صبر کیا ہے، اسے کیسے حاصل کریں؟ (3) - ساجد حمید

صبر کیا ہے، اسے کیسے حاصل کریں؟ (3)

 

صبرکی اہمیت قرآن مجید میں

حق کی بقا کا انحصار صبر پر

اللہ تعالیٰ نے صبر کا مطالبہ اس لیے کیا ہے کہ حق اس دنیا میں موجود رہے اگر حق پررہنے والے لوگ معدوم ہو جائیں تو پھر حق کہاں سے ملے گا۔اس طرح ایک فرد کی زندگی میں بھی حق کی بقا اسی میں ہے کہ وہ حق پر قائم رہنے کے لیے ثابت قدمی دکھائے۔آثارصحابہ میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ ’لا ایمان لہ لمن لا صبر لہ‘، اس کا ایمان ہی نہیں جس کے پاس صبر نہیں۔ یعنی جو آدمی صبر نہیں کرسکتا اس کا ایمان جاتا رہے گا۔ وہ صبر کی صفت نہ ہونے کے سبب سے اس بات سے محروم ہوتا ہے کہ وہ مشکل گھڑی میں ایمان کو قائم رکھ سکے ، وہ تھڑ دلوں کی طرح پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہوتا رہتا ہے۔ایسے آدمی کی تصویر قرآن نے یوں کھینچی ہے:

فَاَمَّا الاِْنْسَانُ اِذَا مَاابْتَلٰہُ رَبُّہٗ، فَاَکْرَمَہٗ وَ نَعَّمَہٗ، فَیَقُوْلُ: رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہٖ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ: رَبِّیْٓ اَہَانَنِ. (۸۹ :۱۵۔۱۶)
’’پر اس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا خدا امتحان کرتا پھر اسے عزت و نعمت بخشتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے میرے رب نے میری شان بڑھائی۔ اور جب وہ اسے جانچتا پھر (اس غرض سے) رزق میں تنگی کرتا ہے تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر ڈالا۔‘‘

ایک اسی تصویر کا پہلو یہ بھی ہے :

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا، اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا، وَّ اِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا. (۷۰ :۱۹۔۲۱)
’’انسان کی گھٹی میں بے صبری پڑی ہے ، جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ گھبرانے لگ جاتا ہے اور جب فراخی حاصل ہوتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے۔‘‘

بے صبری انسان کے اندر سے عزم و حوصلہ اور کشادگی اور اعلیٰ ظرفی کی نوعیت کی چیزوں کو کم کردیتی ہے۔ اور وہ تھڑ دلی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جس کے بعد حق پر اس کا قائم رہنا ممکن نہیں رہتا۔
امت اسلامیہ اس وقت اسی بے صبر ی کا شکار ہے۔ اس لیے کہ اس کے ہاں ’’دشمن ‘‘کے منفی اقدامات کاجواب دینے میں یہی رنگ پایا جاتاہے کہ وہ مثبت اقداما ت کے بجائے منفی اقدامات کرتی ہے۔حق پر استقامت کے بجائے غلط طریقوں سے انتقام لیتی ہے۔ عدل و انصاف کے بجائے ردعمل میں آکر ناانصافی کرتی ہے وغیرہ۔اپنے انھی جذبات کی بنا پر امت اس وقت اس حق پر قائم نہیں رہ پاتی ہے ، جس کا نقیب اور امین اللہ نے اسے بنایاتھا۔
مثلاً اس کے پاس ایک بنیادی نیکی جسے عدل کہا جاتا ہے وہی موجود نہیں ہے، تو باقی نیکیاں چہ معنی دارد۔ اس لیے کہ عدل ہی وہ نیکی ہے جو ساری نیکیوں کو وجود بخشتی ہے۔ہمیں قیام بالقسط کا حکم دیا گیا ہے مگر ہماری اکثریت اس پر قائم نہیں ہے ۔ البتہ ایک اقلیت اس پر قائم ہے اور یہ اقلیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ چنانچہ اسلام جو سراپا حق ہے اس وقت اس کے علم بردار ناحق پر سمجھے جاتے ، اورا ن کی رسوائی اسلام کے حصے میں بھی آرہی ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حق کواپنے ماننے والوں کا سہارا ہی حاصل نہیں ہے، تو دنیا میں قائم کیسے رہے۔

نصرت الٰہی کا نزول اور صبر

قرآن مجید میں’ ان اللّٰہ مع الصابرین‘(اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ) کی نوید محض ثابت قدموں ہی کے لیے ہے۔قوم اور فرد سب کے لیے یہ ایک ہی اصول ہے۔ محض اتنا فرق ہے کہ افراد کے لیے اس صبر کا ہر نیکی کی طرح نتیجہ اصلاً قیامت کے دن نکلنا ہے اور اقوام کی ثابت قدمی کا نتیجہ اسی دنیا میں، عروج و رفاہیت کی صورت میں نکلتا ہے۔یعنی اجتماعی معاملات میں خدا کا یہ ساتھ دنیا ہی میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ ایک اجتماعیت جیسے ہی حق پر قائم رہنے کی جدو جہد کرنے لگتی ہے، تو اللہ تعالیٰ کا ساتھ ظاہر ہونے لگ جاتا ہے۔
ملت اسلامیہ کے ساتھ یہ نصرت بھی اسی صورت میں آئے گی جب ہم اپنا عمل پورا کردیں گے۔ ہمارا عمل یہ ہے کہ شہداے ملت حق پر بہر صورت قائم رہیں،اس کے معنی یہ ہیں کہ زندگی کے معاملات کرتے ہوئے اس کے احکام پر عمل پیرا ہوں۔ اور عمل پیرا ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان کو صحیح معنی میں سمجھنے کی کوشش کریں اور جو معنی دیانت داری سے سمجھ آجائیں ان پر اسی دیانت سے عمل کریں تو اللہ کی مدد ضرور شامل حا ل ہوگی۔ہماری مراد یہ ہے کہ یہ نصرت صبر کے ساتھ مشروط ہے ہمارے محض برائے نام مسلمان ہونے سے یہ چیز ہمیں حاصل ہونے کی نہیں ہے۔
دنیوی کاموں میں تجربہ گواہ ہے کہ خدا کی مدد محنت کے ساتھ مشروط ہے۔ خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، محنت کرنے والے خدا کی مدد و نصرت پاتے ہیں۔اس میدان میں پوری استقامت اور تسلسل کے ساتھ محنت کرنا صبر ہے ۔ایسی محنت ہی ثمربار ہوتی اور نتائج لاتی ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ’ان اللّٰہ مع الصابرین‘ کی اس نوید کا ایک رخ ذریت ابراہیم کے ساتھ خاص ہے۔ یعنی ذریت ابراہیم اگر دین میں ثابت قدمی دکھاتی ہے تو ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو اصول دیا ہے وہ یہ ہے کہ’ اذکرونی اذکرکم ‘(البقرہ)مجھے یاد رکھو گے تو میں تمھیں یاد رکھوں گا۔اس یاد رکھنے سے مراد یہی مدد و نصرت ہے ، جو انھیں حاصل ہوتی رہے گی۔ اور ذریت ابراہیم کے یاد رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ دین پر ثابت قدم رہے ۔

