مسلمانوں کا مسئلہ - سید منظور الحسن

مسلمانوں کا مسئلہ

 [جناب جاوید احمد غامدی سے بارہا یہ سوال کیا گیا ہے کہ مسلمان بحیثیت قوم کس مسئلے کا شکار ہیں اور اس کے تدارک کے لیے کیا لائحۂ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں غامدی صاحب نے وقتاً فوقتاً جو گفتگوئیں کی ہیں، زیر نظر مضمون انھی سے ماخوذ ہے۔]

ہم مسلمان کم وبیش ایک ہزار سال تک عالم کی مسند اقتدار پر فائز رہنے کے بعد معزول ہوچکے ہیں۔ یہ واقعہ رونما ہوئے تین چار صدیاں بیت گئی ہیں۔ قوموں کی زندگی میں یہ عرصہ نشأۃ ثانیہ کے لیے تو کافی نہیں ہوتا، مگر اس امر کے لیے بہت کافی ہوتا ہے کہ کوئی قوم زوال کے اسباب متعین کر کے ان کے تدارک کے لیے سرگرم ہو جائے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اسباب زوال کا تعین تو کجا، ابھی تک اپنی معزولی کے بارے میں قدرت کا فیصلہ ہی نہیں جان سکے۔ دنیا کی محکوم محض قوم ہونے کے باوجود ہم تسلط واقتدار کی نفسیات میں جی رہے ہیں۔ گویا ایوان عالم میں پابند سلاسل کھڑے ہیں اور تسخیر کائنات کا اعلان کر رہے ہیں۔ ایک عظیم داستان سفاہت ہے جو ہم نے گذشتہ دو صدیوں میں رقم کی ہے۔ یہ داستان کسی خاص خطے یانسل سے وابستہ نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں ہماری اجتماعیت موجود ہے، اس کے ابواب بکھرے پڑے ہیں۔ اسے پڑھ کر اہل دنیا حیران ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو اجتماعی اخلاقیات میں تنزل کے آخری مقام پر کھڑے ہیں اور اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ دنیا اخلاق کا درس ان سے سیکھے۔ جدید علوم وفنون کی ابجد سے بھی ناواقف ہیں اور تمنا ہے کہ ان کی ہر بات مستند سمجھی جائے۔ معمولی دفاع کی صلاحیت سے محروم ہیں، مگر دنیا پرچڑھ دوڑنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ اپنے پروردگار سے بے گانہ ہیں اور پھر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کی نصرت و رحمت انھی کے لیے خاص ہے۔
اس تناظر میں اگر ہم اپنے وجود اجتماعی کا جائزہ لیں تو چند در چند مسائل کی ایک فہرست رقم کی جاسکتی ہے، مگر ان کے لیے جامع ترین الفاظ جہالت اور غربت ہیں۔ یہ امراض ہمارے پورے وجود میں ناسور کی طرح سرایت کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے اخلاق وکردار، تعلیم وتعلم اور نظم واجتماع میں اس کے مظاہر بالکل نمایاں دیکھے جا سکتے ہیں۔
اخلاق وکردارکے حوالے سے ہم ان مظاہر کا مشاہدہ کرنا چاہیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارا وجود اجتماعی ان اقدار سے بھی خالی ہو چکا ہے جو انسانوں کے مابین ہمیشہ مسلم رہی ہیں اور جنھیں اسلام نے اپنے شعار کے طور پر پیش کیا ہے۔ احترام انسانیت کی قدر جس پر معاشرت کی اساس قائم ہوتی ہے، ہمارے ہاں اس طرح پامال ہو رہی ہے کہ دوسروں کی عزت نفس اور ضمیر وراے کا احترام تو ایک طرف، انسانی جان بھی اب ہمارے لیے محترم نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم محض اختلاف راے کی بنا پر دوسرے انسان کا گلا کاٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ عدل وانصاف کی قدر جس کی بدولت کوئی معاشرہ امن وآشتی کا گہوارہ بنتا ہے، ہمارے ہاں بری طرح مجروح ہو رہی ہے۔ ہم انفرادی اور اجتماعی، دونوں سطحوں پر ہر معاملے کو اغراض کے حوالے سے دیکھتے اور مفادات کی ترازو میں تولتے ہیں۔ رواداری اور صبروبرداشت کی اقدار سے انسانوں کے مابین محبتیں پروان چڑھتی اور نفرتیں ختم ہوتی ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ان کے بجاے تعصب، عناد اور اشتعال ہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ احترام قانون کی قدر پر کسی اجتماعیت کی سلامتی کا انحصار ہوتاہے، مگر ہمارا عام رویہ یہ ہے کہ پابندی قانون کو ہم اپنی توہین تصور کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم جہاں موجود ہوتے ہیں، وہاں انارکی اور بدنظمی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح شرف ووقار کے تحفظ کے لیے خودداری کی قدر کا ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی قوم اس سے محروم ہو جائے تو اس کے لیے اقوام عالم میں مقام حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس معاملے میں ہمارا حال یہ ہے کہ ہم دنیا میں ایک بھکاری قوم کی حیثیت سے متعارف ہیں۔ اس کی تفصیل محض یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی معاشی ضرورتوں کے لیے دوسروں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں، بلکہ علمی تحقیقات، فنی ایجادات اور تہذیبی معیارات کے لیے بھی ہم دوسروں کی نظر عنایت کے منتظر رہتے ہیں۔
