مسلم اور غیر مسلم - جاوید احمد غامدی

مسلم اور غیر مسلم

اسلام کے سوا باقی تمام ادیان کے ماننے والوں کو غیر مسلم کہا جاتا ہے۔ یہی تعبیر اُن لوگوں کے لیے بھی ہے جو کسی دین یا مذہب کو نہیں مانتے۔ یہ کوئی تحقیر کا لفظ نہیں ہے، بلکہ محض اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے نہیں ہیں۔ اِنھیں بالعموم کافر بھی کہہ دیا جاتا ہے، لیکن ہم نے اپنی کتابوں میں بہ دلائل واضح کر دیا ہے کہ تکفیر کے لیے اتمام حجت ضروری ہے اور یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اُس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ حق اب کسی فرد یا گروہ کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے۔

یہی معاملہ اُن لوگوں کا ہے جو اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیں یا سرے سے لامذہب ہو جائیں۔ اُن کے بارے میں بھی اِس کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ غیرمسلم ہو گئے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کسی پیدایشی مسلمان پر اسلام کی حقانیت کس قدر واضح تھی، اِس کے بارے میں پورے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ چیز خدا ہی کے جاننے کی ہے اور وہی دلوں کے احوال سے واقف ہے۔ ہم جس چیز کو نہیں جانتے، اُس پر حکم لگانے کی جسارت بھی ہم کو نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارا کام یہی ہے کہ ہمیں اگر خدا نے اپنے دین کا کچھ علم دیا ہے تو ہم لوگوں کو توحید اور شرک اور اسلام اور کفر کا فرق سمجھائیں اور اُن کے لیے دین کے حقائق کی وضاحت کرتے رہیں۔ اِس سے آگے لوگوں کے کفر و ایمان اور اُن کے لیے جنت اور جہنم کے فیصلے کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ خدا کا کام ہے اور اِسے خدا ہی کے سپرد رہنا چاہیے۔
اِس کے بعد اُن لوگوں کا معاملہ ہے جو مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار، بلکہ اُس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتے ہیں جو عام طور پر اسلام کی تعلیمات کے منافی سمجھا جاتا ہے یا کسی آیت یا حدیث کی کوئی ایسی تاویل اختیار کر لیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان بالکل غلط سمجھتے ہیں، مثلاً امام غزالی اور شاہ ولی اللہ جیسے بزرگوں کا یہ عقیدہ کہ توحید کا منتہاے کمال وحدت الوجود ہے یا محی الدین ابن عربی کا یہ نظریہ کہ ختم نبوت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نبوت کا مقام اور اُس کے کمالات ختم ہو گئے ہیں، بلکہ صرف یہ ہیں کہ اب جو نبی بھی ہو گا، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا پیرو ہو گا یا اہل تشیع کا یہ نقطۂ نظر کہ مسلمانوں کا حکمران بھی مامور من اللہ ہوتا ہے جسے امام کہا جاتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اِس منصب کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا تقرر اِسی اصول کے مطابق خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے کر دیا گیا تھا جسے قبول نہیں کیا گیا یا علامہ اقبال جیسے جلیل القدر مفکر کی یہ راے کہ جنت اور دوزخ مقامات نہیں، بلکہ احوال ہیں۔
یہ اور اِس نوعیت کے تمام نظریات و عقائد غلط قرار دیے جا سکتے ہیں، اِنھیں ضلالت اور گمراہی بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن اِن کے حاملین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اِس لیے اُنھیں غیرمسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِن نظریات و عقائد کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے؟ اِس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ دنیا میں اِن کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے اور اُن کے ساتھ تمام معاملات اُسی طریقے سے ہو ں گے، جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ علما کا حق ہے کہ اُن کی غلطی اُن پر واضح کریں، اُنھیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، اُن کے نظریات و عقائد میں کوئی چیز شرک ہے تو اُسے شرک اور کفر ہے تو اُسے کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اُس پر متنبہ کریں، مگر اُن کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا اُنھیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اِس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔
[۲۰۱۴ء]

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اکتوبر 2015
مصنف : جاوید احمد غامدی