مدرسۃ الاصلاح سیمینار: جناب جاوید احمد غامدی کا خطاب - سید منظور الحسن

مدرسۃ الاصلاح سیمینار: جناب جاوید احمد غامدی کا خطاب

 

(فکر فراہی کے دور جدید پر متوقع اثرات)

’’مدرسۃ الاصلاح‘‘ سرائے میر، اعظم گڑھ (بھارت) میں ۲؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو ایک سہ روزہ عالمی سیمینار منعقد ہوا۔ سیمینار کا عنوان ’’تاریخ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر‘‘ تھا۔ سیمینار کا افتتاح مولانا سید جلال الدین عمری نے کیا۔ مختلف نشستوں میں ساٹھ سے زیادہ علمی مقالات پیش کیے گئے۔ جن مقررین نے خطاب کیا، اُن میں ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی، ڈاکٹر عنایت اللہ سبحانی اور محمد جمیل صدیقی شامل ہیں۔ اِس موقع پر استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کو بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔ اُنھوں نے ویڈیو لنک پر اپنے مختصر خطاب میں امام حمید الدین فراہی کے علمی کام اور دور حاضر میں اُس کے متوقع اثرات کو بیان کیا۔ استاذ گرامی کا یہ خطاب درج ذیل ہے:

الحمد للہ، الحمد للہ رب العٰلمین والصلوٰة والسلام علیٰ محمد الأمین، فأعوذ باللہ من شیطان الرجیم. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم.
میں آپ حضرات کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے اِس طالب علم کی عزت افزائی فرمائی اور اہل علم کے اِس اجتماع میں اِسے بھی چند حرف کہنے کی سعادت بخشی۔
آپ حضرات اِس بات سے واقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ہدایت کا جو اہتمام کیا ہے، اُس میں قرآن مجید کی اب قیامت تک کے لیے ایک خاص حیثیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بطور اصول فرمایا ہے کہ جب لوگوں کے مابین اختلافات ہوئے تو نبیوں کا سلسلہ جاری کیا گیا :’فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ‘اور پھر اُن کے ساتھ کتاب نازل کی گئی: ’وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ‘ تاکہ وہ لوگوں کے درمیان دین اور مذہب سے متعلق اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ یہی حقیقت قرآن مجید نے بعض دوسرے اسالیب میں بھی بیان کی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اللہ نے یہ کتاب ایک میزان کی حیثیت سے نازل کی ہے ’لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ‘ تاکہ لوگ دین کے معاملے میں ٹھیک انصاف پر قائم ہو جائیں۔
یہ قرآن مجید کی حیثیت ہے۔ لیکن جب ہم اپنی علمی میراث کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بڑھ کر یہی حیثیت مجروح ہوئی ہے۔ امام فراہی کا اِس امت پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اُنھوں نے اِس دنیا کے ختم ہونے سے پہلے اِس حیثیت کو ایک مرتبہ پھر پوری شان کے ساتھ بحال کر دیا ہے۔ اِس وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کو جس طرح اُنھوں نے سمجھا، جس طرح سمجھنا سکھایا، جس طرح اُس کے علوم ومعارف کو مرتب کیا، جس طرح اُس کی آیات میں اتر کر یہ بتایا کہ وہ کس طرح خطاب کرتا ہے، کن کو خطاب کرتا ہے اور اپنا فیصلہ کس طرح سناتا ہے، یہ اُسی کا نتیجہ ہے کہ دین و مذہب سے متعلق ہر چیز پر قرآن کی حکومت قائم کرنے کے لیے محکم بنیاد فراہم ہو گئی ہے۔ یعنی وہ حَکم کی حیثیت سے، میزان کی حیثیت سے اب یہ بتاتا ہے کہ مذہب میں، دین میں، خدا کی ہدایت میں کیا چیز قابل قبول ہے اور کیا چیز قابل قبول نہیں ہے۔
میں اِس اعتبار سے اُن کو آیة من آیات اللہ، اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سمجھتا ہوں۔
اِس سے پہلے دنیا میں سلطنتوں کا دور تھا۔ ول ڈیوراں (Will Durant) نے اِس پورے دور کو جس میں مذہب کا غلبہ رہا عصر الایمان یا age of faith سے تعبیر کیا ہے۔ اُس کا مطلب یہ تھا کہ سیاست پر مذہب کا غلبہ ہے اور اِس کے نتیجے میں معاشرت اور تہذیب بھی اُسی کی روشنی میں ترتیب پا رہی ہیں۔ اب وہ دور ختم ہو گیا ہے۔ اِس نئی دنیا کی ابتدا میں امام فراہی کی پیدایش، درحقیقت اِس نئے دور میں، اِس نئی دنیا میں خدا کی حجت ایک مرتبہ پھر پوری کردینے کا اہتمام ہے۔ اِس کے، اگر ہم عالمی سطح پرنتائج کا مطالعہ کریں تو ایک طرف جہاں ہم یہ دیکھ رہے تھے کہ پرانا علم کلام ختم ہوگیا، اُس کے مقدمات ختم ہو گئے، اُس کی بنیادیں منہدم ہو گئیں، وہاں یہ دور ــــــ جس کو دور استدلال بھی کہہ سکتے ہیں اور نتیجے کے لحاظ سے دور الحاد بھی ــــــ یہ تقاضا کر رہا تھا کہ وہ محکم استدلال سامنے آئے جو انسان کی فطرت کے بنیادی مقدمات پر مبنی ہے۔ آپ ’’حجج القرآن ‘‘کو دیکھیے، آپ ’’القائد الیٰ عیون العقائد‘‘ کو دیکھیے، آپ تفسیری مباحث میں اِس نوعیت کی چیزوں کو دیکھیے تو آپ اِس نتیجے پر پہنچیں گے کہ قرآن مجید کے اُس فطری استدلال کو پہلی مرتبہ اِس شان کے ساتھ بے نقاب کیا گیا ہے کہ اب تاریخ اپنے آپ کو اگر الحاد کی منزل تک پہنچا رہی ہے تو اُس کے مقابل میں خدا کی حجت بھی اُسی طریقے سے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔
