اذکار و ادعیہ مسنونہ: چند منتخب احادیث - محمد رفیع مفتی

اذکار و ادعیہ مسنونہ: چند منتخب احادیث

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو اذکار اور دعائیں منقول ہیں، ذیل میں ان سے متعلق احادیث لائی گئی ہیں ۔ یہ اذکار اور دعائیں ہمیں اس لیے سکھائی گئی ہیں تاکہ ہمارا دل ہر وقت خدا کی یاد سے معمور رہے۔انسان کا دل، بلا شبہ خدا کی یاد ہی سے زندہ رہتا ہے اور جس دل میں اس کی یاد نہ ہو، وہ مردہ ہوتا ہے۔دل کی اس زندگی ہی کو انسان کی روحانی زندگی کہا جاتا ہے۔ جیسے ہماری مادی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ ہم سانس لیتے رہیں،اسی طرح ہماری روحانی زندگی کے لیے خدا کی یاد میں مداومت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بھی اللہ کے ذکر کی بہت تاکید کی گئی ہے اور احادیث شریفہ میں بھی اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔
ان احادیث میں مختلف اذکار پر آخرت میں جس عظیم اجر کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کلمات انسان کے ذہن و قلب میں خدا کی اس یاد کو مستحضر کرتے ہیں جو اس کے شعور کو ترقی، نفس کو پاکیزگی اور روح کو بالیدگی عطا کرتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں وہ خدا کی اس خالص بندگی کو عملاً اپنا لیتا ہے جس کے لیے وہ تخلیق کیا گیا ہے۔

(۸۷)

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَأَنْ أَقُوْلَ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ.(مسلم، رقم ۶۸۴۷)حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ‘ (اللہ پاک ہے، سارا شکر اللہ ہی کے لیے ہے، اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے) کہنا ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔

(۸۸)

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَالَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ فِیْ یَوْمٍ مِاءَۃَ مَرَّۃٍ حُطَّتْ خَطَایَاہُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ. (بخاری، رقم ۶۴۰۵)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے دن میں سو مرتبہ ’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ‘ (اللہ پاک ہے اور ستودہ صفات ہے)کہا ،اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔

(۸۹)

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ حِیْنَ یُصْبِحُ وَحِیْنَ یُمْسِی سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ مِاءَۃَ مَرَّۃٍ لَمْ یَأْتِ أَحَدٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَاءَ بِہِ إِلَّا أَحَدٌ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ أَوْ زَادَ عَلَیْہِ. (مسلم، رقم ۶۸۴۳)حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے صبح اور شام ’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ‘ (اللہ پاک ہے اور ستودہ صفات ہے)کہا تو قیامت کے دن کوئی شخص اس سے افضل عمل لانے والا نہ ہو گا، سوائے اس کے جس نے یہی کلمات کہے ہوں گے یا انھی پر کچھ اضافہ کیا ہو گا۔

(۹۰)

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ.(بخاری، رقم ۶۶۸۲۔مسلم، رقم ۶۸۴۶)حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے، میزان میں بھاری اور اللہ کو بہت محبوب ہیں، یہ کلمے ’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ‘ (اللہ پاک ہے اور ستودہ صفات ہے، اللہ پاک ہے عظمت والا) ہیں۔

(۹۱)

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ فِیْ یَوْمٍ مِاءَۃَ مَرَّۃٍ کَانَتْ لَہُ عَدْلَ عَشْرِ رِقَابٍ وَکُتِبَتْ لَہُ مِاءَۃُ حَسَنَۃٍ وَمُحِیَتْ عَنْہُ مِاءَۃُ سَیِّءَۃٍ وَکَانَتْ لَہُ حِرْزًا مِّنْ الشَّیْطَانِ یَوْمَہُ ذٰلِکَ حَتّٰی یُمْسِیَ وَلَمْ یَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَاءَ بِہِ إِلَّا أَحَدٌ عَمِلَ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِک.(بخاری، رقم ۳۲۹۳)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ’لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوْ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘ (اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں؛ وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں؛ بادشاہی اس کی ہے اور حمد بھی اسی کے لیے ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے) کہے، اس کے لیے دس غلاموں کو آزاد کرنے کے برابر اجر ہوتا ہے، سو نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں، اس کے سو گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اس دن شام تک وہ شیطان سے (اللہ کی) پناہ میں ہوتا ہے۔ (قیامت کے دن) کوئی شخص بھی اس سے افضل عمل والا نہ ہو گا، سوائے اس کے جس نے یہی ذکر اس سے زیادہ کیا ہو گا۔