اللہ کا سہارا

صبر اس اعتبار سے بھی ایک اہم وصف ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے سہارے کا سبب ہے ۔ ہم یہ بات جان چکے ہیں’ان اللّٰہ مع الصابرین‘، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ آپ کو اللہ کا سہارا صبر کرنے کی صورت میں ملے گا۔ اس دنیا میں بے شمار مواقع ہیں، جن میں ہمیں خدا کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس میں ایک عجیب نفسیاتی پہلو بھی موجود ہے ۔ وہ یہ ہے کہ صابر آدمی کو پہلے ہی مرحلے پر ایک نفسیاتی تفوق حاصل ہوتا ہے۔ وہ مصائب پر چیخنے چلانے کے بجائے ، سب سے الگ طریقے پر حوصلہ اور عزم سے کھڑا ہو تا ہے ۔ یہ چیز ان کے لیے صدمہ کے آغاز ہی میں سہارا بن کر ظاہر ہوجاتی ہے اور اگر مصیبت اور صدمہ سنگین ہو تا چلا جائے تو پھر اس سے نکلنے کی راہ یا سہنے کی طاقت ملتی چلی جاتی ہے۔ سیدنا یوسف کو جب زلیخا نے اپنے جال میں پھانسنے کی کوشش کی، تو سیدنا یوسف پورے عزم و حوصلے سے ڈٹے رہے ۔ قرآن کے مطابق ان کے عزم کی گرفت ڈھیلی پڑسکتی تھی ، مگراللہ تعالیٰ نے انھیں بچا لیا۔ سورۂ یوسف میں اس کی تفصیل یوں کی گئی ہے:

وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا عَنْ نَّفْسِہٖ، وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ، وَ قَالَتْ ہَیْتَ لَکَ.قَالَ: مَعَاذَ اللّٰہِ، اِنَّہٗ رَبِّیْٓ اَحْسَنَ مَثْوَایَ، اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ. وَ لَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ، وَ ہَمَّ بِہَا، لَوْ لَ�آاَن رَّ اٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہٗ السُّوْٓءَ وَالْفَحْشَآءَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ. (۱۲: ۲۳۔۲۴)
’’اورجس عورت کے گھر میں وہ تھا، وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگی، اور اس نے دروازے بند کرلیے اور بولی کہ بس آجاؤ۔اس نے کہا اللہ کی پناہ، وہ (تیرا شوہر) میرا آقا ہے اس نے مجھے خاطر مدارت سے رکھا ہے ۔ حق تلفی کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاتے۔اور عورت نے تو اس کا قصد کرہی لیا تھا، اور وہ بھی اس کا قصد کر ہی لیتا اگر اس نے اپنے رب کی واضح نشانی نہ دیکھ لی ہوتی۔ ہم نے ایسا کیا تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں۔ اس لیے کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔ ‘‘

سیدنا یوسف کی ثابت قدمی درج ذیل الفاظ میں واضح ہے : ایک اس جملے سے کہ ’’وہ (تیرا شوہر)میرا آقا ہے اس نے مجھے خاطرمدارت سے رکھا ہے ۔ حق تلفی کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاتے‘‘ ۔اور دوسرے ان الفاظ سے کہ ’’اور وہ بھی اس کا قصد کر ہی لیتا اگر اس نے اپنے رب کی واضح نشانی نہ دیکھ لی ہوتی۔‘‘آیات کا اختتام جن الفاظ پر ہوا ہے وہ یہ ہیں کہ ’’ہم نے ایسا کیا تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں۔ اس لیے کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔ ‘‘
یہ آخری بات یہ بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی برائی سے بچنے میں مدد کرتے ہیں ، اگر وہ اپنے صبر و استقامت سے یہ ثابت کردیں کہ وہ اللہ کے مخلص بندے ہیں۔ جن لوگوں کو اپنی خامیوں پر قابو پانے میں مشکل پیش آتی ہے ۔ ان کی کمزوری یہ ہے کہ وہ پورے اخلاص کے ساتھ کوشاں نہیں ہوتے ۔ وگرنہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آدمی اخلاص کے ساتھ برائی دور کرنا چاہے اور اللہ اسے دور نہ کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر بند ہ میرے راستے میں جدو جہد کرے گا تو میں اس کے لیے اپنی ہدایت کے راستے کھولوں گا۔(العنکبوت ۲۹: ۶۹)
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت کی زندگی کی مشکلات میں ، اللہ کی مدد کا جو وعدہ تھا ، اس کی حقیقت بھی یہی تھی کہ وہ آپ کے صبر اور محسن ہونے کے ساتھ مشروط تھا۔ فرمایا گیاکہ

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَلَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ. اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ. (۱۶: ۱۲۷۔ ۱۲۸)
’’اور صبر کرو، اور تمھیں اللہ کے بغیر صبرحاصل نہیں ہو سکتا۔ تم نہ ان پر غم کرو، اور نہ جو یہ چالیں چلتے ہیں ان سے پریشانی میں مبتلا ہو۔ اس لیے کہ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ محسن بھی ہیں۔‘‘

یہاں دیکھیے،جس سہارے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ درحقیقت تقویٰ اور احسان کے ساتھ مشروط ہے ۔ یعنی یہ(ساتھ دینے یا سہار ابننے )کا جو ذکر صبر کے حکم کے ساتھ شروع ہوا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ صبر اگر نہ ہو تو یہ سب کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ نہ تقویٰ باقی رہے گا ، اور نہ احسان۔ اور نہ ان دونوں سے محرومی کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ سہارا حاصل ہو گا جس کی بنا پر آدمی غم نہیں کھاتا اور دوسروں کی ریشہ دوانیوں سے نہیں گھبراتا۔ امت اسلامیہ کے افراد اور اجتماعی دھڑے اس فریب کا شکار ہیں کہ انھیں خدا کا یہ سہارا ، بس مسلمان ہونے کی وجہ سے مل جائے گا۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا علیہم السلام اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ وعدۂ نصرت بھی چند شرائط کے ساتھ ہی کیا تھا۔ اگر وہ شرائط پوری نہ ہوتیں، تو سیدنایونس کی داستان ہمارے سامنے ہی ہے۔

صبر احسان ہے

صبر کی اہمیت میں یہ بات بھی ہمارے سامنے رہنی چاہیے کہ صبر ان چیزوں میں سے ہے، جنھیں قرآن مجید احسان قرار دیتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ صبر محسنین کا وصف ہے قرآن مجید کا بیان ہے:

وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ.(۱۱: ۱۱۵)
’’اور ثابت قدم رہو، اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘

وہ لوگ جو آخرت کے لحاظ سے کامیابی پانے کے لیے نیکی کرتے ہیں، ان کو قرآن مجید نے محسن قرار دیا ہے اور جو لوگ اسی دنیا کو اصل سمجھ کر اسے کمانے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں، انھیں قرآن مجید نے ’ظالمی انفسہم‘ (اپنے اوپر ظلم کرنے والے )قرار دیا ہے۔ (الصافات۳۷ :۱۱۳)جو لوگ راہ حق میں صبر اور ثابت قدمی دکھاتے ہیں وہ دراصل اپنے محسن آپ ہیں۔ دنیا میں انھیں صبر کی بنا پر جو عزت ملے گی سو ملے گی آخرت میں بھی انھیں اس احسان کا بدلہ ضرور ملے گا ۔ احسان کے معنی حسن سلوک کے ہیں، اور وہ انسان اپنا محسن ہے جو اپنے ساتھ حسن سلوک کرے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو آخرت کی تیاری میں لگا دے۔ اگر وہ وہاں کامیاب ہو گیا تو اس سے بڑا محسن کون ہوگا۔
قرآن مجید نے مندرجہ بالا آیت میں ایک اشارہ اس بات کی طرف کیا ہے کہ صبر محسن آدمی کے لیے ضروری ہے ۔ صبر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے یہ نوید دی ہے کہ جو آدمی صبر کرے گا تو ایسے محسن کا میں اجر ضائع نہیں کروں گا۔اس سے معلوم ہوا کہ محسن بننے والے کے لیے صبر ایک اہمیت رکھتا ہے۔ نیکیوں پر ثابت قدم رہنے والا (صبر کرنے والا )محسن ہے ۔ (یوسف ۱۲ : ۹۰ )
محسن آدمی چونکہ صابر بھی ہوتا ہے اس لیے جو بات قرآن مجید نے ’ان اللّٰہ مع الصابرین‘ کے الفاظ میں صابروں کے لیے کہی ہے وہی بات ’ان اللّٰہ لمع المحسنین ‘کے پیرائے میں محسنین کے لیے کہی ہے ۔ (العنکبوت ۲۹:۶۹)

صبر کا صلہ

قرآن مجید کے مطابق سب سے بڑا صلہ جس چیز کو ملنا ہے ، وہ صبر ہے ۔اسی طرح قوموں کی زندگی میں عروج پانے اور دوسری اقوام کے مقابلے میں غلبہ حاصل کرنے کے لیے بھی صبر ہی اسلحہ و جہاد کی حیثیت رکھتا ہے ۔یعنی انفرادی زندگی میں فرد اگر حق پر قائم رہے گا تو اللہ اسے جنت میں اعلیٰ مقامات عطا فرمائے گا۔ اور اگر کوئی قوم اپنے اجتماعی وجود میں حق پر قائم رہتی ہے تو وہ دنیا میں فائزالمرامی پائے گی ۔ قرآن مجید نے فرمایا ہے:

اِنِّیْ جَزَیْتُہُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوْٓا اَنَّہُمْ ھُمُ الْفَآءِزُوْنَ.(ا لمومنون۲۳ :۱۱۱)
’’آج میں نے ان کوان کے صبر کا بدلہ دیا ہے۔ اور آج یہ فائزالمرام (کامیاب و کامران )ہیں ۔‘‘

اسی طرح یہ دیکھیے:

اُولٰٓءِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَ یُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا.(الفرقان ۲۵ :۷۵)
’’یہی لوگ ہیں جنھیں بالا خانے ملے ہیں اس بنا پر کہ انھوں نے صبر کیا، اور (اسی صبر کی بنا پر ) وہاں ان کا خیرمقدم تحیت و سلام سے ہو گا۔‘‘

یہاں یہ بات محض یاددہانی کے لیے سمجھ لیجیے کہ صبر پر جنت اس بات کا صلہ ہے کہ آدمی نے ساری زندگی اس طرح گزاری ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے رب پر راضی رہا ہے۔اور کسی موقع پر بھی اس نے خدا سے مایوس ہو کرکوئی اور در نہیں کھٹکھٹایا۔وہ کسی موقع پر اخلاق سے عاری نہیں ہوا،وغیرہ۔

صبر کا دہرا صلہ

صبر ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں انسان ایک موقع پر دو عمل کررہا ہوتا ہے۔ ایک مصیبت کو برداشت کرنا اور دوسرے برے عمل و اقدام سے رکے رہنا ۔ یہ چیز انسان کو اس بات کا مستحق بناتی ہے کہ وہ دوہراا جر پائے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ اس صبر کا اجر دہرا ہے ، جس کے ساتھ برائی کے بدلے میں نیکی کی گئی ہے:

اُولٰٓءِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّّّّّّّّّیِِّءَۃَ ، وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ. (القصص ۲۸ :۵۴)
’’یہ لوگ ہیں کہ جنھیں دہرا اجر ملے گا، بوجہ اس کے کہ وہ ثابت قدم رہے ، اور وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے، اور ہمارے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘

مراد یہ ہے کہ ہم اگر راہ حق میں آنے والے مصائب ، لوگوں کی طعن وتشنیع کو ایک صابر آدمی کی طرح لیں یعنی ان کی برائی پر آپے سے باہر نہ ہوں، اور بداخلاقی پر نہ اتریں، بلکہ ان کی برائی کے بدلے میں بھی نیکی کریں تو اس طرح کے صبر کے بعد ہمیں دوہرا صلہ ملے گا۔ایک ان کی برائی پر صبر اور دوسرے اس کے جواب میں نیکی کرنے پر۔
اس کو ہم مثالوں سے سمجھتے ہیں۔مثلاً جب ہم ابتلا میں ہوں، اور اس ابتلا میں خدا کی یاد سے غافل نہ ہوں اور جیسے ہی نماز کا وقت آئے تو ہم خدا کے حضور کھڑے ہو جائیں تو یہ نماز دوہرے اجر کی مستحق ہے۔ اور اسی طرح اگر ہمارے ساتھ کوئی برائی کرے ، اور ہم اس کی برائی کو برداشت بھی کریں اور اس کے ساتھ نیکی بھی کریں تو یہ نیکی دوہرے اجر کی حق دار ہوگی۔