وہ دور جس میں بڑی بڑی سلطنتیں قائم تھیں، وہ حاکم اور محکوم کے تعلق کا دور تھا۔ اُس میں قانون کی تعبیر بھی جس طرح سے ہوئی ــــــ وہ ہمارے ہاں ہوئی یا رومی سلطنت میں ہوئی ــــــ اُس کے مقدمات اور عوارض بالکل الگ تھے۔ وہ سب کچھ اب irrelevant ہو چکا ہے، غیر متعلق ہو چکا ہے۔ علامہ اقبال جیسے شخص کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ مذہبی فکر کی تشکیل جدید کا اہتمام کیا جائے۔ اُس کے لیے محکم بنیاد اُس حکیم الامت کو میسر نہیں تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ بھی امام فراہی کے ڈسکورس (discourse) نے مہیا کی ہے۔ اُنھوں نے قرآن مجید کو جس طریقے سے میزان بنایا ہے، فرقان بنایا ہے، جس طریقے سے اُس کی حجت نمایاں کی ہے، جس طرح سے وہ بنیادیں متعین کی ہیں جو اب مسلمانوں کے قانونی ذہنوں پر اثر انداز ہونا شروع ہو رہی ہیں، اُس کے بعد ہی یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ دور جدید کی قومی ریاستوں میں ہم اجتماعی سطح پر خدا کی شریعت پر عمل کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔ اِس سے پہلے جو قانونی ڈھانچا ہم بنا چکے تھے اور جن مقدمات پر اپنے قانون کو استوار کر چکے تھے، یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دور حاضر کی ضرورتوں کو پورا کر سکے ــــــ انسانی کام اپنے اپنے ادوار میں یقیناً بہت غیر معمولی ہوتے ہیں، لیکن نہ وہ عالم گیر ہو سکتے اور نہ زمان و مکان سے بالاتر ہو سکتے ہیں۔ یہ صرف اللہ کی ہدایت ہے جو عالم گیراور زمان ومکان سے بالاتر ہو سکتی ہے؛ جو ہر دور میں اپنی relevance کو، اپنے تعلق کو برقرار رکھ سکتی ہے ــــــ اِس دور میں، جب کہ یہ نئی دنیا وجود میں آرہی ہے، وہ محکم بنیاد امام فراہی نے فراہم کر دی ہے کہ ہم نہ صرف اپنی انفرادی زندگی میں اللہ کی شریعت پر عمل پیرا ہو سکتے، بلکہ اجتماعی سطح پر بھی اپنی زندگی کو شریعت پر استوار کرنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ چنانچہ شریعت کو اب اگر ہماری اجتماعی زندگی سے متعلق ہونا ہے تو وہ اِسی ڈسکورس (discourse) کی بنیاد پر ہو گی، اِسی فکر کی بنیاد پر ہو گی۔
اِسی طرح سےقدیم فقہ میں دنیا کو جس طرح دارالاسلام اور دارالحرب میں تقسیم کیا گیا تھا، اُس کے کچھ تقاضے تھے جو پورے ہو گئے۔ یہ امام فراہی ہیں کہ جنھوں نے قانون اتمام حجت کو دریافت کر کے یہ بتا دیا کہ اب ہمیں دنیا کو کس زاویے سے دیکھنا ہے، یعنی عہد رسالت میں دنیا کس زاویے سے دیکھی جائے گی اور اب قیامت تک اُسے کس زاویے سے دیکھا جائے گا؟ اب لوگوں کے باہمی تعلقات اور قوموں کے باہمی تعلقات کی کیا نوعیت ہو گی؟ موجودہ دور میں دعوت دین کا طریقہ کیا ہو گا؟ اور اگر دنیا فی الواقع ایک عالمی حکومت کی طرف بڑھ رہی ہے تو اِس میں مسلمان کی حیثیت سے ہمارا کردار کیسے متعین ہوگا؟ یہ چند چیزیں بہت نمایاں ہیں۔ آپ اُن کی تفاسیر کا مطالعہ کریں، آپ اُن کی تصنیفات کا مطالعہ کریں، آپ اُن کے مسودات کا مطالعہ کریں، ہر جگہ وہ مسلمانوں کے مذہبی فکر کی تشکیل جدید (reconstruction) کی بنیادیں فراہم کر رہے ہیں۔
میں طلبہ کی خدمت میں بھی اور اساتذہ کی خدمت میں بھی یہ عرض کروں گا کہ وہ اِس زاویے سے امام فراہی کا مطالعہ کریں۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تاریخ اگر ایک جانب مغربی مفکرین کی تہذیبی دریافتوں پر ختم ہو رہی ہے ــــــ جیسا کہ مغربی تہذیب کے مفکرین کا خیال ہے ــــــ تو دوسری جانب اللہ کی یہ آیات بھی نمودار ہو چکی ہیں۔ آیة من آیات اللہ ۔ اللہ کی آیتوں میں سے ایک آیت۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی۔ اور کیا بعید ہے کہ اِس آخری زمانے میں اللہ کی حجت اللہ کی کتاب کے ذریعے سے فکر فراہی کی روشنی میں پوری ہو جائے!
أقول قولي هٰذا وأستغفر اللہ لي ولکم ولسائر المسلمین۔

بشکریہ: سید منظور الحسن
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Dec 27, 2019
2058 View