قرآن قطعی الدلالت ہے - حمید الدین فراہی

قرآن قطعی الدلالت ہے

 قرآن مجید بالکل قطعی الدلالت ہے۔ ہر آیت میں مختلف معانی کا احتمال محض ہمارے قلت علم و تدبر کا نتیجہ ہے۔ جن علما نے اپنی تفسیروں میں بہت سے اقوال نقل کر دیے ہیں، ان کا منشا یہ ہے کہ آیت کی تاویل میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کو ہمارے سامنے رکھ دیں۔ اس میں سے قول راجح کا انتخاب انھوں نے ہماری تمیز پر چھوڑا ہے۔ پس یہ بات جائز نہیں ہے کہ ہم بغیر کسی ترجیح و انتخاب کے تمام رطب و یابس یاد کر چھوڑیں۔ اور پھر حیرانی و سرگشتگی کی وادیوں میں ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ مثال کے طور پر امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر میں بقرہ کی آیت ۱۹۱ کے تحت لفظ ’فتنہ‘ کے معنی دیکھو۔ انھوں نے اس کے پانچ معانی بتائے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب صحیح نہیں ہیں۔ پس میں نے اپنی کتاب میں صرف وہی اقوال نقل کیے ہیں جو میری تحقیق پر صحیح اترے ہیں۔ اور یہی ہمارے اسلاف کا طریقہ رہا ہے۔ اقوال کی کثرت تو ایک طالب کو بالکل حیران و درماندہ کر دیتی ہے۔ بسااوقات لوگ مجرد اقوال نقل کر دیتے ہیں، ان کے دلائل بیان نہیں کرتے۔ یہ ان اقوال کے کہنے والوں اور ان کے سننے والوں، دونوں پر نہایت کھلا ہوا ظلم ہے۔ میں نے آیات کے معانی تفسیر کی کتابوں سے نہیں لیے ہیں، بلکہ خود آیات پر ان کے سیاق و سباق اور ان کی مماثل آیات کی روشنی میں غور کیا ہے۔ اس طرح جب چند آیتوں کے معنی روشن ہو گئے ہیں، تب میں نے ’’تفسیر رازی‘‘ یا ’’تفسیر طبری‘‘ اٹھائی ہے۔ ان میں کبھی تو ایسا ہوا کہ کوئی قول سلف کا میرے موافق مل گیا، کبھی میں سلف کے قول کے بالکل قریب قریب پہنچ گیا اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ جو معنی میری سمجھ میں آئے تھے، ان سے مجھے رجوع کرنا پڑا۔ اور ایسا بھی بارہا ہوا کہ کوئی مشکل ایسی پیش آ گئی جس کے لیے مجھے عرصہ تک توقف کرنا پڑا۔ لیکن ہر حال میں اشکال و ابہام کو میں نے اپنے علم و فہم کی کوتاہی اور غلط رایوں کی عامیانہ تقلید ہی پر محمول کیا۔
اگر تم کو اس بات پر تعجب ہو کہ ایک بالکل کھلی ہوئی اور واضح چیز میں ابہام و اشکال کا کیا ذکر، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کثافت پر تمھاری نظر نہیں ہے جس کی تہوں پر تہیں ہمارے اوپر اڑھا دی گئی ہیں۔ کتنے کھلے ہوئے حقائق ہیں جن میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن جن طبیعتوں پر تاریکی چھائی ہوئی ہے، وہ ان کے دیدار سے محروم ہیں۔ وجود باری میں، اس کی وحدانیت و یکتائی میں، روح کی جسم پر حکومت میں، روز جزا میں، ایک صاحب بصیرت کے لیے کہاں شک کی گنجایش ہے؟ لیکن دیکھتے ہو کہ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو وجود باری اور توحید باری وغیرہ جیسے حقائق میں بھی شک کرتے ہیں، پھر دوسرے مسائل کا کیا ذکر۔ یہ بات بھولنی نہیں چاہیے کہ جس طرح حواس کو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، اسی طرح عقل کو بھی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں اور جب وہ بیماریاں اس کو لاحق ہو جاتی ہیں تو واضح سے واضح حقیقت بھی اس کی سمجھ میں نہیں آتی، کیونکہ باتیں عقل و حواس کو تندرست فرض کر کے کہی جاتی ہیں تو جو عقل مبتلاے امراض ہو گی، وہ ان کو کیسے سمجھ سکتی ہے؟ سورج چمک رہا ہے، شکر میٹھی اور سفید ہے، ایک سلیم الحواس انسان ان باتوں میں ایک لمحہ کے لیے بھی شک نہیں کرے گا۔ لیکن کیا ایک اندھے، ایک احول اور ایک تپ زدہ کا بھی یہی حال ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ قبول رشد و ہدایت میں سب کا حال یکساں نہیں ہو سکتا۔ قرآن شریف کی نسبت فرمایا ہے: ’ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ‘ (یہ پرہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے)۔ دوسری جگہ فرمایا ہے:

وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُراٰنَ جَعَلْنَا بَیْْنَکَ وَبَیْْنَ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاْلاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا. (بنی اسرائیل ۱۷: ۴۵)
’’جب تم قرآن سناتے ہو ہم تمھارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایک کثیف پردہ ڈال دیتے ہیں۔‘‘

سقراط کا قول مشہور ہے کہ نفس کو تمام حقائق معلوم ہیں، لیکن اس پر نسیان طاری ہے۔ مولانا روم کا مقولہ ہے کہ اپنے نفس کی تاویل کرو، قرآن کی تاویل نہ کرو۔ خواجہ حافظ کا ارشاد ہے کہ سب سے بڑا حجاب تمھارا نفس ہے، اس کو دور کرو۔ ان باتوں کا کیا مطلب ہے؟ بہرحال ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ قرآن نے اداے مطلب کے لیے وہی اسلوب اختیار کیے ہیں جو سب سے زیادہ واضح، سب سے زیادہ اقرب اور سب سے زیادہ خوب صورت تھے اور جہاں کہیں کسی اسلوب میں کوئی تصرف کیا ہے تو کسی اہم فائدہ کے لیے کیا ہے۔ ہم ایک علیحدہ مقدمہ میں اس پر بحث کریں گے اور وہاں تاویل کے وہ اصول بیان کریں گے جو مختلف اقوال کے احتمال کا سدباب کر دیں گے۔۱؂ آیات متشابہات اور حروف مقطعات کے باب میں بھی ہمارا یہی مذہب ہے۔ وہ اپنی دلالت میں زیادہ سے زیادہ واضح ہیں۔ ہم ایک مستقل مقدمہ میں ان پر بھی گفتگو کریں گے۔
(مجموعہ تفاسیر فراہی ۴۴) 

________

۱؂ اصول تاویل پر مولانا مرحوم کا ایک مستقل رسالہ ہے۔ اب تک اس کی اشاعت کی نوبت نہیں آئی۔ (مترجم)

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2016
مصنف : حمید الدین فراہی
Uploaded on : Mar 28, 2018
3616 View