(۹۲)

عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ ... أَشْرَفَ النَّاسُ عَلٰی وَادٍ فَرَفَعُوْا أَصْوَاتَہُمْ بِالتَّکْبِیْرِ: أَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ارْبَعُوْا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ إِنَّکُمْ لَا تَدْعُوْنَ أَصَمَّ وَلَا غَاءِبًا إِنَّکُمْ تَدْعُوْنَ سَمِیْعًا قَرِیْبًا وَہُوَ مَعَکُمْ وَأَنَا خَلْفَ دَابَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَنِیْ وَأَنَا أَقُوْلُ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ فَقَالَ لِی: یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ قَیْسٍ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ: أَلَا أَدُلُّکَ عَلٰی کَلِمَۃٍ مِّنْ کَنْزٍ مِنْ کُنُوْزِ الْجَنَّۃِ؟ قُلْتُ: بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَدَاکَ أَبِیْ وَأُمِّیْ، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ.(بخاری، رقم ۴۲۰۵)حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ... (کسی سفر کے دوران میں) لوگ ایک وادی میں داخل ہوئے اور بلند آواز سے کلمۂ تکبیر’أَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘ (اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں) کہنے لگے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی آوازوں کو پست کرو، تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو، تم اسے پکار رہے ہو جو سننے والا ہے، قریب ہے اور تمھارے ساتھ ہے۔ (ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ) میں (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے تھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے مجھے ’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ‘ (ہمت اور قدرت، سب اللہ ہی کی عنایت سے ہے) کہتے ہوئے سنا، تو آپ ؐنے مجھ سے کہا :اے عبداللہ بن قیس، میں نے کہا: لبیک یا رسول اللہ (میں حاضر ہوں اے اللہ کے رسول)، آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں وہ کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ نے فرمایا: ’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ‘ (ہمت اور قدرت، سب اللہ ہی کی عنایت سے ہے)۔

(۹۳)

عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: سَیِّدُ الإِسْتِغْفَارِ أَنْ تَقُوْلَ: أَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّیْ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَأَنَا عَبْدُکَ وَأَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوْءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوْءُ لَکَ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَإِنَّہُ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ قَالَ: وَمَنْ قَالَہَا مِنْ النَّہَارِ مُوْقِنًا بِہَا فَمَاتَ مِنْ یَوْمِہِ قَبْلَ أَنْ یُّمْسِیَ فَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ وَمَنْ قَالَہَا مِنْ اللَّیْلِ وَہُوَ مُوْقِنٌ بِہَا فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ یُّصْبِحَ فَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ.(بخاری، رقم ۶۳۰۶)حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ سید الاستغفار دعا یہ ہے:
اے اللہ، تو میرا پروردگار ہے؛ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں؛ تونے مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں اور اپنی استطاعت کے مطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں؛ میں اپنے اعمال کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں؛ اپنے اوپر تیری نعمتوں کا اعتراف اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں؛ تو مجھے بخش دے، اس لیے کہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرتا۔آپ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی یقین کے ساتھ یہ دعا دن میں کرے اور اسی دن شام سے پہلے دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس کے لیے جنت ہے اور جو یقین کے ساتھ رات میں کرے اور صبح سے پہلے رخصت ہو جائے تو اس کے لیے بھی جنت ہے۔

(۹۴)

عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوٰی إِلٰی فِرَاشِہِ قَالَ: بِاسْمِکَ أَمُوْتُ وَأَحْیَا وَإِذَا قَامَ قَالَ: الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُوْرُ.(بخاری، رقم ۶۳۱۲۔مسلم، رقم ۶۸۸۷)حضرت حذیفہ بن یمان( رضی اللہ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو کہتے: اے اللہ، میں تیرے نام ہی سے مرتا اور زندہ ہوتا ہوں، اور جب آپ بیدار ہوتے تو کہتے: اس اللہ ہی کے لیے شکر ہے جس نے ہم کو موت کے بعد پھر زندگی عطا فرمائی اور( ایک دن) اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

(۹۵)

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمْسٰی قَالَ: أَمْسَیْنَا وَأَمْسَی الْمُلْکُ لِلّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ ہَذِہِ اللَّیْلَۃِ وَخَیْرِ مَا فِیْہَا وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہَا وَشَرِّ مَا فِیْہَا، أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ الْکَسَلِ وَالْہَرَمِ وَسُوْءِ الْکِبَرِ وَفِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ.
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ رَفَعَہُ، أَنَّہُ قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ. (مسلم، رقم ۶۹۰۹)حضرت عبد اللہ بن مسعود( رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شام کے وقت یہ دعا کیا کرتے : ہم نے شام کی اور خدا کی بادشاہی بھی شام میں داخل ہو گئی ہے۔ شکر اللہ کے لیے ہے اور اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں؛ وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اے اللہ، میں اس رات کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس کی بھی جو اس میں ہے؛ اور رات کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس سے بھی جو اس میں ہے۔ اے اللہ، میں سستی سے، بڑھاپے سے، بڑھاپے کی برائی سے، دنیا کی آزمایش سے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
حضرت عبداللہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ؛وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں؛ بادشاہی اس کی ہے اور حمد بھی اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

(۹۶)

عَنِ الْبَرَّاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَکَ فَتَوَضَّأْ وُضُوْءَ کَ لِلصَّلٰوۃِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلٰی شِقِّکَ الْأَیْمَنِ ثُمَّ قُلْ: أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْلَمْتُ وَجْہِیْ إِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِیْ إِلَیْکَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِیْ إِلَیْکَ رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً إِلَیْکَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ أَنْزَلْتَ وَبِنَبِیِّکَ الَّذِیْ أَرْسَلْتَ وَاجْعَلْہُنَّ مِنْ آخِرِ کَلَامِکَ فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَیْلَتِکَ مُتَّ وَأَنْتَ عَلَی الْفِطْرَۃِ...وَإِنْ أَصْبَحَ أَصَابَ خَیْرًا.(مسلم، رقم ۶۸۸۲۔۶۸۸۳)حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سونے لگو تو اپنا نماز والا وضو کرو، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹو اور کہو: اے اللہ، میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کر دیا ہے اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا ہے اور تجھ سے ٹیک لگالی ہے، تیری عظمت سے لرزتے ہوئے اور تیرے اشتیاق میں بڑھتے ہوئے۔ تجھ سے بھاگ کر کہیں پناہ اور کہیں ٹھکانا نہیں، اور اگر ہے تو تیرے ہی پاس ہے۔ (پروردگار )میں تیری کتاب پر ایمان لایا ہوں جو تونے نازل کی ہے اور تیرے نبی پر ایمان لایا ہوں جسے تو نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔( آپ نے فرمایا): تم کوشش کرو کہ سونے سے پہلے تمھارے آخری کلمات یہی ہوں،پھر اگر تم اسی رات وفات پا گئے تو تمھاری موت فطرت (اسلام) پر ہو گی ... اور اگر صبح بیدار ہوئے توخیر پر بیدار ہو گے۔

(۹۷)

