متن حدیث میں ہمارے تصرفات (۴) - ساجد حمید

متن حدیث میں ہمارے تصرفات (۴)

 (گذشتہ سے پیوستہ)

حذف السیاق

یہ چوتھا تصرف ہے جوراویوں، محدثین اور مصنفینِ حدیث نے کیا ہے۔ حذف السیاق یہ ہے کہ حدیث کے بعض ایسے اجزا کا بیان نہ کرنا جو بات کا سیاق و سباق یا موقع محل تشکیل کرتے ہیں۔موقع محل کی بہت اہمیت ہے،یہ نہ ہو تو سادہ سے سادہ جملے بھی اپنے معنی کھو دیتے ہیں۔تصرفات کے نتیجے میں بہت سی احادیث کو ان کے سیاق و سباق سے محروم کردیا گیا ہے۔پچھلے تینوں تصرفات میں اس کی کچھ مثالیں گزری ہیں ۔سیاق و سباق کے کھو جانے سے کیا مسئلہ پیدا ہوتاہے، وہ ذیل کی مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
جملہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیا بجھا کر سویا کرو۔
سیاق و سباق
سیاق و سباق نہ بتایا جائے تو 

معنی

رات کو دیا بجھانا کارِ ثواب ہو گا۔ شاید بعض علما سوتے وقت دیا جلانے کوحرام بھی کہہ دیں۔ آج کے زمانے میں بلب بھی بجھا کر سونا پڑے گا۔

سیاق و سباق

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ بتائی کہ چوہا آئے گا، تیل کھانے کے لیے بتی کو لے جانا چاہے گا، جس سے گھر میں آگ لگ سکتی ہے۔ یہ سیاق و سباق معلوم ہو تو

معنی

اب یہ گناہ ثواب کا مسئلہ نہیں ، بلکہ عام زندگی کی ایک اچھی نصیحت ہے ۔ بلب اور چوہے کا تعلق وہ نہیں ہے، اس لیے بلب جلا کر سوسکتے ہیں۔
یہاں دیکھیے کہ سیاق و سباق کا نہ ہونا معنی میں کیا تبدیلی کردیتا ہے، اس لیے ضروری تھا کہ ہر ہر حدیث میں سیاق و سباق یا موقع محل بیان کیا جاتا، لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ تقریباً تمام روایات کسی نہ کسی طریقہ میں اپنے سیاق و سباق سے محروم ہوکر روایت ہوئی ہیں۔ہم نے انضمام المتون والے تصرف کے تحت کچھ روایات کا ذکر کیا تھا، جن کا موقع محل یا سیاق وسباق کسی ایک روایت سے بھی معلوم نہیں ہوسکا۔ اس مضمون میں ہم جو روایت بطور مثال پیش کرنے جارہے ہیں، اس کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے کہ تصرفات کے کئی مراحل سے گزر کر اس کا موقع محل چند طرق میں تو آیا ہے، لیکن اکثر میں نہیں۔آئیے سب سے پہلے موقع محل سے منقطع روایت کو دیکھتے ہیں:

عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: ہَلَکْتُ، قَالَ: ’’وَلِمَ؟‘‘ قَالَ: وَقَعْتُ عَلٰی أَہْلِيْ فِيْ رَمَضَانَ، قَالَ: ’’فَأَعْتِقْ رَقَبَۃً‘‘ قَالَ: لَیْسَ عِنْدِي، قَالَ: ’’فَصُمْ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘‘، قَالَ: لاَ أَسْتَطِیْعُ، قَالَ: ’’فَأَطْعِمْ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘‘، قَالَ: لاَ أَجِدُ، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِیْہِ تَمْرٌ، فَقَالَ: ’’أَیْنَ السَّاءِلُ؟‘‘، قَالَ: ہَا أَنَا ذَا، قَالَ: ’’تَصَدَّقْ بِہٰذَا‘‘، قَالَ: عَلٰی أَحْوَجَ مِنَّا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، فَوَالَّذِيْ بَعَثَکَ بِالحَقِّ، مَا بَیْنَ لاَبَتَیْہَا أَہْلُ بَیْتٍ أَحْوَجُ مِنَّا، فَضَحِکَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی بَدَتْ أَنْیَابُہُ، قَالَ: ’’فَأَنْتُمْ إِذًا‘‘.(بخاری، رقم ۵۳۶۸)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ حضور میں مارا گیا، آپ نے دریافت فرمایا: وہ کیوں؟ اس نے کہا: میں نے رمضان میں بیوی سے ملاقات کر لی ہے۔ آپ نے فرمایا: ایک غلام آزاد کرنا پڑے گا، اس نے عرض کی: میرے پاس غلام نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ لو، وہ بولا : میں اس کی قوت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا کہ پھر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلادو، اس نے کہا کہ میں اس کے لیے بھی استطاعت نہیں رکھتا۔ اتنے میں آپ کے پاس کھجور کی ٹوکری آئی جس میں کھجوریں تھیں۔ تو آپ نے پوچھا: وہ سوال کرنے والا کہاں ہے؟ وہ بولا: میں یہاں ہوں۔ آپ نے اس سے کہا: یہ کھجوریں صدقہ میں دے دو۔ اس نے کہا: یہ اپنے سے زیادہ محتاج کو دینی ہیں نا؟ آپ کو نبوت عطا کرنے والے رب کی قسم، ان دو سیاہ پتھروں والی وادیوں میں (اس پورے علاقے میں) ہم سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ آپ ہنسنے لگے، اتنا ہنسے کہ آپ کے نوکیلے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ نے فرمایا: پھر تم ہی لے لو۔‘‘

پہلے اس میں ایک تصرف کے ایک شاہد کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان روایات میں سے اکثر میں ’فی رمضان‘ ہے ، یعنی یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔ ان میں یہ نہیں آیا کہ ایسا روزے کی حالت میں ہوا۔ رمضان میں مقاربتِ زوجین کسی کفارے کو واجب نہیں کرتی، اس لیے کہ رمضان کی راتیں اس کے لیے شریعتِ اسلامیہ میں حلال و مباح رکھی گئی ہیں۔ ’فی رمضان‘ کے الفاظ مکمل روایت کے مضمون کے مطابق بالکل درست ہیں، لیکن مندرجہ بالا روایت میں یہ کچھ غیر مناسب ہیں، اس لیے پھر دو تین طرق میں اگلی ساری بات کے ساتھ مناسبت پیدا کرنے کے لیے بعض راویوں نے ’رمضان میں‘ کے بجاے ’میں روزے سے تھا یا میں نے عمدًا رمضان میں روزہ افطار کرلیا اور بیوی کے پاس چلا گیا‘ کے الفاظ کو روایت کیا ہے ۔۱؂ لیکن یہ چند ایک روایتوں ہی میں تبدیلی ہوئی ہے۔باقی روایات میں یہ تبدیلی نہیں ہوئی، ان میں ’فی رمضان‘ ہی کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ زیادہ تر روایات میں سیاق و سباق کے حذف سے پہلے والے الفاظ ہی موجود ہیں اور وہ مضمون سے پوری مطابقت نہیں رکھتے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تصرف شدہ متن ہے، جس کا ابتدائی حصہ کاٹ کر الگ کردیا گیا ہے۔ 
آئیے اب اس متن کو دیکھتے ہیں جو کسی قدرپورے سیاق و سباق کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے:

حَدَّثَنَا أَبُوْ سَلَمَۃَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ ثَوْبَانَ، أَنَّ سَلْمَانَ بْنَ صَخْرٍ الأَنْصَارِيَّ، أَحَدَ بَنِيْ بَیَاضَۃَ جَعَلَ امْرَأَتَہُ عَلَیْہِ کَظَہْرِ أُمِّہِ حَتّٰی یَمْضِيَ رَمَضَانُ، فَلَمَّا مَضٰی نِصْفٌ مِنْ رَمَضَانَ وَقَعَ عَلَیْہَا لَیْلًا، فَأَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَذَکَرَ ذٰلِکَ لَہُ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’أَعْتِقْ رَقَبَۃً‘‘، قَالَ: لَا أَجِدُہَا، قَالَ: ’’فَصُمْ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘‘، قَالَ: لَا أَسْتَطِیْعُ، قَالَ: ’’أَطْعِمْ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘‘، قَالَ: لَا أَجِدُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِفَرْوَۃَ بْنِ عَمْرٍو: ’’أَعْطِہِ ذٰلِکَ الْعَرَقَ وَہُوَ مِکْتَلٌ یَأْخُذُ خَمْسَۃَ عَشَرَ صَاعًا، أَوْ سِتَّۃَ عَشَرَ صَاعًا إِطْعَامَ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘‘.(سنن الترمذی رقم ۱۲۰۰)۳؂

