اصلاح معاشرہ - خالد مسعود

اصلاح معاشرہ

 

معاشرہ کسی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی قوت اور درستی پر قوم کے وجود، استحکام اور بقا کا انحصار ہے۔ معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑ سے قوم براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قومی، صحت مند اور با صلاحیت قوم وجود میں آتی ہے اور اگر معاشرہ بگڑا ہوا ہو تو اس کا فساد قوم کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔
معاشرے کا کردار بننے یا بگڑنے کا عمل فی الفور مکمل نہیں ہو جاتا، بلکہ اس میں طویل مدت صرف ہوتی ہے۔ بگاڑ کی راہ پر چلنے والے معاشرہ میں اچھی اقدار ایک ایک کرکے منہدم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ نیک و بد کے بارے میں شدید احساس رکھنے والے لوگ تو اس خرابی کو جلد بھانپ جاتے ہیں، لیکن عام لوگوں پر یہ مدتوں کے بعد کھلتی ہے۔ اسی طرح معاشرہ کی اصلاح کا کام بھی ہے۔ جس طرح ایک بنیاد اٹھا کر اس پر ایک ایک اینٹ جوڑنے سے دیوار مکمل ہوتی ہے۔ اسی طرح اصلاح کا کام بھی ایک تعمیر کی منصوبہ بندی چاہتا ہے۔ جب یہ کام منصوبہ بندی کے بغیر کیا جائے تو اس کی کامیابی محل نظر ہوتی ہے۔
قرآن مجید نے قوموں کے عروج و زوال کی جو تاریخ بیان کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومیں جب بھی خدا اور آخرت کے تصور سے بے نیاز ہوتی ہیں یا ان کا یہ تصور ناقص ہوا ہے اور ان میں اخلاقی مفاسد سرایت کر گئے ہیں تو اگر قوم میں اصلاح احوال کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو وہ ہمیشہ برباد ہو گئی ہے۔ اس کی تباہی میں اس سوال کو کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی کہ اس کے فساد کی نوعیت کیا ہے، بلکہ ہر برا عمل، خواہ اس کی نوعیت اس تکبر کی رہی ہو جو عاد اور ثمود میں تھا، اس اخلاقی گراوٹ کی رہی ہو جو قوم لوط میں پائی جاتی تھی یا اس تاجرانہ بدمعاملگی اور بد دیانتی کی ہو جس کا مظاہرہ قوم شعیب نے کیا، جب بھی وہ معاشرہ کا اجتماعی کردار بن گیا تو اس کی موت کا پیغام لے آیا۔ قرآن مجید کے اس فلسفہ کی رو سے ایک قوم کے برمندہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرہ کے اندر خدا کا خوف اور اس کے ساتھ صحیح بنیادوں پر تعلق پایا جائے۔ دلوں میں آخرت کے محاسبہ کا اندیشہ موجود ہو اور کسی بھی قسم کے فساد اعمال کو معاشرہ پر مسلط ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ یہ مقصد ظاہر ہے کہ صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب قوم کے اندر اصلاح معاشرہ کے لیے ایک مسلسل جدوجہد کی جاتی رہے۔ اور کسی بھی فساد کے معاملے میں چشم پوشی سے کام لے کر اسے قوم کے اجتماعی وجود میں راہ پانے کا موقع نہ دیا جائے۔
