باہر نہیں نکلتا۔یہ اعتکاف کی تعریف ہے۔ غور کیجیے کہ قیامِ مسجد کے ذکر کے بغیر اعتکاف کی شرعی تعریف بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہ عبادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی میں جس طرح رمضان میں ادا کی جاتی ہے، اِسی طرح دوسرے ایام میں بھی لوگ، جب چاہیں اِس کا اہتمام کرسکتے ہیں۔

اب موجودہ حالات میں دنیا کے اکثر خطوں میں مساجد کی بندش کی وجہ سے اگر اعتکاف کی اِس نفل عبادت کو اپنی مشروع صورت میں بجالانا ممکن نہیں رہا تو اِس میں مسلمانوں کے لیے حرج کی کوئی بات نہیں ہے۔ جب بھی حالات سا ز گار ہوں،  ادا کر لیں۔ جیسے مثال کے طور پر موجودہ صورت حال میں آج کل عمرہ کی نفل عبادت بھی عام مسلمانوں کے لیے عارضی طور پر موقوف ہے تو ہم شریعت کی اِس عبادت کا کوئی متبادل تلاش نہیں کریں گے۔

تاہم رمضان کےاِن ایام میں لوگ گھروں میں تبتل الی اللہ کی غرض سےقیام، رکوع وسجود، دعا ومناجات اور تدبر فی القرآن کا جو اہتمام بھی کریں گے، بلاشبہ وہ اِس پر عند اللہ ماجور ہوں گے۔ تاہم اِس کو شریعت کی مقرر کردہ اعتکاف کی سنت عبادت کا نام دینا درست نہیں ہوگا۔

تفہیم مدعا کے لیے چند  مثالیں پیش خدمت ہیں : ایک یہ کہ لوگ عمرہ کرنا چاہتے ہوں، لیکن فرض کیجیے کہ کسی عذر کی وجہ سے احرام کا لباس اور اُس کی پابندیاں اختیار نہیں کرسکتے، جو حج وعمرہ میں ایک بنیادی شرط ہے، تو اُنھیں یہی کہا جائے گا کہ آپ اپنے عمرہ کے ارادے کو عذر کے ختم ہونے تک مؤخر کردیجیے۔ بغیر احرام کے جو کچھ آپ انجام دیں گے، شریعت کی رو سے یہ عمرہ نہیں کہلائے گا۔ دوسرے یہ کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر یا حج وعمرہ کی قربانی کے لیے   لوگوں کو قربانی کے جانور، یعنی انعام کی قسم کے چوپایے میسر نہ ہوں تو اُس کی بجاے مرغی ذبح کر لینے کو  سنتِ قربانی قطعاً  نہیں  کہا جاسکتا ۔تیسرے یہ کہ جمعے کی نماز فرض ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے قیام ِجمعہ کی ذمہ داری اُن کے حکمرانوں پرعائد کی گئی ہے۔ اب موجودہ صورت حال میں مساجد خود ریاست کے حکم پر بند ہیں، لہٰذا یہی کہا جائے گا کہ جمعے کا حکم فی الوقت نہیں رہا، نہ کہ ہم جمعے کی نماز کو گھروں میں ادا کریں گے۔

اوپر کی گئی وضاحت پر کوئی شخص یہ سوال بجا طور پر کرسکتا ہے کہ خود شریعت میں انسانی حالات کی رعایت سے رفع حرج کے اصول پر رعایتیں دی گئی ہیں، لہٰذا اِس معاملے میں مسجد کی شرط کو کالعدم کرکے رعایت کیوں نہیں دی جاسکتی؟