ذریعۂ استعانت

صبر کی اہمیت اس پہلوسے بھی قرآن کی روشنی میں ہمارے سامنے آتی ہے کہ صبر ان اوصاف میں سے ہے کہ جو نیکی پر چلنے میں ہماری مدد کرتاہے۔ صبر اصل میں ہمارے ذہن و قلب کا حصہ بن کرایک نفسیات کی تخلیق کرتا ہے۔ جوہمارے لیے ممد و معاون ہوتی ہے۔
یہ نفسیات یہ ہے کہ یہ دنیا آزمایش کے لیے بنی ہے۔ ہمیں اس میں کامیاب ہوناہے۔ اس دنیا کی ہر مشکل اور ہر آسانی اصل میں میرے امتحان کے لیے آتی ہے۔ میں ہر لمحہ امتحان میں ہوں۔ مجھے کوئی دھکے دے یا گھر سے نکال دے ، کوئی گالی دے یا تہمت باندھے، کوئی مذاق اڑائے یا نام بگاڑے، کوئی جسمانی اذیت دے یا ذہنی سب میرے لیے امتحان ہیں۔میں نے ان میں کامیاب ہونا ہے ۔اس بات پر ہر گھڑی قائم رہنا ہی صبر کی نفسیات ہے ۔ چنانچہ اس نفسیات کے حامل کو جب بھی مشکل پیش آئے گی تو وہ درج ذیل دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کر ے گا:
پہلا راستہ: اگر وہ اسی آزمایش کے لحاظ سے سمجھے گا کہ اسے انتقام لینا چاہیے ، اور یہی حق کا تقاضا ہے ، اور اگر انتقام نہ لیا گیا تو یہ شخص ظلم کرنے کا عادی ہو جائے گا ،تو پھر قانون و شریعت کے مطابق انتقام لے گا اور اتنا ہی انتقام لے گا جتنا اس پر ظلم کیا گیاہے۔
دوسرا راستہ : اگر آزمایش کا تقاضا اسے یہ معلوم ہورہا ہو کہ اس کو معاف کرنا ہی بہتر ہے ،نہ صرف معاف کرنا ، بلکہ اس کے ساتھ نیکی کرنا بھی ضروری ہے تو اس صورت میں وہ نیکی بھی کردے گا۔
یہ نفسیات جس میں آخر ت کی کامیابی اصل کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس پر استقامت دکھانا ہمیشہ اس بات میں معاون رہے گا کہ آپ کے حوصلوں کو پست نہ ہونے دے اور آپ کو نیکی اور خیر کی طرف لگائے رکھے۔
مزید یہ بات بھی ہے کہ اس نفسیات کے اثرات کے بعد آدمی اگر کسی وقت مشکل میں ڈگمگانے لگے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہو کر اسے بچا لیتی ہے۔ یعنی اصل میں صبر حق پر قیام کے لیے ہماری دہری مدد کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ ہماری نفسیات اور ہمارے قویٰ اور ذہن کو مضبوط بناتا ہے اور دوسرے یہ کہ اگر ہم کہیں کمزور ہونے لگتے ہیں تو اللہ کی مدد آنے کا باعث بنتا ہے۔یہ ہم اوپر جان چکے ہیں کہ یوسف علیہ السلام کے پاس کن مشکلات میں اللہ کی برہان نازل ہوئی۔
’نفس مطمئنۃ‘کو عام طور سے غلط سمجھا جاتا ہے کہ شاید یہ بھی نفس کی نفس لوامہ کی مانند کوئی قسم ہے۔ ایسا نہیں ہے ۔ یہ دراصل ہر وہ آدمی ہے جو اپنے رب کی نعمتوں پر شکر گزار رہا، بندوں کے حقوق ادا کرتا رہا، تنگی میں صابر و قانع رہا،اور اسی طرح زندگی کے تمام مراحل میں اپنے رب کے ہر فیصلہ پر راضی رہا۔

لا ایمان لہ لمن لا صبر لہ

صحابۂ کرا م رضوان اللہ علیہم کے آثار میں یہ بات منقول ہوئی ہے کہ جو صبر نہیں کرسکتا اس کے پاس ایمان نہیں ہے۔یہ بات صحابہ کی زندگیوں کا نچوڑ ہے۔ انھیں جس طرح کی مشقتیں سہنی پڑیں اور انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ بے صبرے قسم کے لوگ یا تو منافق بن کر رہتے رہے اور یا پھر ارتداد کا شکار ہوئے (مانعین زکوٰۃ وغیرہ)۔اگر اس زندگی کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ اس وقت اصل مسئلہ کیا تھا، تو قرآن کا تجزیہ بھی یہی ہے کہ یہود جو ایمان نہیں لا پارہے تھے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ ان میں صبر (حق پر قیام کی کوشش) کا وصف نہیں تھا۔ اور یہی چیز صحابہ نے ان ایمان لانے والوں میں دیکھی جو منافقت اختیار کیے ہوئے تھے ۔ اس لیے صبر کی اہمیت اس پہلو سے نہایت بڑھ جاتی ہے کہ نہ صرف یہ کہ نئے سامنے آنے والے حق کو ماننا صبر کے بغیر ممکن نہیں ، بلکہ اگر کسی حق کو آدمی مانتا ہے تو اس پر قائم رہنا بھی صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
صبر ایک وسیلۂ ظفر ہے۔ اسی سے ایمان و حق حاصل ہوتا اور اسی سے اس پر قیام ممکن ہو تا اور اسی سے ہم نے اوپر یہ جانا ہے کہ حق پر قائم رہنے کے لیے خدا کی مدد و نصرت ہمیں حاصل ہوتی ہے۔ یہ سب چیزیں آدمی کے پاس نہ ہوں تو ایما ن بچانا کیسے ممکن ہے۔آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنے آپ کو حق پر قائم رکھیں ۔ یہی صبر ہے ۔ اس منزل میں جتنی مشکل آئے گی خدا اس میں سے آپ کے لیے حق پر قائم رہنے کے راستے نکال لے گا۔