معاشرہ کے اندر جب فساد راہ پا جاتا ہے تو اس کا ظہور نہ تو کسی ایک ہی شکل میں ہوتا اور نہ کسی ایک ہی طبقہ تک محدود رہتا ہے۔ بلکہ ہر شعبۂ زندگی اور قوم کا ہر طبقہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ قوم کے سنجیدہ عناصر جب اصلاح احوال کے لیے فکر مند ہوتے ہیں تو متنوع مفاسد پر گرفت کے لیے انھیں کوئی طریقہ سجھائی نہیں دیتا۔ وہ خرابی کی ہمہ گیری کو دیکھتے ہوئے اشتہار بازی کا سہارا لیتے ہیں اور اس طرح دل کو تسلی دیتے ہیں کہ انھوں نے قوم کی اصلاح کا حق ادا کر دیا۔ با اختیار طبقہ اخلاقی فساد کا علاج نگران ادارے قائم کرکے کرنا چاہتا ہے۔ رشوت ستانی کو فروغ پاتے دیکھتا ہے تو اس کے انسداد کا محکمہ بنا دیتا ہے۔ ملاوٹ اور چور بازاری کی وبا کو دیکھتا ہے تو چھاپہ مار عملہ ترتیب دے کر اس پر قابو پانا چاہتا ہے۔ حکومت کے کارکنوں میں بدعنوانی کی گرم بازاری دیکھتا ہے تو قواعد و ضوابط میں ترامیم کا سہارا لیتا ہے۔ اصلاحی کمیٹیاں قائم کی جاتی ہیں کہ وہ اس ہمہ گیر فساد پر قابو پانے کے لیے سفارشات پیش کریں۔ اس ساری سرگرمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے ہر دائرے میں ادارے اور تنظیمیں تو قائم ہوتی چلی جاتی ہیں، لیکن بات جہاں تھی وہیں رہتی ہے۔ بلکہ مفاسد نت نئی شکل اختیار کرتے سامنے آتے ہیں اور معاشرہ میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام نگران اداروں اور تنظیموں کا عملہ اسی مفسد معاشرہ سے آتا ہے۔ وہ نہایت آسانی سے خود انھی خرابیوں کا شکار ہو جاتا ہے جن کی روک تھام کے لیے ا س کا تقرر کیا گیا تھا۔
ہمارے نزدیک کسی بھی بیماری کا صحیح علاج صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب اس کے اسباب کا صحیح طور پر تعین کر لیا جائے۔ معاشرہ کے فساد کے اسباب کے تعین میں بالعموم غلطی کی جاتی ہے۔ کوئی جرم یا گناہ بلاوجہ صادر نہیں ہوتا، بلکہ اس کے مرتکب کے دل میں خداوند تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی کمی، تصور آخرت کے شعور میں غلطی اور دنیا کی محبت اس کا سبب بنتی ہے۔ یہ بنیادی سبب پایا جائے توپھر ہر شعبۂ زندگی میں فساد کی اقسام کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ انسانی ذہن بڑا زرخیز ہے۔ وہ ایک سے ایک بڑھ کر جرائم کی انوکھی اور نت نئی شکلیں اختیار کر لیتا ہے۔ لہٰذا جب تک لوگوں کی تربیت اس نہج پر کرنے کا انتظام نہ کیا جائے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں، دنیا کے بارے میں ان کا تصور ذمہ دارانہ ہو جائے اور وہ یہ شدید احساس رکھتے ہوں کہ آخرت میں ان کے تمام اعمال کی بازپرس ہونے والی ہے جس کا نتیجہ ابدی عذاب کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے، لہٰذا ان کی فلاح اچھے کردار کو اپنانے ہی سے وابستہ ہے، اس وقت تک ان کی اصلاح کی توقع رکھنا عبث ہے۔
صحیح بنیاد پر اصلاح معاشرہ کا بیڑہ اٹھایا جائے تو اس کی طرف پہلا قدم ایک فرد کی اصلاح کرنا ہو گا یعنی معاشرہ کے ہر فرد کے ذہن میں ان حقائق کو راسخ کیا جائے جن کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے۔ صحیح علم ہی سے صحیح عمل پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لیے موت و حیات کے اصل حقائق کے راسخ علم سے فرد کے اندر تقویٰ، پرہیزگاری، خشیت الٰہی اور خوف آخرت پیدا ہو گا۔ ایک فرد کے دل کا یہ نور اس کے اخلاق و کردار کے تمام گوشوں کو روشن کر دے گا اور آپ سے آپ اس کی عملی اصلاح کے آثار پیدا ہو جائیں گے۔
