قانون کی بنیاد - جاوید احمد غامدی

قانون کی بنیاد

 

انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے۔ اپنے خالق کے سوا وہ کسی کا محکوم نہیں ہے۔ چنانچہ فرد ہو یا ریاست، کسی کا بھی حق نہیں ہے کہ وہ اُس کے علم و عمل پر کوئی قدغن لگائے یا اُس کے جان و مال اور آبرو کے خلاف کوئی اقدام کرے۔ یہ آزادی انسان کا پیدایشی حق ہے اور اُس کے خالق نے اُسے عطا فرمائی ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی منشور اِسی حقیقت کا اظہار ہے۔ دنیا کی تمام قوموں نے اِسے تسلیم کیا ہے اور اپنے دساتیر میں ضمانت دی ہے کہ وہ اِس کی خلاف ورزی نہیں کریں گی۔ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ اس آزادی کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت ہے اور وہ کبھی نہیں چاہتا کہ کوئی فرد یا ادارہ یا حکومت اِس کو سلب کرنے کی کوشش کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر نہایت بلیغ اسلوب میں اِسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی تھی۔ آپ کا ارشاد ہے:

إن دماء کم وأموالکم وأعراضکم بینکم حرام کحرمۃ یومکم ھٰذا فی شہرکم ھٰذا فی بلدکم ھٰذا.(بخاری، رقم ۶۷)
’’تمھاری جانیں، تمھارے مال اور تمھاری آبروئیں تمھارے درمیان اُسی طرح حرام ہیں، جس طرح تمھارے اِس دن (یوم النحر) کی حرمت تمھارے اِس مہینے (ذوالحجہ) میں اور تمھارے اِس شہر (ام القریٰ مکہ) میں۔‘‘