’’ابو سلمہ اور محمد بن عبدالرحمن بتاتے ہیں کہ سلمان ۲؂ بن صخر انصاری ،جن کا تعلق بنو بیاضہ سے تھا، نے اپنی بیوی سے رمضان بھر کے لیے ظہار کرلیا۔ پھر ابھی رمضان آدھا ہی گزرا تھا کہ ایک رات اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا ماجرا سنایا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک غلام آزاد کردو، انھوں نے کہا کہ میرے پاس تو غلام نہیں ہے۔ آپ نے کہا کہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ لو، انھوں نے کہا کہ اس کی ہمت نہیں پاتا۔ آپ نے کہا کہ پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا ہی کھلا دو، اس نے کہا کہ یہ بھی میسر نہیں ہے۔ آپ نے فروہ بن عمرو سے کہا کہ یہ بوریا اسے دے دو۔ اس بوریے (مکتل) میں پندرہ سولہ صاع کھجور آجاتی ہے، جو ساٹھ مسکینوں کا کھانا ہوگا۔‘‘

اس روایت سے اس واقعہ کا جو سیاق وسباق کھویا گیا تھا، وہ واضح ہو جاتا ہے۔ اس سیاق و سباق سے واضح ہورہا ہے کہ اس شخص کو روزہ توڑنے نہیں، بلکہ ظہار کا کفارہ بتایا جا رہا ہے۔کفارے کے اس حکم کے سیاق و سباق پر مزید روشنی یہ روایت ڈالتی ہے کہ اس آدمی نے اپنی بیوی سے یہ ظہار کیوں کیا:

عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ صَخْرٍ الْبَیَاضِيِّ، قَالَ: کُنْتُ امْرَأً أَسْتَکْثِرُ مِنَ النِّسَاءِ، لَا أَرٰی رَجُلًا کَانَ یُصِیْبُ مِنْ ذٰلِکَ مَا أُصِیْبُ، فَلَمَّا دَخَلَ رَمَضَانُ ظَاہَرْتُ مِنَ امْرَأَتِيْ حَتّٰی یَنْسَلِخَ رَمَضَانُ، فَبَیْنَمَا ہِيَ تُحَدِّثُنِيْ ذَاتَ لَیْلَۃٍ انْکَشَفَ لِيْ مِنْہَا شَيْءٌ، فَوَثَبْتُ عَلَیْہَا فَوَاقَعْتُہَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلٰی قَوْمِيْ فَأَخْبَرْتُہُمْ خَبَرِيْ، وَقُلْتُ لَہُمْ: سَلُوْا لِيْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوْا: مَا کُنَّا نَفْعَلُ، إِذًا یُّنْزِلَ اللّٰہُ فِیْنَا کِتَابًا، أَوْ یَکُوْنَ فِیْنَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْلٌ، فَیَبْقٰی عَلَیْنَا عَارُہُ، وَلٰکِنْ سَوْفَ نُسَلِّمُکَ بِجَرِیْرَتِکَ، اذْہَبْ أَنْتَ، فَاذْکُرْ شَأْنَکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ حَتّٰی جِءْتُہُ فَأَخْبَرْتُہُ الْخَبَرَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’أَنْتَ بِذَاکَ‘‘؟، فَقُلْتُ: أَنَا بِذَاکَ، وَہَا أَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَابِرٌ لِحُکْمِ اللّٰہِ عَلَيَّ، قَالَ: ’’فَأَعْتِقْ رَقَبَۃً‘‘، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِيْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أَصْبَحْتُ أَمْلِکُ إِلَّا رَقَبَتِيْ ہٰذِہِ، قَالَ: فَصُمْ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَہَلْ دَخَلَ عَلَيَّ مَا دَخَلَ مِنَ الْبَلَاءِ إِلَّا بِالصَّوْمِ، قَالَ: ’’فَتَصَدَّقْ، أَوْ أَطْعِمْ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘‘، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِيْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ بِتْنَا لَیْلَتَنَا ہٰذِہِ مَا لَنَا عَشَاءٌ، قَالَ: ’’فَاذْہَبْ إِلٰی صَاحِبِ صَدَقَۃِ بَنِيْ زُرَیْقٍ، فَقُلْ لَہُ، فَلْیَدْفَعْہَا إِلَیْکَ، وَأَطْعِمْ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا، وَانْتَفِعْ بِبَقِیَّتِہَا‘‘.۴؂ (سنن ابن ماجہ، رقم ۲۰۶۲)