ایک فرد کے اندر کا یہ نور اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس سے اس کا قریبی ماحول اور کنبہ مستیزہوتا ہے۔ ایسا فرد اپنے بیوی بچوں اور متعلقین کو گمراہی میں نہیں دیکھ سکتا۔ اسے اس ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے کہ اسے ایک گلے کی نگرانی کا کام سونپا گیا ہے۔ اگر گلے کی ایک بھیڑ بھی ریوڑ سے کٹ کر بھٹک جائے گی تو اس کا مالک اس کی نالائقی پر ناراض ہو گا۔ لہٰذا ایسا شخص اپنے زیر اثر لوگوں کی فکری و اخلاقی اصلاح کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔ اس کا یہ عمل معاشرہ کی اصلاح کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
اہل دنیا کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ پورے کا پورا معاشرہ غیر ذمہ دار اور خدا اور آخرت سے بے نیاز ہو جائے اور ان کو ٹوکنے والا اور برا سمجھنے والا کوئی نہ رہے۔ اس کے برعکس اہل دین کو یہ ذمہ داری بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقۂ اثر میں برائی کے نفوذ کی مزاحمت کریں اور لوگوں میں نیکی اور بھلائی کو رواج دینے کی مثبت کوشش کریں۔ اس سلسلے میں جو شخص جتنا با اثر ہوتا ہے اس کی ذمہ داری اسی قدر زیادہ بتائی گئی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی کو برائی کرتا دیکھے تو وہ اگر با اثر ہو تو طاقت سے اس کا قلع قمع کر دے۔ اگر وہ ایسا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے لوگوں کو قائل کرے کہ وہ اس برائی کو ترک کر دیں اور نیکی اختیار کریں۔ اگر وہ برائی کے خلاف زبان کھولنے سے بھی معذور ہے، تو اس کے ایمان کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ وہ اس برائی سے دل میں نفرت رکھے اور اس کی آلودگی سے اپنا دامن بچائے رکھے۔ ایمان رکھتے ہوئے اس سے کم تر کسی کردار کا مظاہرہ کرنا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔
اصلاح معاشرہ کی اس تحریک میں جو فرد کی اصلاح کو مقصد بنائے، ہر نیک آدمی اور ہر مذہبی و سماجی ادارہ حصہ لے سکتا ہے۔ دینی مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں اس میں ممد ثابت ہو سکتی ہیں۔ صحیح الفکر سیاسی جماعتیں بھی یہ کام کر سکتی ہیں اور یہ تحریک معاشرے کے ایک مستقل پروگرام کے طور پر جاری رہ سکتی ہے۔ اس تحریک میں ارباب حکومت کا یہ حصہ ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی تمام کوششوں کو تقویت دینے اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے پالیسیاں بنائیں اور اس طرزفکر کی حوصلہ شکنی کریں جو اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہو۔ وہ ملک میں ایسا تعلیمی نظام رائج کریں جو اصل حقائق زندگی سے لوگوں کو روشناس کرا کر ان کو ذمہ دار شہری بنائے اور ان میں خوف خدا اور خوف آخرت پیدا کردے۔ ان لوگوں پر ان کی گرفت بڑی سخت ہو جو معاشرے میں فساد کا بیج بوئیں۔ وہ حکومت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا ایک مستقل شعبہ قائم کریں جس کے پیش نظر مقصد ہی یہ ہو کہ وہ نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف ترغیب دے اور برائیوں کو مٹانے کے لیے کمر بستہ رہے۔ ان کا عدالتی نظام جرائم کی سزا جلد دینے کا قائل ہو اور مقدمات کو طول دے کر فیصلوں میں تاخیر نہ کرے۔