اِس کے جواب میں عرض ہے کہ اوپر ہم نے بیان کردیا ہے کہ گھروں میں عبادات کے اہتمام میں سرے سے کوئی ترددنہیں ہے۔ یہ سب اعمالِ خیر اور باعثِ اجر وثواب ہیں۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ شریعتِ اسلامی کی رو سے اِس عمل کو اعتکاف قطعاً نہیں کہا جاسکتا۔ دوسرے یہ کہ یہ بات تو درست ہے کہ احکام ِشریعت کی انجام دہی میں مسلمانوں کے لیے ’تیسیر‘ اور ’رفع حرج‘ کا ضابطہ خود قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ لیکن غور کیجیے کہ اعتکاف کی عبادت میں کوئی حرج اور مشقت رکھی ہی نہیں گئی ہے کہ جس کو دور کیا جائے۔ اِس لیے کہ یہ عبادت نہ فرض ہے اور نہ رمضان ہی کے ساتھ خاص ہے، بلکہ اِسے عمرہ کی طرح، جب چاہے ادا کیا جاسکتا ہے اور ترک کرنے پربھی کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ موجودہ صورت حال کی مجبوری کی وجہ سے لوگ جس طرح عمرہ نہیں کر پارہے ہیں، اِسی طرح اکثر ملکوں میں اُن کے لیے فی الوقت اعتکاف بھی ممکن نہیں رہا۔ حرج اور زحمت تو اُس صورت میں ہوتی جب یہ عبادت خاص رمضان کے اِنھی ایام میں شریعت نے مسلمانوں پر واجب کردی ہوتی۔تیسرے یہ کہ اعتکاف اورعمرہ کی دونوں عبادات کا کوئی متبادل خود دین میں موجود ہوتا تو ظاہر ہے کہ موجودہ حالات کی معذوری میں ہم اُس کو اختیار کرلیتے۔تاہم خود سے ہم کسی مشروع عبادت کا متبادل بنا کر اُس کو شریعت کا دیا ہوا وہی نام کیسے دے سکتے ہیں۔

ہاں البتہ، شریعت کی کوئی لازمی عبادت ہو ،اُس کی ادائیگی کا وقت، دن یا مقام متعین کردیا گیا ہو اور پھر اُس میں لوگوں کے لیے کوئی معاملہ باعث حرج و مشقت بن جائے تو ایسی بہت سی صورتوں میں رعایت دینے اور تنگی کو دور کرنے کا حکم خود قرآنی نصوص میں دیکھ لیا جاسکتا ہے۔ اُن میں کسی عبادت کے واجبات، شرائط یا ارکان تک بھی مجروح ہوجائیں تو اِس کو گوارہ کیا گیا ہے، جیسے حالت خوف میں چلتے ہوئے یا سواری پر بیٹھ کر نماز پڑھ لینا، عذر کی بنا پر حاجیوں کو ایامِ تشریق میں قیام ِمنیٰ سے رخصت دے دینا، رفع حرج کے لیے رمی جمرات کو اُس کے متعین ایام سے مؤخر کردینا، بیمار یا مسافر کے لیے رمضان کے روزوں کو مؤخر کردینا، سفر، مرض یا پانی کی نایابی کی صورت میں وضو کے بجاے تیمم کرلینا وغیرہ۔ اِسی طرح طوافِ حج کے موقع پر عورتیں ایام سے ہوں، اُن کے پاس انتظار کا موقع نہ ہو اور اپنے وطن کی طرف سفر کا وقت آگیا ہو تو اُن کو رفع حرج اور تیسیر ہی کے ضابطے پر بعض فقہا نے بجا طور پر رخصت دی ہے کہ وہ اِس حالت میں بھی ممکنہ پاکیزگی کا اہتمام کرکے طواف حج کر لیں۔

تاہم اعتکاف کے زیر بحث مسئلے میں حکم کے اعتبار سے کوئی حرج ہے، نہ زمانی اعتبار سے کسی قید کی ایمرجنسی ہے کہ جس سے رخصت دی جائے۔واللہ اعلم۔

___________

مصنف : ڈاکٹر محمد عامر گزدر
Uploaded on : May 16, 2020
1900 View