خلاصہ

اس باب میں ہم نے یہ جانا کہ حق کی بقا کا انحصار صبر پر ہے۔ یہ دنیا میں بھی اور آدمی کے دل میں بھی حق کے قائم رکھنے کا واحد ذریعہ ہے۔اگر یہ وصف انسانوں میں باقی نہ رہے تو یہ دنیا حق سے محروم ہو جائے گی۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر انسان اپنی زندگی کی آزمایشوں میں بے صبرا ہو تو وہ دونوں امتحانوں (تنگی و آسانی )میں ایک تھڑ دلا انسان بن کر نمودار ہوتا ہے۔
اسی طرح صبر کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت ہمیں حاصل ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی معیت کی صورت میں ہمارے لیے ایک سہارا بنتی ہے۔’ان اللّٰہ مع الصابرین‘کا اصول بتاتا ہے کہ اللہ کی مدد محض مسلمان کہلائے جانے والوں کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے ، وہ جس اسلام کے ماننے والے ہیں، اس پر صبر اور ثابت قدمی سے عمل کرنے والے بھی ہوں۔ وہ ہر ہر قدم پر اس پر قائم رہیں۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کی مدد ان کی زندگیوں میں ظاہر ہوگی۔
صبر احسان ہے، یعنی انسان کا اپنے ساتھ بہترین حسن سلوک یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو آخرت کی تیاری میں لگا دے، اور اس کی بہترین صورت صبر کاوصف ہے۔
صبر کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ اس کے بعد جو نیکی بھی ہم کریں گے وہ صبر کی نیکی کے ساتھ مل کر دوہرے اجر کی مستحق ہو جائے گی۔ یعنی جب ہم ابتلا میں ہوں، اور اس ابتلا میں خدا کی یاد سے غافل نہ ہوں اور جیسے ہی نماز کا وقت آئے تو ہم خدا کے حضور کھڑے ہو جائیں تو یہ نماز دوہرے اجر کی مستحق ہے۔ اور اسی طرح اگر ہمارے ساتھ کوئی برائی کرے ، اور ہم اس کی برائی کو برداشت بھی کریں اور اس کے ساتھ نیکی بھی کریں تو یہ نیکی دوہرے اجر کی حق دار ہوگی۔
صبر کو قرآن مجید نے نماز کی طرح ذریعۂ استعانت بھی قرار دیا ہے۔ یعنی اس کے ذریعے سے ہم مشکلات میں مدد حاصل کرسکتے ہیں۔اسی استعانت کی ایک اہم مثال یہود سے مطالبہ ایمان کے وقت کی ہے ان سے یہ کہا گیا کہ محمد عربی پر ایمان لانا حق پرستی کا تقاضا ہے اور اس حق پر قائم رہنے کے لیے صبر سے مدد لو یعنی حق پرستی کی روش اختیار کرو۔ اسی چیز کے پیش نظر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم کہا کرتے تھے کہ’لا ایمان لہ لمن لاصبر لہ‘.

انسانی سرشت اور صبر

انسانی سرشت میں اللہ تعالیٰ نے تمام اوصاف خواہ وہ بظاہر منفی یا سلبی نظر آتے ہوں، وہ سب دراصل مثبت اور ایجابی ہیں۔ مثلاً قرآن مجید نے بتایا ہے کہ’ کانالانسان عجولا ‘(انسان اپنی سرشت میں جلدباز ہے)۔ جلدبازی اگرچہ ایک منفی چیز ہے ، مگر یہ بنی نو ع انسان میں اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ وہ ان سب امور کی طرف سبقت کرنے والا بنے ، جن کو خیراور نیکی کہا جاتا ہے ۔ مگر چونکہ اسے اس دنیا میں خلافت کی نوعیت کا اقتدار بھی ملا ہے اس لیے وہ اپنے اس اختیار کی بنا پر ان تمام داعیات کو غلط جگہ پر استعمال کرلیتا ہے۔جس سے خرابی وجود میں آتی ہے۔
حصول خیر میں جلدبازی کا یہ جذبہ اس لیے انسان کو دیا گیا تھا کہ وہ نیکی کی طرف بڑھے اور اس میں سب سے سبقت کرنے کی سعی کرے ، مگر اس دنیا میں ہم دنیا کے بھلے کے لیے جلدبازی سے کام لینے لگ جاتے ہیں۔تو ہماری سرشت عجل حب عاجلہ کی صورت میں ظاہر ہو کر منفی بن جاتی ہے ۔
یعنی قرآن مجید نے جن منفی داعیات کا ذکر کیا ہے۔ وہ دراصل ان مثبت داعیات کے نمائندہ ہیں جن کو حق پر ستی ہی کے لیے ہماری سرشت میں ودیعت کیا گیاہے۔ ان کا وجود ان کے دوسرے رخ کا پتا دیتا ہے۔ قرآن میں مخاطب کے منفی داعیات کو زیربحث لا کر گویا ان کا تعارف کرایا گیا ہے کہ یہ چیزیں ان میں جلب خیر کے بجائے جلب شر کا ذریعہ بن رہیں۔ اس لیے ان کو قابو کرنا ضروری ہے۔ اور ان کے قابو کرنے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ انھیں صحیح رخ پر ڈال دیا جائے۔
قرآن مجید نے ہماری سرشت میں موجود جن داعیات کا ذکر کیا ہے وہ درج ذیل صفات کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں:
۱۔ عجول
۲۔ ظلوم
۳۔ جہول
۴۔ ضعیف
۵۔ قتور
۶۔ ہلوع
اب ہم سرشت انسانی کے ایک ایک پہلو کو سامنے رکھ کر اس بات کا جائزہ لیں گے کہ صبر کا ان سے کیا تعلق ہے۔ اس تعلق کو سمجھنے سے ہمیں یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ ہم صبر کے لحاظ سے کن مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں اور یہ کہ ہماری سرشت کے ان پہلو وں کا اصل استعمال کیا ہے ، جس سے فائدہ اٹھا کر ہم صبر کے حصول کے قریب ہو سکتے ہیں۔

عجول ہونا اور صبر

’عجول‘جیسا کہ اس باب کی تمہید میں ہم نے جانا کہ جلد بازی سے تعبیر ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید نے اسے عاجل نہیں کہا۔ اس لیے کہ عاجل میں اگرچہ اسم صفت ہے ، مگر دوام کا مفہوم اور مبالغہ کا مفہوم ایسا نہیں ہے جیسا ’عجول‘ میں ہے۔قرآن مجید نے یہ صفات انسانی اس اسلوب میں بیان کی ہیں کہ ’خلق من عجل ، خلق الانسان عجول‘، یا ’کان الانسان عجولا‘ وغیرہ ۔ اس اسلوب سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ دراصل انسان کی سرشت بتائی جا رہی ہے۔
عجول کے معنی جیسا ہم نے بتایا کہ عجلت پسندی کے ہیں ، یعنی جو دل میں خیال آجائے اس کے لیے تیزی دکھانا۔یہ وصف درحقیقت حصول منفعت میں تیزی دکھانے کے لیے رکھا گیا تھا تاکہ انسان ’سابقون‘میں سے بنے۔ قرآن مجید نے واضح الفاظ میں اس چیز کا مطالبہ کیاہے کہ ہم نیکیوں کی طرف سبقت کریں۔سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’فاستبقوا الی الخیرات‘ ، تم نیکیوں کی طرف سبقت کرو۔(۲:۱۴۸)نیکیوں کی طرف یہ سبقت دراصل خدا سے انعام و مغفرت پانے کی طرف سبقت ہے ۔سورۂ حدیدمیں اسے یوں بیان کیا گیا ہے:’سابقوا الی مغفرۃ ربکم‘(۵۷:۲۱)اپنے رب کی بخشش کی طرف سبقت کرو۔یہ دیکھیے کہ ان آیات میں کس طرح اس مزاج کو مخاطب کیا گیا ہے جو اسے ’عجول‘ ہونے کے لحاظ سے حاصل ہے۔اور اس کی انتہا سورۂ واقعہ کی اس آیت میں ہے کہ’ السابقون السابقون ‘دنیا میں نیکیوں میں سبقت کرنے والے آخرت کے اجر میں بھی سبقت پانے والے ہوں گے۔
چنانچہ یہ عجلت پسندی بظاہر صبر کے الٹ ہے ، مگر حقیقت میں یہ عین صبر کی مؤید ہے ۔ یعنی آپ اگر ہر مرحلے میں دنیا کے لالچ میں جلد بازی کے بجائے ، نیکی کی طرف بڑھنے کے لیے کوشاں ہوں تو یہ عین صبر کا تقاضا ہے، بلکہ صبر کی اعلیٰ ترین صورت ہے۔آپ کو اپنے اندر کے اس جذبے کو مارنا نہیں ہے ، بلکہ اس کا رخ بدلنا ہے ۔ اسے دنیاداری سے ہٹا کر آخرت کا طالب بنانا ہے ۔ اس گھوڑے کی لگامیں تھامیں رکھیں اور اسے نیکیوں کے راستے پر سرپٹ دوڑایے ۔ اس لیے کہ ہمیں اسی کام کے لیے عجول بنایا گیا ہے۔ یعنی ’سابقوا الی مغفرۃ ربکم‘۔