یہ تو ہے اصلاح معاشرہ کا اصل طویل المیعاد پروگرام جس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہونے کی توقع ہو سکتی ہے، لیکن امت مسلمہ کے اچھے حکمرانوں نے اپنے اوپر بعض پابندیاں عائد کرکے بھی اپنی رعایا کے لیے اچھی تربیت کا سامان فراہم کیا۔ عوام اپنے حکمرانوں کی تقلید کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور ان کی پسند معاشرے کا فیشن قرار پاتی ہے۔ چنانچہ خلفاے راشدین نے اپنا معیار زندگی ہمیشہ اتنا پست رکھا کہ ان میں اور ایک کم آمدنی والے کارکن کے معیار زندگی میں کوئی فرق نظر نہ آتا تھا۔ ان کی نگاہ میں امیر اور غریب، دونوں کو یکساں قدر و منزلت حاصل تھی۔ وہ جہاں دولت کا مظاہرہ دیکھتے فوراً اس کی حوصلہ شکنی کرتے۔ خلفاے راشدین کے اس طرزعمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ کثرت مال معاشرے میں باعث عزت نہ تھی، حصول زر زندگیوں کا مقصد نہ بنا اور امیر و غریب کے تفاوت نے معاشرتی بے انصافیوں کو جنم نہیں دیا۔
خلفاے راشدین کے دور کی دوسری بڑی خصوصیت قانون کا عادلانہ نفاذ تھا۔ جس کے لیے وہ ہمیشہ مستعد رہتے تھے۔ وہ نفاذ قانون میں نہ عمال حکومت کا لحاظ کرتے تھے اور نہ اپنے اعزا و اقارب کا ۔ درۂ عمر کو جو شہرت حاصل ہوئی ہے وہ اس بنا پر نہیں کہ خدانخواستہ حضرت عمر لوگوں کو اپنے منصبی تفوق اور اختیارات کا احساس دلانے کے لیے ان پر ناروا یہ درہ برسایا کرتے تھے۔ بلکہ یہ شہرت اس بنیاد پر ہے کہ یہ درہ اس وقت بلاتاخیر حرکت میں آجاتا تھا جب کوئی شخص قانون سے بے پروائی کا اظہار کرتا، کسی کمزورپر ظلم کرتا یا اخلاقی تربیت کے لیے اسے تادیب کی ضرورت ہوتی۔ درۂ عمر حضرت عمر کی فرض شناسی، بیدار مغزی، معدلت گستری اور قانون و اخلاق کی پاس داری کی ایک علامت تھا۔
ملک کے حکمرانوں کے اندر جب یہ صفات پیدا ہو جائیں تو ان کی رعایا کے لیے یہ قابل تقلید نمونہ بن جاتی ہیں۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ ان کے حکمران وسائل پر اختیار رکھتے ہوئے زندگی کی آسایشوں سے اپنے آپ کو محروم رکھے ہوئے ہیں۔ وہ دولت سمیٹنے کی کوئی آرزو نہیں رکھتے، محض امارت باعث عزت تصور نہیں کی جاتی۔ قانون و اخلاق کی بالا دستی قائم رکھی جاتی ہے۔ اور عدل و انصاف کے تقاضوں سے حکمران اپنی ذات کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیتے تو یہی رسم حکومت کے اہل کاروں اور عوام میں بھی چل پڑتی ہے۔
ارباب حکومت کے علاوہ معاشرے کے دوسرے سربرآوردہ لوگ، خواہ وہ سیاسی میدان سے تعلق رکھتے ہوں یا مذہبی، سماجی یا دوسرے طبقات سے، وہ بھی اپنے طرزعمل سے اپنے اپنے حلقۂ اثر میں پسندیدہ طرززندگی کو رواج دینے کی طرح ڈال سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ اپنے اوپر چند پابندیاں عائد کریں اور ایسے فلسفۂ زندگی کا پرچار کریں جس کے نتیجہ میں اخلاقی فساد کی راہیں مسدود کی جاسکتی ہوں۔ عوام الناس چونکہ بڑوں کے طریقہ سے فوراً متاثر ہوتے اور ان کی تقلید میں عزت محسوس کرتے ہیں، اس لیے اصلاح معاشرہ کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے یہ طریقہ قلیل المیعاد اور نسبتاً آسان ہے۔

------------------------------ 

 

 بشکریہ ماہنامہ اشراق
تحریر/اشاعت مارچ 2007ء

مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Oct 07, 2016
4539 View