عَنْ سُھَیْلٍ قَالَ: کَانَ أَبُوْ صَالِحٍ یَأْمُرُنَا إِذَا أَرَادَ أحَدُنَا أَنْ یَّنَامَ أَنْ یَّضْطَجِعَ عَلٰی شِقِّہِ الْأَیْمَنِ ثُمَّ یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْءٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہِ، أَللّٰہُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْءٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْءٌ وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْءٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْءٌ اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَأَغْنِنَا مِنْ الْفَقْرِ.(مسلم، رقم ۶۸۸۹)حضرت سہیل ( رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ حضرت ابوصالح ہمیں حکم دیتے کہ جب ہم میں سے کوئی سونے کا ارادہ کرے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹے اور کہے:اے اللہ، آسمانوں کے پروردگار، زمین کے پروردگار اور عرش عظیم کے پروردگار، ہمارے پروردگار اور ہر چیز کے پروردگار؛ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے، تورات و انجیل اور فرقان کے نازل کرنے والے؛ میں ان سب چیزوں کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جن کی پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے۔ اے اللہ، تو اول ہے، تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں اور توآخر ہے، تیرے بعد کوئی چیز نہیں؛ تو ظاہر ہے، تیرے اوپر کوئی چیز نہیں اورتو باطن ہے، تیرے نیچے کوئی چیز نہیں۔ تو ہمارے قرض ادا فرما اور ہماری محتاجی کو دور کر کے ہمیں غنی کردے۔

(۹۸)

عَنْ عَلِیٍّ الْأَزْدِیِّ ... أَنَّ ابْنَ عُمَرَ عَلَّمَہُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا اسْتَوٰی عَلٰی بَعِیْرِہِ خَارِجًا إِلٰی سَفَرٍ کَبَّرَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ وَإِنَّا إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ، أَللّٰہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ہَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی، أَللّٰہُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ہَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَہُ، أَللّٰہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْأَہْلِ، أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوْءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْأَہْلِ وَإِذَا رَجَعَ قَالَہُنَّ وَزَادَ فِیْہِنَّ آیِبُوْنَ تَاءِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ. (مسلم، رقم ۳۲۷۵)حضرت علی ازدی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر( رضی اللہ عنہما) نے انھیں بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کے لیے نکلتے ہوئے اپنے اونٹ پر اچھی طرح بیٹھ جاتے تو تین دفعہ تکبیر کہتے اور پھر یہ کہتے:
پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے تابع فرمان بنا دیاہے، ورنہ ہم اِس پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتے تھے، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ ، ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کی توفیق مانگتے ہیں اور ایسے عمل کی توفیق مانگتے ہیں جو تجھے راضی کر دے۔ اے اللہ، تو ہمارے اس سفر کو ہم پر سہل کر دے اور اس کی درازی سمیٹ دے۔ اے اللہ، تو سفر میں ساتھی ہے اور پیچھے اہل وعیال میں رکھوالا ہے۔ اے اللہ، میں اس سفر کی مشقت سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس سے بھی کہ کوئی برا منظر میرے سامنے آئے اور اس سے بھی کہ جب میں اپنے اہل وعیال اور اموال میں لوٹوں تو کوئی خرابی میری منتظر ہو۔
پھر جب آپ سفر سے واپس آتے تو انھی الفاظ کے ساتھ مزید ان کلمات کا اضافہ کرتے:
ہم لوٹنے والے ، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب ہی کی حمد کرنے والے ہیں۔

(۹۹)

  عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ بَکْرَۃَ أَنَّہُ قَالَ لِأَبِیْہِ: یَا أَبَتِ إِنِّیْ أَسْمَعُکَ تَدْعُوْ کُلَّ غَدَاۃٍ: أَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ، أَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ، أَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ، تُعِیْدُہَا ثَلَاثًا حِیْنَ تُصْبِحُ وَثَلَاثًا حِیْنَ تُمْسِیْ، فَقَالَ: إِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُوْ بِہِنَّ فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَسْتَنَّ بِسُنَّتِہِ، قَالَ عَبَّاسٌ فِیْہِ: وَتَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ، أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ، تُعِیْدُہَا ثَلَاثًا حِیْنَ تُصْبِحُ وَثَلَاثًا حِیْنَ تُمْسِیْ فَتَدْعُوْ بِہِنَّ فَأُحِبُّ أَنْ أَسْتَنَّ بِسُنَّتِہِ، قَالَ: وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: دَعَوَاتُ الْمَکْرُوْبِ: أَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ.(ابوداؤد، رقم ۵۰۹۰)حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ اے ابا جان، میں آپ کو ہر روز یہ دعا کرتے ہوئے سنتا ہوں: ’أَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ، أَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ، أَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ‘ (اے اللہ، مجھے میرے بدن میں عافیت دے، اے اللہ میری سماعت میں عافیت دے، اے اللہ میری بصارت میں عافیت دے، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے)، آپ ان کلمات کو صبح وشام تین تین دفعہ پڑھتے ہیں(اس کی کیا وجہ ہے؟)، انھوں نے یہ بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انھی کلمات کے ساتھ دعا کرتے ہوئے سنا ہے اور مجھے یہ پسند ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اپناؤں۔
عباس راوی کہتے ہیں کہ ان الفاظ کے ساتھ (عبدالرحمن بن ابی بکرہ کے) یہ الفاظ بھی تھے: ’وَتَقُوْلُ أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ، أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ‘ (آپ کہتے ہیں:اے اللہ ،میں کفر اور محتاجی سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ، میں عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے)۔
آپ ان کلمات کو صبح وشام تین تین دفعہ پڑھتے اور ان کے ساتھ دعا کرتے ہیں( تو انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کلمات پڑھتے ہوئے سنا ہے ،چنانچہ) میں پسند کرتا ہوں کہ آپ کے طریقے کو اپناؤں۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مصیبت زدہ آدمی کی دعا یہ ہے:
’أَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ‘(اے اللہ، میں تجھ سے تیری رحمت کا امید وار ہوں، تو مجھے ایک لمحے کے لیے میرے نفس کے حوالے نہ کر اور میرے تمام کاموں کو سنوار دے، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں)۔

(۱۰۰)

  عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِیْ عَمْرٍو قَالَ : سَمِعْتُ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ.(بخاری، رقم ۶۳۶۹)حضرت عمرو بن ابی عمرو (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس ( رضی اللہ عنہ ) کو کہتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں، فکر سے، غم سے، عاجزی، سستی، بزدلی ، بخل، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے۔

(۱۰۱)

  عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْہَرَمِ وَالْمَغْرَمِ وَالْمَأْثَمِ، أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَفِتْنَۃِ النَّارِ وَفِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَشَرِّ فِتْنَۃِ الْغِنٰی وَشَرِّ فِتْنَۃِ الْفَقْرِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ، أَللّٰہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّ قَلْبِیْ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ وَبَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ. (بخاری، رقم ۶۳۷۵)حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، میں سستی سے، بڑھاپے سے ،تاوان اور گناہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ، میں پناہ مانگتا ہوں، آگ کے عذاب سے، آگ کی آزمایش سے، قبر کی آزمایش سے، قبر کے عذاب سے، دولت کی آزمایش کے شر سے، فقر کی آزمایش کے شر سے اور مسیح دجال کی آزمایش کے شر سے۔ اے اللہ، تو میرے گناہوں کو برف اور اولوں کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو گناہوں سے پاک کر دے، جس طرح سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے، اور میرے اور میری خطاؤں کے درمیان میں ایسی دوری پیدا کردے، جیسی دوری تو نے مشرق اور مغرب میں پیدا کر رکھی ہے۔

(۱۰۲)

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: لَا أَقُوْلُ لَکُمْ إِلَّا کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ، کَانَ یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَالْہَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ، أَللّٰہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا أَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا أَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا، أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَۃٍ لَا یُسْتَجَابُ لَہَا.(مسلم، رقم ۶۹۰۶)روایت ہے کہ حضرت زید بن ارقم (رضی اللہ عنہ) نے لوگوں سے کہا کہ میں تمھیں وہی دعا سکھاتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، میں عاجزی، سستی، بزدلی، بخل، بڑھاپے اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ، مجھے متقی اور پاکیزہ نفس بنا دے ، یقیناًتو ہی بہترین پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس کا آقا اور مولیٰ ہے۔ اے اللہ، میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسے دل سے جس میں خشوع نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو۔

(۱۰۳)

عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ کَانَ یَدْعُوْ بِہَذَا الدُّعَاءِ: أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ خَطِیْءَتِیْ وَجَہْلِیْ وَإِسْرَافِیْ فِیْ أَمْرِیْ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّیْ، أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ جِدِّیْ وَہَزْلِیْ وَخَطَءِیْ وَعَمْدِیْ وَکُلُّ ذٰلِکَ عِنْدِیْ، أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّیْ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ وَأَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.(مسلم، رقم ۶۹۰۱)حضرت ابو موسیٰ اشعری (رضی اللہ عنہ)روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، تو میری خطا اور نادانی اور معاملات میں میری زیادتی کو معاف فرما دے اور ان سب چیزوں کو بھی جنھیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ، میں نے جو کچھ سوچ سمجھ کر کیا ہے اور جو کچھ ہنسی مذاق میں کیا ہے اور جو دانستہ کیا ہے اور جو کچھ نادانستہ کیا ہے، سب معاف فرما دے، یہ سب میری ہی طرف سے ہے۔ اے اللہ، تو بخش دے جو کچھ میں نے آگے بھیجا ہے اور جو کچھ پیچھے چھوڑا ہے، اور جو کچھ چھپایا اور جو کچھ علانیہ کیا ہے، اور وہ بھی جسے تو مجھ سے زیادہ جانتاہے۔ تو ہی آگے کرنے والا اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، اور تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

(۱۰۴)

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ کَانَ یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْہُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی وَالْعِفَّۃَ.(مسلم، رقم ۶۹۰۴)حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ )سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ، میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی، استغنا اور نفس کی پاکیزگی کا سوال کرتا ہوں۔

(۱۰۵)

عَنْ طَارِقِ بْنِ أَشِیْمَ الأَشْجَعِیِّ قَالَ: کَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَسْلَمَ عَلَّمَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّلٰوۃَ ثُمَّ أَمَرَہُ أَنْ یَّدْعُوَ بِہٰؤُلَاءِ الْکَلِمَاتِ: أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاہْدِنِیْ وَعَافِنِیْ وَارْزُقْنِیْ. (مسلم، رقم ۶۸۵۰)حضرت طارق بن اشیم اشجعی (رضی اللہ عنہ )سے روایت ہے کہ جب کوئی آدمی مسلمان ہوا کرتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نماز سکھایا کرتے اور آپ اسے فرماتے کہ ان الفاظ کے ساتھ دعا کیا کرو: اے اللہ، تو مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت دے، عافیت دے اور رزق عطا فرما۔

(۱۰۶)

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ. (بخاری، رقم ۴۵۲۲)حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔

(۱۰۷)

سَأَلَ قَتَادَۃُ أَنَسًا: أَیُّ دَعْوَۃٍ کَانَ یَدْعُوْ بِہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکْثَرَ؟ قَالَ: کَانَ أَکْثَرُ دَعْوَۃٍ یَدْعُوْ بِہَا یَقُوْلُ: أَللّٰہُمَّ آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ، قَالَ: وَکَانَ أَنَسٌ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَّدْعُوَ بِدَعْوَۃٍ دَعَا بِہَا فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَّدْعُوَ بِدُعَاءٍ دَعَا بِہَا فِیْہِ. (مسلم، رقم ۶۸۴۰)حضرت قتادہ (رضی اللہ عنہ) نے حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات کون سی دعا کیا کرتے تھے؟انھوں نے کہا کہ آپ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے:
’اے اللہ، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے‘۔
خود انس رضی اللہ عنہ بھی جب دعا کرتے تھے تو یہی دعا کیا کرتے تھے اور اگر انھیں کوئی اور دعا کرنا ہوتی تو آپ اس کے اندر یہ دعا بھی کر لیا کرتے تھے۔

(۱۰۸)

عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّاءِبِ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: صَلّٰی بِنَا عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ صَلٰوۃً فَأَوْجَزَ فِیْہَا فَقَالَ لَہُ بَعْضُ الْقَوْمِ: لَقَدْ خَفَّفْتَ أَوْ أَوْجَزْتَ الصَّلٰوۃَ فَقَالَ: أَمَّا عَلٰی ذٰلِکَ فَقَدْ دَعَوْتُ فِیْہَا بِدَعَوَاتٍ سَمِعْتُہُنَّ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَامَ تَبِعَہُ رَجُلٌ مِّنَ الْقَوْمِ ہُوَ أُبَیٌّ غَیْرَ أَنَّہُ کَنٰی عَنْ نَفْسِہِ فَسَأَلَہُ عَنِ الدُّعَاءِ ثُمَّ جَاءَ فَأَخْبَرَ بِہِ الْقَوْمَ: أَللّٰہُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ أَحْیِنِیْ مَا عَلِمْتَ الْحَیَاۃَ خَیْرًا لِیْ وَتَوَفَّنِیْ إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاۃَ خَیْرًا لِی، أَللّٰہُمَّ وَأَسْأَلُکَ خَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ وَأَسْأَلُکَ کَلِمَۃَ الْحَقِّ فِی الرِّضَا وَالْغَضَبِ وَأَسْأَلُکَ الْقَصْدَ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی وَأَسْأَلُکَ نَعِیْمًا لَا یَنْفَدُ وَأَسْأَلُکَ قُرَّۃَ عَیْنٍ لَا تَنْقَطِعُ وَأَسْأَلُکَ الرِّضَاءَ بَعْدَ الْقَضَاءِ وَأَسْأَلُکَ بَرْدَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَأَسْأَلُکَ لَذَّۃَ النَّظَرِ إِلٰی وَجْہِکَ وَالشَّوْقَ إِلٰی لِقَاءِکَ فِیْ غَیْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّۃٍ وَلَا فِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ، أَللّٰہُمَّ زَیِّنَّا بِزِینَۃِ الْإِیْمَانِ وَاجْعَلْنَا ہُدَاۃً مُہْتَدِیْنَ. (نسائی، رقم ۱۳۰۶)حضرت عطاء بنسائب (رضی اللہ عنہ) اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر (رضی اللہ عنہ) نے ہمیں ایک نماز پڑھائی اور اس میں اختصار سے کام لیا، بعض لوگوں نے کہا کہ آپ نے ہلکی یا مختصر نماز پڑھائی ہے، انھوں نے کہا: اس کے باوجود میں نے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہوئی کئی دعائیں پڑھی ہیں۔
پھر جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو لوگوں میں سے ایک آدمی ان کے پیچھے پیچھے گیا ، (عطا راوی کہتے ہیں کہ یہ میرے والد سائب ہی تھے، لیکن انھوں نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے اپنا نام نہیں لیا) اور ان سے وہ دعا پوچھی اور پھر آکر لوگوں کو بتائی۔ وہ دعا یہ تھی: اے اللہ، تو اپنے علم غیب اور مخلوق پر اپنی قدرت کے وسیلے سے مجھے اس وقت تک زندگی دے جب تک تو جینے کو میرے لیے بہتر جانے؛ اور اس وقت دنیا سے لے جا، جب تو لے جانے کو بہتر جانے۔ اے اللہ، اور میں کھلے اور چھپے میں تیری خشیت مانگتا ہوں؛ اور خوشی اور رنج میں سچی بات کی تو فیق چاہتا ہوں؛ اور فقروغنا میں میانہ روی کی درخواست کرتا ہوں؛ اور ایسی نعمت چاہتا ہوں جو تمام نہ ہو اور آنکھوں کی ایسی ٹھنڈک جو کبھی ختم نہ ہو۔ اور تیرے فیصلوں پر راضی رہنے کا حوصلہ مانگتا ہوں اور موت کے بعد زندگی کی راحت مانگتا ہوں؛ اور تجھ سے ملاقات کا شوق اور تیرے دیدار کی لذت مانگتا ہوں، اس طرح کہ نہ تکلیف دینے والی سختی میں رہوں اور نہ گمراہ کر دینے والے فتنوں میں۔ اے اللہ، تو ہمیں ایمان کی زینت عطا فرما اور ایسا بنا دے کہ خود بھی ہدایت پر رہیں اور دوسروں کو بھی ہدایت دیں۔

 _______________

 

بشکریہ محمد رفیع مفتی

تحریر/اشاعت نومبر/ دسمبر 2011

مصنف : محمد رفیع مفتی
Uploaded on : May 28, 2016
5353 View