آدم اور ان کی نسل - طالب محسن

آدم اور ان کی نسل
(مشکوٰۃ المصابیح حدیث: ۱۰۰۔۱۰۱)

عن أبی موسیٰ قال : سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول: إن اﷲ خلق آدم من قبضۃ قبضہا من جمیع الأرض، فجاء بنو آدم علی قدر الأرض ، منہم الأحمر والأبیض والأسود وبین ذلک ، والسہل والحزن ، والخبیث والطیب۔
’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی (مٹی) سے پیدا کیا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے تمام زمین سے لیا تھا۔ پھر زمین (کی خصوصیات )کے مطابق نسل آدم( ظہور میں)آئی۔ ان میں کچھ سرخ، کچھ سفید، کچھ کالے، اور کچھ ان کے بیچ کے ہیں۔ اسی طرح کچھ نرم، کچھ سخت اور کچھ برے اور کچھ اچھے ہیں۔‘‘

لغوی مباحث

من قبضۃ :ایک مٹھی سے ۔یہ مجاز کا اسلوب ہے ۔ مراد اس سے مٹھی بھر مٹی ہے ۔ شارحین کے نزدیک یہ ترکیب اس تصور کی غماز ہے کہ تخلیق آدم کے لیے مٹی کا پتلا بنایا گیا تھا۔جبکہ قرآن مجید میں موجود اس واقعے سے متعلق آیات سے یہ تاثر نہیں ہوتا۔
والسہل و الحزن:یہ مٹی یا زمین کی صفات ہیں ۔’ سہل ‘سے مراد نرم مٹی والی ہموار زمین ہے ، یعنی جس پر رہنا بسنا آسان ہوتا ہے۔ ’حزن ‘سے مراد پتھریلی زمین یعنی چٹانی علاقہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں گزر بسر دشوار ہے ۔ لیکن آگے بڑھ کر یہ الفاظ خلیق اور اجڈ انسانوں کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔
الخبیث والطیب :’خبیث‘کے معنی ناپاک ، گھٹیا اور برے کے ہیں۔’ طیب ‘کا لفظ اس کے بالکل برعکس پاک ، عمدہ اور اچھے کے معنی میں آتا ہے ۔ یہ دونوں اسماے صفت اشیا کے لیے بھی آتے ہیں اور اشخاص کے لیے بھی۔

متون

ظاہری اعتبار سے انسان رنگ و روپ میں مختلف ہے ۔ چنانچہ روایت میں گورے کالے اور سرخ کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے ، یہ تین رنگ تمام انسانی نسلوں کے احاطے کے لیے ناکافی ہیں۔ لہٰذا اس کے بعد’ بین ذلک‘کا اضافہ کرکے یہ کمی پوری کر دی گئی ہے۔ باطنی اعتبار سے انسان مزاج اور کردار میں مختلف ہے۔ روایت میں مزاج کے بیان کے لیے’ السہل والحزن‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے اور کردار کے لیے ’الخبیث والطیب‘کی۔واضح ہے ، یہ بھی بڑے عنوانات ہیں ۔ احاطے کے لیے یہاں بھی ’بین ذلک‘ کی ضرورت ہے۔ اس روایت کے دوسرے متون میں یہاں بھی ’بین ذلک‘ ہے۔ابن حبان نے ایک چوتھا رنگ ’الأصفر‘بھی روایت کیا ہے۔بیہقی میں یہ چوتھا رنگ ’الأسمر‘ مروی ہے۔مزید برآں اس روایت میں ’من قبضۃ قبضہا۔۔۔‘ کے بجائے ’من أدیم الأرض کلہا ‘ (ساری سطح زمین سے ) روایت ہوا ہے۔اسی طرح ’فجاء بنو آدم علی قدر الأرض‘کی جگہ ’فخرجت ذریتہ علی حسب ذلک‘درج ہے۔ایک روایت میں ’فجاء‘کا فعل رنگوں کے ذکر کے ساتھ بھی دہرایا گیا ہے۔اس تفصیل سے واضح ہے کہ اس روایت کے متون کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔

معنی

اس روایت کا مطلب شارحین کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کی مختلف انواع لے کر ایک مرکب تیار کیا ۔ اس مرکب میں جہاں مٹی کے رنگوں کی آمیزش تھی وہاں اس کے دوسرے خصائص بھی شامل تھے ۔ چنانچہ یہ دونوں چیزیں انسانوں کے رنگ ورو پ اور اخلاق و کردار کے فرق میں ظاہر ہوئی ہیں۔اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس طرح آدمی کا اپنے رنگ وروپ میں کوئی تبدیلی لانا ممکن نہیں، اسی طرح اس کے کردار کی خوبی وناخوبی بھی اس کا لازمی حصہ ہے۔
اسی نتیجے کے پہلو سے اس روایت کو تقدیر کے باب میں لیا گیا ہے ۔ اس باب کی پچھلی احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے ہم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ جن اعمال کاآخرت کے اجرو ثواب سے تعلق ہے، وہ مقدر نہیں کیے گئے۔ چنانچہ اس روایت کے الفاظ کی دلالت کے باوجود اس نتیجہ کو ماننا ممکن نہیں ہے۔اس کے علاوہ کوئی بات کہنا ممکن نہیں ہے کہ الفاظ کا یہ انتخاب راوی کے فہم کا مرہون منت ہے ۔
جو بات ماننے کے لائق ہے ، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسانوں کو مختلف رنگ اور شکل و صورت اور دے کر آزمایا ہے ، اسی طرح انھیں مختلف مزاج دے کر بھی ان کا امتحان کیا ہے۔ جس طرح وہ مختلف صورتوں کے باوجود نیکی اور بدی کے ردوقبول میں پوری طرح آزاد ہیں ، اسی طرح مختلف مزاج کے ہوتے ہوئے بھی نیکی اور بدی کے ردوقبول میں آزاد ہیں۔ جس طرح شکل ، خاندان اور علاقے کے فرق سے آزمایش کی صورت بدل جاتی ہے ، اسی طرح مزاج کے اختلاف سے بھی آزمایش کی نوعیت میں تبدیلی آجاتی ہے۔ البتہ ایک فرق ہے ۔رنگ اور شکل کے معاملے میں آدمی زیادہ مجبور ہے ۔ مزاج پر قابو پانے کی ہمیں زیادہ قدرت دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مزاج کا خوب و ناخوب اخلاق سے براہ راست متعلق ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ کردار کے معاملے میں آدمی ہر گز مجبور محض نہیں ہے۔
اس روایت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے کہ تخلیق آدم کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا گیا اور اس کے وجود پزیر کرنے کے لیے کس مواد کو کام میں لایا گیا۔ یہ بات اصلاً عالم غیب سے متعلق ہے ۔ ابھی تک یہ معاملہ سائنس کی گرفت میں بھی نہیں آیا۔ لہٰذا اس سلسلے میں کوئی بات کہنا حدود سے تجاوز ہے ۔ قرآن مجید میں اس حوالے سے جو کچھ آیا ہے ، اس سے اس روایت کے اس پہلو کی تائید نہیں ہوتی ۔

کتابیات

ترمذی ، رقم ۲۸۷۹۔ابوداؤد ، رقم ۴۰۷۳۔ مسند احمد ، رقم ۱۸۷۶۱، ۱۸۸۱۳۔ ابن حبان ، رقم ۶۱۶۰۔ سنن بیہقی کبریٰ ۳/۹۔مسند البزاز، رقم ۳۰۲۶۔ مسند الرویانی ، رقم ۵۴۷۔ مسند عبد بن حمید ، رقم ۵۴۹۔

_______

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت ستمبر2002
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Nov 29, 2017
2257 View