یہ اخلاقی اقدار کے بارے میں ہماری غربت وجہالت کے مظاہر ہیں۔ تعلیم وتعلم کے میدان میں یہ صورت بدرجۂ اتم موجود ہے۔اس پہلو سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ اپنے تمام تر معانی کے ساتھ ہم پر منطبق ہو رہے ہیں۔ ہر اس شعبۂ زندگی میں جہاں تعلیم ہی ترقی وبقا کی کلید ہے، ہم پر پژمردگی طاری ہے۔ فلسفہ وحکمت، علم وہنر، شعروادب، قانون وسیاست، فکروفن، غرض ہر میدان میں ہمارا شمار دنیا کی پس ماندہ ترین قوموں میں ہوتا ہے۔ریاضی، کیمیا، طبیعیات، فلکیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے میدانوں میں ہم ان علوم کی ابجد سے بھی ناواقف ہیں جن میں بعض اقوام برسوں کا سفر طے کر کے کمال فن کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔ دنیوی علوم میں ہماری اس جہالت و غفلت نے ہمارے لیے مادی ترقی کے تمام راستے مسدود کر دیے ہیں، معاملہ اگر یہیں تک رہ جاتا تو پھر بھی غنیمت تھی، مگر ہم نے اس سے آگے بڑھ کر علوم دینیہ کے میدان میں بھی اسی طرز عمل کا اظہار کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم حامل دین متین ہونے کی وجہ سے جو سرمایۂ علم واخلاق اہل دنیا کو منتقل کر سکتے اور اس طرح اقوام عالم میں باوقار مقام حاصل کر سکتے تھے، اسے کھوچکے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں تنزل وانحطاط کا یہ مقام بھی آجاتا ہے کہ وہ ترقی کے خارجی عوامل سے بے نیاز ہو جاتی ہیں، مگر یہ صورت حال اس وقت المیہ بن جاتی ہے جب وہ اپنے اثاث البیت ہی سے غافل ہو جائیں۔ دین کے معاملے میں ہم اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔
اس غربت وجہالت کا ایک اور منظر ہمارے نظم و اجتماع میں بھی نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اجتماعی ادارے جن پر قوم کی تعمیر کا انحصار ہوتاہے، بے علمی، بدنظمی اور بدعنوانی کے امراض میں اس قدر مبتلا ہو گئے ہیں کہ ان کی اصلاح اور ان کی بنا پر ترقی کا تصور ہی محال ہے۔ سیاسی ادارے ’اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ‘۱؂ کی اساس سے محروم ہیں۔ چنانچہ حکومت نہ مسلمانوں کی راے سے قائم ہوتی ، نہ ان کی تائید سے قائم رہتی اور نہ اس سے محروم ہو جانے کے بعد لازماً ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ عوام سیاسی اعتبار سے پوری طرح باشعور ہو سکے ہیں اور نہ قیادت کی چھان پھٹک کا عمل مکمل ہو سکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنے داخلی اور خارجی اہداف عمل متعین ہی نہیں کر سکے۔ معاشی نظام کے حوالے سے دیکھیں تو ہم غربت وافلاس کی چکی میں مسلسل پس رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات ہر لحاظ سے واضح ہے کہ یہ غربت ہم پر اللہ کی آزمایش کے طور پر نہیں آئی، بلکہ ہماری اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کا نتیجہ ہے۔ اس میدان میں سود کے خاتمے کے نعرے تو بہت لگائے جارہے ہیں، مگر اس بات کا ادراک کر کے کہ سود کس طرح ناسور کی طرح انسان کے وجود اجتماعی میں سرایت کیے ہوئے ہے، نہ ہم عوام میں شعوری تبدیلی لانے کے لیے سرگرم ہیں اور نہ ارباب حل و عقد کے سامنے متبادل نظام معیشت کی تجاویز پیش کر رہے ہیں۔ سماجی حوالے سے دیکھیں تو ایک دوسرے کے غم بانٹنے کا طرز عمل بھی ہم چھوڑ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں غربت و افلاس کی انتہا اور حکومتوں کی رفاہی امور کی طرف عدم توجہی نے عام آدمی کے مسائل کو بہت بڑھا دیا ہے۔ اس پر مستزاد نفسا نفسی کی فضا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ قیمتی انسانی جانیں دواؤں کی امید میں سسک سسک کر ضائع ہو جاتی ہیں، مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے بچیاں اپنے گھروں سے رخصت نہیں ہو پاتیں اور ذہین نوجوانوں کو تعلیم ترک کر کے کارخانوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ شرم وحیا، ادب واحترام اور خاندانی وقار جیسی ہماری نمائندہ اقدار غیر مستحکم ہو رہی ہیں۔ رفاہ عامہ کے ادارے اول تو نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں، وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کا مقصد اول علم و دانش نہیں، بلکہ روزگار کا حصول ہے۔ تعلیمی ادارے مذہبی اور غیر مذہبی اور اردو اور انگریزی کی غیرفطری تفریق پر مبنی ہیں۔ ان میں بھی نصابات فرسودہ، اساتذہ غیر تربیت یافتہ اور طلبہ محنت سے جی چرانے والے ہیں۔ خواتین جنھیں نئی نسل کو پروان چڑھانا ہوتاہے، ان کی تعلیم کو کہیں ناجائز اور کہیں غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ عدالتی نظام ایک ایسے بازار کے مانند ہے جس میں جنس انصاف مایہ دار کے لیے ارزاں اور بے مایہ کے لیے ناپید ہے۔ مذہبی اداروں کا حال یہ ہے کہ اگر ان کے پاس تعلیم پانے کے لیے جائیں تو تقلید کا درس ملتا ہے، تربیت حاصل کرنے کے لیے جائیں تو سمع و طاعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور اگر عبادت کے لیے جائیں تو بعض اوقات فرقہ بندی کے نام پر ہدیۂ جان بھی وصول کر لیا جاتا ہے۔
ان ابتر حالات میں یہ ضروری ہے کہ کچھ اصحاب حکمت ودانش قوم میں ان مسائل کا شعور پیدا کرنے کے لیے کھڑے ہوں اور ان کے تدارک کے لیے جدوجہد کریں۔ اس ضمن میں ہمارے نزدیک حسب ذیل مقاصد کو سامنے رکھ کر لائحۂ عمل تشکیل دینا چاہیے۔