ظلوم ہونا اور صبر

’ظلوم‘کے معنی ظلم کرنے والے کے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ اپنے سادہ معنی ہی میں استعمال ہوا ہے ۔ لیکن سورۂ احزاب میں یہ جس سیاق وسباق میں آیا ہے اس سے اس کے اندر یہ معنی پیدا ہوگئے ہیں کہ انسان ذمہ اٹھانے میں حد سے بڑھ جانے والا ہے۔سورۂ احزاب آیت ۷۲میںیہ اس سیاق میں آیا ہے کہ انسان نے خدا کی امانت کا بار اٹھا لیا اور باقی تمام مخلوقات نے اس بار کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔اس پر خدا نے یہ تبصرہ فرمایا کہ ’انہ کان ظلوما جہولا‘۔ یعنی انسان ظلوم اور جذباتی ہے۔ یہاں اس نے ظلم صرف یہ کیا ہے کہ وہ جذبات میں آکر اس بار امانت کو اٹھا بیٹھا۔گویا اس سیاق وسباق میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان نے اپنی ہمت سے بڑھ کر بوجھ اٹھا لیا۔
انسان کی سرشت کی یہ خوبی ہے ، جس نے اسے ستاروں پر کمند ڈالنے کا حوصلہ دیا ہے۔ جس کی بنا پر وہ بار بار گر نے کے بعد بھی اٹھ کر سنبھل سکتا ہے۔ یہی وہ داعیہ ہے جس کے بل پر نہایت قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود بدر و حنین میں اتر جاتاہے ۔ راہ عشق میں انسان کی ساری قربانیاں اور وطن و قوم کے لیے اپنی جان تک کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوجانا اسی سرشت کی بنا پر ہے۔
انسان کو ’ظلوم‘اس لیے بنایا گیا ہے کہ وہ حق و انصاف کی خاطر بدر و احد کے میدان میں اتر سکے۔وہ عمر وبکر کی طرح اپنی قوم کی مخالفت مول لے سکے ۔ بلا ل وحارث کی طرح حق کی خاطرستایا جائے، اور پھر بھی وہ دین حق پر قائم رہنے کا اعلان کرتا رہے۔
انسان کی یہ سرشت اسے حق کی خاطر وہ ثبات قدم عطا کرتی ہے کہ وہ میدان بدر میں جام شہادت نوش کرتا ہے ۔ اسے موت اپنے سامنے رقصاں نظر آتی ہے ، مگر وہ ڈٹا رہتا ہے۔ انسان کی یہ صفت’ظلوم‘اس کا ایک اعلیٰ وصف ہے۔جو حق کے لیے ہو تو بے مثال داستانیں رقم کرتا ہے اور اگر بے گناہ معصوم لوگوں کے خلاف ہو تو تاریخ انسانی کی خونچکاں تاریخ رقم کرتاہے۔اور وہ ’ظلوم‘ کی صلاحیت کا غلط استعمال کرکے ظالم بن جاتا ہے۔افسوس ہے کہ انسان راہ حق میں ثابت قدمی کے لیے جس وصف سے نوازا گیا تھا ، وہ اسے ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرنے کے لیے صرف کرتا رہتا ہے۔ ’عجول‘ کی صفت کی طرح ہمیں اس سرشت کو بھی بس قابو کرکے راہ حق میں لگانا ہے۔ پھر یہ راہ حق میں ہمیں ایسا ثبات قدم عطا کرتی ہے کہ ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکتے ہیں۔

جہول ہونا اور صبر

’جہول‘کے معنی جذباتی ہونے کے ہیں۔انسان میں سے اگر جذبات نکال دیے جائیں تو وہ نامکمل ہو جاتا ہے ۔ جہول کا یہ داعیہ کئی جذبات کو متحرک کرتا ہے۔ جیسے محبت و شفقت، غیرت و عصبیت، غیظ و غضب، نفرت و حقارت، تنفرو اباوغیرہ۔ یہ تمام جذبات انسان کے لیے قوت محرکہ کا کام کرتے ہیں۔اگر یہ جذبات نہ ہوں تو انسان مٹی کے ڈھیر کی طرح ہوکر بیٹھ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام جذبات حق کے ساتھ دینے اور اس کے ساتھ چلنے کی قوت و تحریک کے لیے دیے تھے۔مگر ہم انھیں غلط طریقے پر استعمال کرتے ہوئے محض اپنی ذات یا قوم قبیلے کے مفادات کے لیے خاص کرلیتے ہیں۔بلاشبہ ان جذبات کے ظاہر ہونے کے مقامات میں ذات ، قبیلہ اور قوم و وطن بھی ہیں ،مگریہاں انھیں حق کے تابع ہونا چاہیے۔جب آدمی کے قدم جادۂ حق سے پھسلنے لگیں ان میں کمزوری آنے لگے تو اس وقت حق کے ساتھ ہمارے یہ جذبات ہمیں واپس لاتے ہیں۔ کبھی حق کی خاطر ہی یہ جذبات ہماری ذات کے لیے دائرۂ حق کے اندر رہتے ہوئے ، ہمارے ساتھ خاص ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر ذات یا قوم و قبیلہ کے ساتھ یہ جذبات حق کے دائرے میں رہتے ہوئے خاص ہو جائیں تو یہ بھی حق ہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہ جاہلیت ہے۔ لیکن اگر ذات کے مفادات کے ساتھ بھی ان کا تعلق بنے ، اور وہ دائرۂ حق میں ہو تو اس صورت میں بھی یہ ہمارے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں۔ مثلاً ہو سکتا ہے کسی موقع پر ہمارے لیے جادۂ حق پر قائم رہنا ممکن نہ ہو ،مگر دوزخ کا خوف اور جنت کی طمع ہمیں اگر بچا لے تو یہ عین صبر اور ثابت قدمی ہے۔
یعنی اس سے یہ بات ہم پر واضح ہوئی کہ ہمارے سچے جذبات اگر حق شناس ہو جائیں تو ہمارے لیے صبر اختیار کرنے اور حق پر قائم رہنے کے لیے یہ جذبات معاون ہوتے ہیں۔ نہ صرف معاون ہوتے ہیں، بلکہ تحریک و انگیخت کا باعث ہوتے ہیں، جومنفعل طریقے سے ہمیں جادۂ حق پر رواں رکھنے سے بڑھ کر جوش و جذبے کے ساتھ گام زن رکھتے ہیں۔
قرآن مجید نے انذار و تبشیر کے ذریعے سے صحابہ کے انھی جذبات کوایسے متوازن طریقے سے حق کے لیے بیدار کیا کہ ان میں سے بعض اپنی زندگی ہی میں جنت کے مستحق قرار پائے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جب میدان جنگ میں ایک کافرنے تھوک دیا تو انھوں نے تلوار روک لی۔ اس لیے کہ اب انھیں اس پر ذاتی غصہ تھا۔ اب اس پر تلوار حق کی خاطر نہ اٹھتی۔یہ ضبط اپنے جذبات کو دراصل راہ حق کی طرف موڑنے سے حاصل ہوا تھا۔