’’سلمہ بن صخر البیاضی کہتے ہیں کہ میں ایسا آدمی ہوں کہ مجھے عورتوں کی طرف زیادہ میلان تھا، میرا نہیں خیال کہ کسی مرد کو مجھ جیسی یہ حالت لاحق رہی ہو، تو اس لیے جب رمضان آیا تو میں نے ظہار کی قسم کھا لی کہ میری بیوی رمضان کے اختتام تک میری ماں کی طرح ہے۔ ایک رات کیا ہو اکہ باتیں کرتے کرتے اس کے جسم کا کچھ حصہ مجھے دکھائی دیا، میں اس پر جھپٹا اور اس سے زن و شو کا تعلق قائم کرلیا۔ صبح ہوئی، تو میں سویرے ہی اپنے لوگوں کے پاس گیا اور اپنی رات والی بات بتائی، اور ان سے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے متعلق پوچھو۔ لوگوں نے کہا: ہم ہر گز ایسا کرنے والے نہیں ہیں، کیونکہ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی قانون اترے گا یا رسول اللہ کی طرف سے کوئی بات سامنے آئے گی، جس کی عار پھر ہمارے لیے باقی رہ جائے گی۵؂ (کہ سخت قانون ان لوگوں کی وجہ سے اترا)۔ ہم ابھی بس یہ کرسکتے ہیں کہ تمھیں تمھارے گناہ کے حوالے کریں، تم خود ہی جاؤ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا معاملہ خود ہی بیان کرو ۔ سو (ان کی بات سن کر)میں نکلا اور نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا قصہ کہہ سنایا۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے واقعی ایسا کیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں نے ایسا کیا ہے، اور اب میں یہاں حاضر ہوں، پوری ثابت قدمی سے خدا کے حکم کو تسلیم کروں گا۔ آپ نے فرمایا: ایک گردن (غلام)آزاد کردو، میں نے کہا: بخدا، اپنی اس گردن کے سوا کسی گردن کا مالک نہیں ہوں۔ آپ نے فرمایا: (اگر غلام نہیں ہے تو)پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ لو، میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، میں جس مشکل میں پھنسا ہوں، آیا وہ روزے ہی کی وجہ سے نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: پھر کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کردو یا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا دو، میں نے عرض کی ، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بالحق مبعوث فرمایا ہے، ہم نے آج رات اس طرح کاٹی کہ ہمارے پاس رات کھانے کو کچھ نہ تھا۔آپ نے فرمایا: جاؤ، بنی زریق کے زکوٰۃ پر مامور آدمی کے پاس جاؤ ، اس سے کہو ، وہ تمھیں صدقات میں سے کچھ دے، اور تم ساٹھ مساکین کو کھلاؤ اور باقی سے خود بھی فائدہ اٹھاؤ۔‘‘