لیکن انسان کی یہ آزادی اور اُس کے جان و مال اور آبرو کی یہ حرمت کیا مطلق ہے؟ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں، یہ اُس صورت میں، یقیناً ختم ہو جاتی ہے، جب وہ کسی کی حق تلفی کرتا ہے یا کسی کے جان و مال اور آبرو کے خلاف کسی اقدام کے درپے ہوتا ہے۔ انسان کا اخلاقی شعور اور خدا کی شریعت، دونوں متفق ہیں کہ اِس کے بعد ہر معاشرے کو حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اُس کی یہ آزادی سلب کر لے اور جان و مال اور آبرو کی اِس حرمت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔
نظم ریاست کے لیے قانون سازی کی بنیاد درحقیقت یہی ہے۔ تمام قوانین اِسی حق تلفی اور زیادتی کے ارتکاب سے لوگوں کو روکنے یا اِس کے مرتکبین کی تادیب کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ہر ادارے، ہر حکومت اور ہر پارلیمان کا حق قانون سازی یہاں سے شروع ہوتا اور یہیں ختم ہو جاتا ہے۔ قتل، چوری، زنا، قذف اور حرابہ کے مجرموں کو سزا دینے کا جو حکم اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو دیا ہے، وہ بھی اِسی بنا پر ہے کہ زنا، حق تلفی اور قتل، چوری، قذف اور حرابہ جان و مال اور آبرو کے خلاف زیادتی ہے۔ خلفاے راشدین کے زمانے میں جب شراب نوشی کی سزا مقرر کرنے کا مسئلہ زیربحث آیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اِسی اصول پر فرمایا کہ اِس کے مرتکبین کو وہی سزا دی جائے جو قرآن میں قذف کے لیے بیان ہوئی ہے، اِس لیے کہ جب پئیں گے تو مدہوش ہوں گے اور مدہوش ہوں گے تو بکواس کریں گے اور بکواس کریں گے تو دوسروں پر جھوٹی تہمتیں لگائیں گے۔* یہی معاملہ نکاح، طلاق، تقسیم وراثت اور اِس نوعیت کے دوسرے امور کا ہے۔ یہ سب بھی اُسی وقت ریاست سے متعلق ہوتے ہیں، جب کوئی شخص اِن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ حقوق ادا نہیں کرتا اور اِس طرح حق تلفی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ریاست پاکستان میں دوسری شادی کے لیے بیوی کی اجازت اور کم سنی کے نکاح پر پابندی کا جو قانون بنایا گیا ہے، وہ بھی اِسی اصول پر مبنی ہے۔
دنیا کی ہر حکومت اور ہر قانون ساز ادارہ پابند ہے کہ وہ اپنے قانون اور ضابطوں کا جواز اِسی سے ثابت کرے اور لوگوں کا حق ہے کہ وہ اُس کے بنائے ہوئے قوانین کا جائزہ لیں اور اگر دیکھیں کہ کوئی قانون یا ضابطہ اِس اصول سے ہٹ کر بنایا گیا ہے تو اُسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔ چنانچہ کسی حکومت نے اگر، مثال کے طور پر، یہ قانون بنایا ہے کہ لوگ اپنی مذہبی علامتوں، جیسے زنار اور صلیب اور پگڑی اور کرپان وغیرہ کا اظہار نہیں کریں گے یا بیوی کو طلاق دیں گے تو اپنے اموال کا اتنا اور اتنا حصہ لازماً اُس کے حوالے کر دیں گے یا ڈاڑھی نہیں منڈوائیں گے یا نیکر نہیں پہنیں گے یا موسیقی نہیں سنیں گے یا عورتیں نقاب نہیں پہنیں گی یا سر پر اسکارف نہیں لیں گی یا اِس کے برخلاف یہ قانون بنایا ہے کہ وہ نقاب کے بغیر باہر نہیں نکلیں گی یا محرم کے بغیر حج و عمرہ کے لیے نہیں آئیں گی یا گاڑی نہیں چلائیں گی یا فلاں اور فلاں پیشہ اختیار نہیں کریں گی یا سیاست میں حصہ نہیں لیں گی یا ووٹ نہیں دیں گی تو یقیناًحدود سے تجاوز کیا ہے۔ اِن میں سے کوئی چیز اگر خدا کا حکم بھی ہے تو لوگ اُس کی پابندی یا خلاف ورزی کے معاملے میں خدا ہی کے سامنے جواب دہ ہیں۔ دنیا کی کوئی حکومت اِس طرح کے معاملات میں کسی شخص کو کوئی حکم نہیں دے سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے پوری صراحت کے ساتھ واضح کر دیا ہے کہ دین کے ایجابی احکام میں سے مسلمانوں کا نظم اجتماعی اگر اُن سے کسی چیز کا مطالبہ کر سکتا ہے تو وہ صرف نماز اور زکوٰۃ ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اِس کے بعد وہ پابند ہے کہ اُن کی راہ چھوڑ دے اور قانون کی طاقت سے کوئی چیز اُن پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ فرمایا ہے:

فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ.(التوبہ ۹: ۵)
’’پھر اگر یہ لوگ توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔‘‘

یہ حکم خدا کے پیغمبر کو اور اُس وقت دیا گیا تھا، جب زمین پر خود خدا کی حکومت قائم تھی۔ چنانچہ ہم نے اِس آیت کے تحت اپنی تفسیر میں لکھا ہے:

’’...اِس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست اور قانون کی سطح پر ایمان و اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اِس سے زائد سے کوئی مطالبہ کسی مسلمان سے نہیں کیا جا سکتا۔ اِس لیے کہ جب خدا نے اپنے پیغمبر کو خود اپنی حکومت میں اِس کی اجازت نہیں دی تو دوسروں کو کس طرح دی جا سکتی ہے۔‘‘ (البیان ۲/ ۳۲۵)

[۲۰۱۴ء]

  

* بدایۃ المجتہد ۲/ ۳۳۲۔

------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق
تحریر/اشاعت مارچ 2015
مصنف : جاوید احمد غامدی