ضعیف ہونا اور صبر

انسان دراصل’ ضعیف‘ بنایا گیا ہے۔ اس کے جسم اور اس کی روح کے اندر ضعف رکھا گیا ہے تاکہ وہ خدا کے سامنے سرفگندگی ظاہر کرے۔ اور خدا کے آگے سجدہ ریز ہوجائے۔ اور جب بھی اس پر مشکل آئے تو کسی مضبوط سہارے کو تلاش کرکے خدا تک پہنچے۔مگر اس انسانی سرشت نے بھی آزادی و اختیار کی بنا پرغلط راستہ اختیار کیا۔چنانچہ کبھی تو انسان نے اپنی کمزور ی کو اپنے’ ظلوم‘ ہونے کے زور پر دبایا اور خدا بن بیٹھااور انسانوں پر ظلم ڈھانے لگا۔ یہ ظلم اس نے اسی لیے ڈھائے کہ اس کی کمزوری ظاہر نہ ہو۔ اور کسی کواسے روکنے کی جرات اور دم خم باقی نہ رہے۔ اور کبھی ایسا ہوا کہ انسان نے یہ کمزوری اپنے اوپر اس طرح طاری کرلی کہ وہ کہیں ظالموں کے آگے مظلوم بن گیا اور کبھی بتوں کے آگے جھک گیا۔ اگر حق کی خاطر اس کو توازن دیا جاتا تو ایسا ہی حسن اخلاق وجود میں آتا جیسا کہ ہم نے اوپر کے داعیات میں دیکھا کہ توازن کی وجہ سے پیدا ہوا۔
ضعف بلاشبہ ہماری ایک کمزوری ہے۔مگر یہ کمزوری بھی ہماری طاقت ہے ۔ جو ہر خوف اوراندیشہ کے وقت ہمیں حق کی جانب دھکیل کر خدا کے آگے ڈال دیتی ہے۔ ہمارے مذہبی گروہوں میں سے ایک گروہ ایسا رہا ہے کہ انھیں اپنی اس سرشت کے اقرار میں مشکل رہی ہے اور وہ ہمیشہ خدا بننے کی کوشش میں فلسفہ سازیوں میں مگن رہے ہیں۔اس چیز نے ہمارے مذہبی لوگوں میں کمزوری کو ایک منفی وصف بنا دیا ہے۔ حالانکہ یہ وصف منفی ہونے کے باوجود ایک مثبت وصف ہے کہ ہمیں اس حق شناسی پر لاکر کھڑا کردیتا ہے۔ جو سیدنا موسیٰ کے منہ سے اس وقت ان الفاظ میں صادر ہوتا ہے جب وہ مصر سے فرار ہونے کے بعد مدین کی سرحد پر کھڑے یہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ اب تو مجھے جو بھی دے میں اس وقت اس کے لیے فقیر و محتاج ہوں۔ یہ شعور ذات اگر خدا کے مقابلے میں ہمیشہ کے لیے آدمی کو حاصل ہو جائے تو ایک ایسا طاقت ور انسان بن جاتا ہے کہ وہ خدا کی سرزمین میں خدا کے سہاروں کا سب سے بڑا مہبط ہوتا ۔ اور اسی کی بنا پر وہ اپنی کمزوری کے باوجو د مالک و حنبل کی طرح بادشاہوں کے مظالم کے آگے ایک پہاڑ بن جاتا اور بلال حبشی کی طرح صبر کا ایک اعلیٰ نمونہ بن جاتا ہے۔
اس اعتبار سے اگر ہم دیکھیں تو ضعف کا یہ داعیہ جو بظاہر صبر کے الٹ دکھائی دیتا ہے ، وہ دراصل صبر کا سب سے زیادہ موثر مؤید و معاون ہے۔یہ ہمارے اند ر اس کی جستجو پیدا کرتا ہے کہ ہم دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط سہارے کے ساتھ جڑ کر رہیں۔اور یہ سب سے مضبوط سہارا اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات ہے۔ اور یہ سادہ عقلی اصول ہے کہ ہم جس کے سہارے کو حاصل کرنا چاہیں، اس کی محبت کو جیتنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ خدا کی محبت جیتنے کے لیے ہمیں حق پرستی کو اختیار کرنا ہوگا۔ اور ہم یہ جان چکے ہیں کہ یہی چیز صبر ہے۔