اخلاقی اقدار کا فروغ

اول یہ کہ اخلاقی اقدار کو لوگوں کے دل ودماغ میں راسخ کیا جائے اور عمل کو ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے انھیں تربیت دی جائے۔ انھیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی نفسیات میں جینے کے بجاے دعوت کے ذریعے سے لوگوں کی اخلاقی اصلاح کو اپنا مقصد بنائیں۔ دنیا کو آزمایش گاہ جانیں اور اہل دنیا کو حق وصداقت اور دین واخلاق کی نصیحت کرتے ہوئے ان کا ہدف آخرت میں اپنی معذرت پیش کر کے جہنم کے عذاب سے بچنا ہو۔ احترام انسانیت، حق پرستی، رواداری، عدل اور دیانت جیسی اعلیٰ اخلاقی اقدار کو خود بھی اپنائیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔


تعلیم کی ترغیب

دوم یہ کہ افرادقوم کے اندر طلب علم اور تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ انھیں بتایا جائے کہ تعلیم قوم کے افراد کو فعال بناتی اور اس طرح قومی تعمیر وترقی کی راہیں کھولتی ہے۔ انھیں سمجھایا جائے کہ تعلیم کا مقصد اول روزگار نہیں، بلکہ علم ودانش کا حصول ہونا چاہیے۔ لوگوں کو دینی اور دنیوی، دونوں طرح کی تعلیم کی طرف متوجہ کیا جائے۔ وہ مادی ترقی کے لیے دنیوی تعلیم پائیں اور اخلاقی ترقی اور اخروی کامیابی کی راہیں دریافت کرنے کے لیے دینی تعلیم حاصل کریں۔