اس روایت سے ہم جان سکتے ہیں کہ اس سارے واقعہ میں رمضان کی اہمیت روزہ توڑنے کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ رمضان میں ظہار کرلینے کی وجہ سے ہے ۔اسی طرح ہم یہ جان سکتے ہیں کہ روزہ نہیں، بلکہ ظہار کو توڑا گیا ہے۔ ایک روایت میں یہ تصرف دوسرا رنگ اختیار کر گیا ہے اور اس آدمی کا سوال ہی تبدیل ہو گیا ہے، جب کہ باقی واقعہ مذکورہ بالا واقعہ سے ملتا جلتا ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّيْ أَفْطَرْتُ یَوْمًا فِيْ رَمَضَانَ، قَالَ: ’’مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ وَلَا سَفَرٍ‘‘؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ’’بِءْسَ مَا صَنَعَتَ‘‘ قَالَ: أَجَلْ فَمَا تَأْمُرُنِيْ؟ قَالَ: ’’أَعْتِقْ رَقَبَۃً‘‘، قَالَ: وَالَّذِيْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا مَلَکْتُ رَقَبَۃً قَطُّ، قَالَ: ’’فَصُمْ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘‘، قَالَ: فَلَا أَسْتَطِیْعُ ذٰلِکَ، قَالَ: ’’فَأَطْعِمْ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘‘، قَالَ: وَالَّذِيْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا أُشْبِعُ أَہْلِيْ، قَالَ: فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِکْتَلٍ فِیْہِ تَمْرٌ، فَقَالَ: ’’تَصَدَّقْ بِہٰذَا عَلٰی سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘‘، قَالَ: إِلٰی مَنْ أَدْفَعَہُ، قَالَ: ’’إِلٰی أَفْقَرِ مَنْ تَعَلَمُ‘‘، قَالَ: وَالَّذِيْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا بَیْنَ قُتْرَیْہَا أَہْلُ بَیْتٍ أَحْوَجُ مِنَّا، قَالَ: ’’فَتَصَدَّقْ بِہِ عَلٰی عِیَالِکَ‘‘.(مسند ابی یعلیٰ الموصلی، رقم ۵۷۲۵)۶؂

’’ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، تو اس نے کہا کہ میں نے رمضان کے دن میں روزہ توڑ لیا ہے، آپ نے پوچھا: بلا عذر اور بلاسفر ؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا تم نے بہت ہی برا کام کرڈالا ہے، اس نے کہا جی، اب آپ کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ایک غلام آزاد کردو ... (آگے کا واقعہ مذکورہ واقعات سے ملتا جلتا ہے، لہٰذا ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے، طوالت سے بچنے کے لیے چھوڑ رہا ہوں۔)‘‘

یہاں اس سوال کو زیر بحث لانا ضروری ہے، وہ یہ کہ یہ تین روایتیں الگ الگ واقعات تو نہیں ہیں؟بلاشبہ تینوں میں بیان کردہ سوال مختلف ہے: 
مثلاً ایک روایت کا سوال ہے:

وَقَعْتُ عَلٰی أَہْلِيْ فِيْ رَمَضَانَ.(بخاری، رقم ۵۳۶۸) 
’’میں رمضان میں بیوی سے جماع کربیٹھا ہوں۔‘‘

دوسرا سوال یہ ہے:

أَنَّ سَلْمَانَ بْنَ صَخْرٍ الأَنْصَارِيَّ، أَحَدَ بَنِيْ بَیَاضَۃَ جَعَلَ امْرَأَتَہُ عَلَیْہِ کَظَہْرِ أُمِّہِ حَتّٰی یَمْضِيَ رَمَضَانُ، فَلَمَّا مَضٰی نِصْفٌ مِنْ رَمَضَانَ وَقَعَ عَلَیْہَا لَیْلًا.(سنن الترمذی، رقم ۱۲۰۰) 
’’سلمان بن صخر انصاری جو بنی بیاضہ کا آدمی تھا، اس نے اپنی بیوی سے رمضان تک کے لیے ظہار کر لیا، پر ابھی آدھا رمضان ہی گزرا تو وہ ایک رات بیوی سے جماع کر بیٹھا۔‘‘

تیسرا سوال ۷؂ یہ ہے:

إِنِّيْ أَفْطَرْتُ یَوْمًا فِيْ رَمَضَانَ.(مسند ابی یعلیٰ الموصلی، رقم ۵۷۲۵) 
’’میں نے رمضان میں روزہ توڑ لیا ہے۔‘‘

