صلۂ رحمی: چند منتخب احادیث - محمد رفیع مفتی

صلۂ رحمی: چند منتخب احادیث

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَۃٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَقَالَ اللّٰہُ: مَنْ وَصَلَکِ وَصَلْتُہُ وَمَنْ قَطَعَکِ قَطَعْتُہُ.(بخاری، رقم ۵۹۸۸)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے (رحم سے) فرمایا ہے کہ جو تجھے ملاتا ہے، میں اسے (اپنے ساتھ) ملاتا ہوں اور جو تجھے کاٹتا ہے، میں اسے (اپنے آپ سے) کاٹتا ہوں۔

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ حَتّٰی إِذَا فَرَغَ مِنْ خَلْقِہِ قَالَتِ الرَّحِمُ: ہٰذَا مَقَامُ الْعَاءِذِ بِکَ مِنَ الْقَطِیْعَۃِ قَالَ: نَعَمْ أَمَا تَرْضَیْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَکِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَکِ قَالَتْ: بَلٰی یَا رَبِّ قَالَ: فَہُوَ لَکِ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَاقْرَءُ وْا إِنْ شِءْتُمْ، (فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ). (بخاری، رقم۵۹۸۷۔ مسلم، رقم ۶۵۱۸) 
ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو تخلیق کیا ۔ پھر جب وہ تخلیق سے فارغ ہوا تو رحم (عرش کا پایہ پکڑ کر) کھڑا ہوا اور کہا کہ یہ اس کی جگہ ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ چاہتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہاں، کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ میں اس سے تعلق رکھوں گا جو تیرے تعلق کو جوڑے گا اور اس سے بے تعلق رہوں گا جو تیرے تعلق کو کاٹے گا۔ رحم نے کہا کہ کیوں نہیں، اے میرے رب (میں راضی ہوں)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم کو یہ (مقام و مرتبہ) دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’پس اگر تم نے منہ پھیرا تو اس کے سوا تم سے کچھ متوقع نہیں کہ زمین میں فساد برپا کرو اور اپنے رحمی روابط پر چھری چلاؤ۔‘‘*

عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّۃَ فَقَالَ الْقَوْمُ: مَا لَہُ مَا لَہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَرَبٌ مَا لَہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تَعْبُدُ اللّٰہَ لَا تُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ ذَرْہَا، قَالَ: کَأَنَّہُ کَانَ عَلٰی رَاحِلَتِہِ.(بخاری، رقم۵۹۸۳)
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول، آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کردے۔ لوگ (اسے دیکھ کر) کہنے لگے: اسے کیا ہو گیا ہے؟ اسے کیا ہو گیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھئی اسے ہونا کیا ہے، اسے ضرورت ہے (اس لیے پوچھ رہا ہے)، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کی طرف متوجہ ہو کر) کہا : تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ ، نماز کا اہتمام کرو، زکوٰۃ دو اور صلۂ رحمی کرو۔ (تمھارا مسئلہ حل ہوا، اب) اس (کی لگام) کو چھوڑ دو، راوی کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اس وقت آپ اپنی سواری پر تھے۔

عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ أَنَّ أَعْرَابِیًّا عَرَضَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ فِیْ سَفَرٍ فَأَخَذَ بِخِطَامِ نَاقَتِہِ أَوْ بِزِمَامِہَا ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَوْ یَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِیْ بِمَا یُقَرِّبُنِیْ مِنَ الْجَنَّۃِ وَمَا یُبَاعِدُنِیْ مِنَ النَّارِ قَالَ: فَکَفَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَظَرَ فِیْ أَصْحَابِہِ ثُمَّ قَالَ: لَقَدْ وُفِّقَ أَوْ لَقَدْ ہُدِیَ قَالَ: کَیْفَ قُلْتَ؟ قَالَ: فَأَعَادَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تَعْبُدُ اللّٰہَ لَا تُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ دَعِ النَّاقَۃَ.(مسلم، رقم ۱۰۴) 
ابو ایوب (انصاری رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک سفر کے دوران میں ایک بدو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور آپ کی اونٹنی کی رسی یا نکیل پکڑ لی۔ پھر اُس نے کہا: اے اللہ کے رسول یا کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت کے قریب کر دے اور دوزخ سے دور کر دے۔ راوی کہتے ہیں کہ (یہ سن کر ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور پھر اپنے صحابہ پر نظر ڈالی اور کہا کہ اسے توفیق دی گئی ہے یا یہ کہا کہ یہ ہدایت دیا گیا ہے۔ آپ نے اُس سے فرمایا: (پھر سے کہو) تم نے کیا پوچھا تھا؟ تو اُس نے اپنی بات دہرا دی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ ، نماز کا اہتمام کرو، زکوٰۃ دو اور صلۂ رحمی کرو۔ اونٹنی (کی لگام) کو چھوڑ دو۔