قتور ہونا اور صبر

’قتور ‘کے معنی تنگ دلی و بخل کے ہیں۔یہ ہمارے اندر حصانت ، احتیاط ، اتقا اور تحفظات کو وجود بخشتا ہے۔جب یہ تحفظات انسان پر زیادہ سوار ہو جائیں تو جس طرح بخیل بن کر مذموم ٹھہرتا ہے اسی طرح دوسرے امور میں حق پرستی سے دور رہتا ہے۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب یہود ایمان نہیں لا پارہے تھے ، تو اس کی وجہ قرآن سے یہی معلوم ہو تی ہے کہ وہ اس مشیخت کو تحفظ دینا چاہتے ہیں، جو انھیں اہل کتاب ہونے کے ناتے حاصل تھی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے بظاہر ہاتھ سے جاتی دکھائی دے رہی تھی۔یہی وجہ ہے کہ قرآن ان پر تنقید کرتاہے کہ تم حقیر قیمت کے عوض اس ہدایت کو نہ بیچو۔ میری آیات کا انکار محض اس وجہ سے نہ کرو کہ تم دنیا میں اس چند روزہ مشیخت کو باقی رکھو۔
اسی طرح ان کا یہ تحفظ بھی تھا کہ انبیا تو بنی اسرائیل میں آتے رہے ہیں۔ اب بھی یہ انھی کا حق ہے بھلا اب یہ نبی بنی اسماعیل میں کیوں کر آگیا۔اس سے انھیں اپنی برتری جاتی ہو ئی دکھائی دے رہی تھی جو ان کے لیے ایمان لانے میں رکاوٹ بنی ۔جسے قرآن نے’ حسدا من عند انفسہم‘(ان کے اپنے حسد)کے الفاظ سے بیان کیاہے۔ان کے انھی تحفظات میں سے ایک پر قرآن نے اس طرح بھی چوٹ لگائی ہے کہ’ اخشونی ولا تخشوا الناس‘ (مجھ سے ڈرو لوگوں سے نہ ڈرو)۔
یہ داعیہ بھی دراصل ان چیزوں کے روکنے کے لیے تھا، جنھیں اپنے پاس روکے رکھنا حق کا تقاضا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ داعیہ اس لیے رکھا ہے کہ ہم اپنے ہاتھ سے خیر کو نہ جانے دیں۔ خیر کو ہاتھ سے جاتے دیکھ کر ہمارے اندر ویساہی احساس محرومی پیدا ہو، جیسا مال کو جاتے دیکھ کر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے اندر یہ بخل ہونا چاہیے کہ ہم ایک ایک نیکی کو سینت سینت کر رکھیں۔ ایک بخیل آدمی کی طرح جو اپنے مال کو سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے ،ہم اپنی فطرت اور اپنے اندر کی نیکیوں کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ ہمہ وقت اس کوشش میں رہیں کہ ہمارا ایمان کہیں شیطان کے ہتھے نہ چڑھ جائے ۔ اور وہ ہماری راہ کھوٹی نہ کردے۔
جو آدمی اپنے پاس موجود نیکی کو ضائع نہ ہونے دے گا وہ دراصل نیکی پر قائم ہے۔ وہ نہ ریا کاری کرے گا اور نہ معاشرے اور ماحول کی دیکھا دیکھی نیکی کو چھوڑ کر برائی کو اختیار کرے گا، اور نہ محض متاع دنیا کے عوض کبھی گمراہی خریدے گا ، بلکہ وہ اس کے اگر تحفظات ہوں، تو وہ یہ ہوں گے کہ کہیں یہ کرنے سے میرا ایمان تو رخصت نہیں ہو جائے گا۔ کہیں ناانصافی تو نہیں کر بیٹھوں گا اور کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ میرے اور معاشرے کے اندر سے میرے اس عمل سے نیکی ختم ہو جائے گی۔

ہلوع ہونا اور صبر

’ہلوع ‘کے معنی تھڑ دلے کے ہیں۔یعنی ذرا سی مصیبت پر ہی جزع فزع کرنے والا۔اہل لغت نے اس کے معنی حریص اور بزدل کے بھی بتائے ہیں۔قرآن میں یہ اس سیاق میں آیا ہے:

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا. اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا. وَّ اِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا. (المعارج۷۰: ۱۹۔۲۱)
’’بلاشبہ انسان تھڑدلا بنا ہے جب اسے برائی لاحق ہوتی ہے، تو وہ جزع فزع کرتا ہے۔ اور جب اسے بھلائی نصیب ہوتی ہے تو وہ بخیل بن جاتا ہے۔‘‘

یہ بھی پچھلے پانچوں داعیات کی طرح بظاہر صبر کے مقابل و حریف کی طرح نظر آتا ہے۔ مگر یہ بھی دراصل اسی مثبت داعیے کا منفی رخ ہے اس کا دوسرا رخ مثبت بھی ہے۔یعنی یہ انسان کو بے چینیوں میں مبتلا کر کے اصلاح احوال کی طرف دھکیلتا ہے۔ قرآن میں یہ اپنے منفی پہلو ہی سے بیان ہو اہے ، لیکن ہم یہ جان چکے ہیں کہ تمام داعیات اپنے ایجابی و سلبی دونوں رخ رکھتے ہیں۔ہلوع کی بزدلی ہمارے لیے خدا کی طرف بڑھنے کا پیش خیمہ ہے۔ یہ بزدلی خدا کے آگے آہ وزاری کا سبب ہے۔ ہمیں سرکشی سے روکتی ہے۔ہلوع میں حرص کا پہلو ہمیں نیکیوں کا حریص بناتا ہے۔ ہم اجر کے حریص بنتے ہیں۔اس کے اندر بخیل کا پہلو ہمیں نیکیوں اور اخلاق کی خوبیوں کی حفاظت پر ابھارتا ہے۔ مگر یہ الگ بات ہے کہ ہم اکثر اس داعیے کو غلط استعمال کرتے ہیں۔

خلاصہ

اس باب میں ہم نے چند اہم داعیات کو اس مختصر سی وضاحت سے سمجھا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں صبر کی آزمایش میں ڈال کر اس کے ساتھ کچھ داعیات کو بھی ہمارے اندر رکھ دیا ہے۔ جو حق کے ساتھ ہمارے بندھن کو مضبوط کرتے اور اس کے ساتھ ہمارے تعلق کو دوام بخشتے ہیں۔ان داعیات کو صحیح رخ پر ڈال کر ہم اپنے اندر صبر کی صفت کو پیدا کرسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ’عجول، ظلوم، جہول، ضعیف، قتور‘اور’ ہلوع‘ اس لیے بنایا ہے کہ ہم اپنے ان اوصاف کی بنا پر حق پرثابت قدم رہ سکیں۔ اور یہ داعیات ہمیں راہ حق پر قائم رکھنے کے لیے کبھی جذبۂ سبقت ، کبھی ہمت، کبھی جوش و حمیت، کبھی ، احتیاط و تحفظات، ٹھہراؤاور بے چینی کے جذبے عطا کرکے ہمیں راہ حق پر قائم رکھتے ہیں، مگر یہ بات ہم اپنی تاریخ انسانی میں بھی اور اپنی زندگیوں میں دیکھتے ہیں کہ انھی جذبات کی تسکین ہمیں راہ حق سے ہٹا بھی دیتی ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم ان پر نگاہ رکھیں اور ان داعیات کا استعمال نہایت سوچ سمجھ کر کریں۔
[باقی]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2005
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Jul 21, 2017
3352 View