اجتماعی امور میں رہنمائی

سوم یہ کہ قومی اور اجتماعی اداروں کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا جائے۔ اس ضمن میں پہلے دوجہتوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ ان اداروں میں پائی جانے والی خامیوں کی نشان دہی کی جائے اور دوسرے یہ کہ ان خامیوں کی اصلاح کے لیے تجاویز مرتب کی جائیں۔ پھر عوام کے اندر اصلاح احوال کا شعور پیدا کیا جائے اور ارباب اقتدار کو پوری دردمندی کے ساتھ مثبت تبدیلیوں کی طرف متوجہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر نظم سیاسی کے بارے میں ’اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ‘ کے قرآنی حکم کو اساسی اصول کی حیثیت سے اختیار کرنے اور حکمرانوں کے معیار زندگی کو عام شہری کے برابر لانے پر اصرار کیا جائے۔ معیشت کے شعبے میں قومی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے زکوٰۃ کا وسیع بندوبست قائم کیا جائے اور اس کے علاوہ کوئی اور ٹیکس ہرگز عائد نہ کیا جائے۔ معاشرت کے باب میں خاندان کی اہمیت اجاگر کی جائے اور ایسا سماج تشکیل دیا جائے جس میں شرف ووقار کا معیار حشمت واقتدار نہیں، بلکہ علم ودانش اور اخلاق وتقویٰ قرار پائے۔ تعلیم کے شعبے میں رائج تفریق ختم کر دی جائے اور نصابات کو قدامت اور تقلید سے پاک کیا جائے۔ مذہبی اداروں میں اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ دینی جماعتوں کا اختلاف نظر دشمنی اور عناد کی صورت نہ اختیار کرنے پائے اور مذہب کے نام پر قتل وغارت اور دہشت گردی کی فضانہ پیدا کی جائے۔


پس ماندگی کے خلاف جدوجہد

چہارم یہ کہ مسلمانوں میں اس بات کا شعور پیدا کیا جائے کہ وہ سائنس اور اقتصادیات کے میدان میں اپنی جدوجہد شروع کر دیں۔ موجودہ زمانے میں ترقی کے اصل میدان یہی ہیں۔ اس شعور کی بیداری کے ساتھ مسلمانوں کو اس حقیقت حال سے باخبر کیا جائے کہ ان میدانوں میں پس ماندگی کی وجہ سے وہ دنیا میں بے یارومددگار ہیں۔ دنیا پر تسلط و بالادستی تو بہت دور کی بات ہے، وہ اپنی ریاستوں کے اندر بھی حقیقی اقتدار اعلیٰ سے محروم ہیں۔ وہ مغرب کو مفتوح کرنا چاہتے ہیں، مگر اس حقیقت کے ادراک سے عاری ہیں کہ مغرب کے تہذیب وتمدن، فکروفلسفہ اور علم وفن نے ان کے مادی وجود کے ساتھ ساتھ ان کے دل ودماغ کو بھی مغلوب کر لیاہے۔ ان کے اہل دانش یورپ کی زبان بولتے اور اسی کی اقدار کو واجب العمل قرار دیتے ہیں، ان کے حکمران اسی کی قصیدہ خوانی کرتے اور کاسۂ گدائی لے کر اسی کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں، ان کے ہنر مند اسی کے فنون کی تفہیم کو اپنی تخلیق کی معراج تصور کرتے ہیں، ان کے عوام الناس اسے جنت ارضی سمجھتے اور اس کے حصول کے لیے اپنا معاشرہ، اپنا وطن اور اپنا خاندان تک چھوڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر وہ مغرب پر غلبے کا نعرہ لگاتے ہیں تو اسے زیادہ سے زیادہ ایک نفسیاتی عارضے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔


مصائب میں گھرے لوگوں کی مدد

پنجم یہ کہ اپنے گردوپیش میں موجود لوگوں کی مشکلوں اور ضرورتوں پر نگاہ رکھی جائے اور ممکن حد تک ان کی مدد کی جائے۔ کوئی بیمار ہے تو اس کے لیے دواؤں اور علاج معالجے کا بندوبست کیا جائے۔ کوئی طالب علم ضرورت مند ہے تو اس کے لیے فیس اور کتابوں کا انتظام کیا جائے۔ کسی کو بچی کی رخصتی کے لیے تعاون درکار ہے تو اس کی مدد کی جائے۔ اس ضمن میں ایسا نیٹ ورک وجود میں آنا چاہیے کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت آپس میں ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔

 

۱؂ الشوریٰ ۴۲: ۳۸۔’’ اوراُن کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے۔‘‘

 

بشکریہ سید منظور الحسن, تحریر/اشاعت دسمبر 2003
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 25, 2016
3291 View