توضیح

ان احادیث میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک رحمی رشتہ و تعلق کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ فرمایا کہ جو شخص رحمی رشتوں کے حقوق ادا کرے گا، وہی اپنے ساتھ خدا کے تعلق کی امید کر سکتا ہے اور جو شخص انھیں کاٹے گا تو وہ یاد رکھے کہ خدا اسے اپنے آپ سے کاٹ دے گا۔ نیز صلۂ رحمی اختیار کرنا ان اعمال میں سے ہے جو انسان کو جہنم سے دور اور جنت کے قریب کرتے ہیں۔

قطع رحمی کی سزا

عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعٌ.(بخاری،رقم ۵۹۸۴)
جبیر بن مطعم (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعُ رَحِمٍ.(مسلم، رقم ۶۵۲۱)
جبیر بن مطعم (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

توضیح

ان احادیث میں قطع رحمی کے جرم کی سنگینی بیان کی گئی ہے۔ قطع رحمی سے یہ مراد نہیں کہ کسی آدمی سے صلۂ رحمی کے حوالے سے کچھ کوتاہیاں ہو جائیں، بلکہ یہاں قطع رحمی کرنے والے سے وہ شخص مراد ہے جس نے رحمی رشتوں کے حقوق کو پامال کیا یہاں تک کے اسے خدا کی عدالت میں قطع رحمی کا باقاعدہ مجرم قرار دیا گیا، ایسے شخص کے بارے میں یہ وعید ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ رحمی رشتوں کو توڑنا بڑی سنگ دلی کی بات ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ خدا کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم ہے اور اس کا مرتکب جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

صلۂ رحمی کی برکات

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ یُّبْسَطَ لَہُ فِیْ رِزْقِہِ وَیُنْسَأَ لَہُ فِیْ أَثَرِہِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہُ. (بخاری، رقم ۵۹۸۶۔ مسلم، رقم ۶۵۲۳) 
انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراخی اور عمر میں برکت ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔

توضیح

رزق میں فراخی اور عمر میں برکت کے الفاظ زندگی کے ہر پہلو میں خدا کی رحمت اور اُس کے فضل کو بیان کرتے ہیں۔ اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص اپنے قرابت داروں کے حقوق کی نگہداشت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی نعمتوں میں اضافہ بھی کرتے اور اُسے ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی دیتے ہیں۔

صلۂ رحمی کا کمال

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِءِ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلُ الَّذِیْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہُ وَصَلَہَا. (بخاری، رقم ۵۹۹۱) 
عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہما) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: صلۂ رحمی (کا کمال) یہ نہیں کہ آدمی بدلے میں صلۂ رحمی کرے، بلکہ یہ ہے کہ آدمی قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔

توضیح

یہ بات درست ہے کہ اچھے رویے کے جواب میں اچھا رویہ ہی اختیار کرنا چاہیے، جیسا کہ ارشاد باری ہے:

ھَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ.(الرحمن۵۵: ۶۰)  

’’نیکی کا بدلہ تو نیکی ہی ہے۔‘‘

لیکن اس رویے کو ہم کسی آدمی کی نیکی کا کمال نہیں کہہ سکتے۔ نیکی کا کمال یہ ہے کہ آدمی برا سلوک کرنے والے کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے ، جیسا کہ ارشاد باری ہے:

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ.(حٰم السجدہ۴۱: ۳۴)
’’بھلائی اور برائی دونوں یکساں نہیں ہیں، تم برائی کو اُس چیز (نیکی)سے ہٹاؤ جو زیادہ بہتر ہے، تو تم دیکھو گے کہ وہی جس کے اور تمھارے درمیان عداوت ہے، وہ گویا ایک گہرا دوست بن گیا ہے۔‘‘

یقینانیکی کا کمال یہی ہے کہ آدمی برائی کے جواب میں بھی نیکی ہی کرے۔ 
درج بالا حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ صلۂ رحمی کا کمال یہ نہیں کہ آدمی صرف انھی لوگوں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے جو اُس کے ساتھ صلۂ رحمی کرتے ہیں، بلکہ اِس کا کمال تو یہ ہے کہ انسان اُن کے ساتھ بھی صلۂ رحمی ہی کا برتاؤ کرے جو اُس کے ساتھ قطع رحمی کرتے ہیں۔

------------------------------

 

بشکریہ محمد رفیع مفتی

تحریر/اشاعت ستمبر 2010

مصنف : محمد رفیع مفتی
Uploaded on : May 28, 2016
3859 View