اس کا جواب صرف یہ ہے کہ یہ تین واقعات نہیں ایک ہی ہے، اس لیے کہ تصرفات سے نہ صرف سوال مختصر ہوا ہے، بلکہ آگے کفارے کے مکالمے میں بھی تصرف ہوا ہے۔ لیکن ان تصرفات کے باوجود تمام روایات پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے۔ ذیل میں وہ نکات پیش کیے جاتے ہیں جو ہمیں اس بات کی طرف لے جاتے ہیں کہ یہ ایک ہی واقعہ کی مختلف حکایات ہیں جو تصرفات کی زد میں آکر بدل گئی ہیں۔
۱۔ پہلے سوال کے ساتھ بھی بیاضی قبیلے کے آدمی کانام ہے اور دوسرے سوال کے ساتھ بھی صحیح ابن خزیمہ کی اس روایت میں دیکھیے کہ سیدہ عائشہ اسی آدمی کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جو ظہار کے واقعے میں سائل ہے:

عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ: کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِيْ ظِلٍّ فَارِعٍ، فَأَتَاہُ رَجُلٌ مِنْ بَنِيْ بَیَاضَۃَ، فَقَالَ: یَا نَبِيَّ اللّٰہِ، احْتَرَقْتُ، قَالَ لَہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’مَا لَکَ‘‘؟ قَالَ: وَقَعْتُ بِامْرَأَتِيْ وَأَنَا صَاءِمٌ وَذٰلِکَ فِيْ رَمَضَانَ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’أَعْتِقْ رَقَبَۃً‘‘، قَالَ: لَا أَجِدُہُ....(صحیح ابن خزیمہ، رقم ۱۹۴۷) ۸؂

اس روایت (خط کشیدہ الفاظ) سے پتا چلتا ہے کہ ظہار والا قصہ اور روزے میں جماع والا قصہ ایک ہی قبیلے کے آدمی کا ہے۔ واقعے کی باقی تفصیلات دلالت کرتی ہیں کہ قصہ ایک ہی آدمی کا ہے، یعنی ابن صخر البیاضی کا ، جو کہ بنی بیاضہ میں سے ہونے کی وجہ سے بیاضی کہلاتا تھا۔سنن ترمذی کی مذکورہ بالا روایت ظہار کے الفاظ یوں ہیں: أَنَّ سَلْمَانَ بْنَ صَخْرٍ الأَنْصَارِيَّ، أَحَدَ بَنِيْ بَیَاضَۃَ(رقم ۱۲۰۰)۔ سنن ابن ماجہ میں ظہار کا واقعہ شروع ہی یوں ہوتا ہے کہ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ صَخْرٍ الْبَیَاضِيِّ، قَالَ: کُنْتُ امْرَأً أَسْتَکْثِرُ مِنَ النِّسَاءِ(رقم ۲۰۶۲)۔ یعنی ابن صخر البیاضی سے روایت ہے...۔واضح رہے کہ سلمۃ اور سلمان میں بھی تصرف ہوا ہے: بعض روایتوں میں سلمان نام آیا ہے، بعض میں سلمۃ۔لیکن دونوں کے ساتھ ابن صخر ہی آیا ہے۔ سلمہ اور سلمان صوتی مماثلت کی بنا پر اشتباہ پیدا کرسکتے ہیں، جو اس تصرف کا باعث بنا ہوگا۔
۲۔کفارہ جو بتایا جاتا رہا ہے ، وہ چونکہ ظہار کا ہے، اس لیے ان روایتوں کو جن میں ظہار کا ذکر نہیں ہوا ، انھیں بھی ظہار کے تحت ہی لینا ہوگا۔ اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہونے کی حیثیت سے حکم دینے کے مجاز تھے، اور ہم پر ان کے حکم کی تعمیل واجب ہے۔لیکن چونکہ روایتوں کے تصرف سے سوال پیدا ہو گیا ہے، اس لیے ذہن میں یہ اشکال اٹھتا ہے کہ رزہ توڑنے اور ظہار میں وہ کیا مماثلت ہے کہ جس کی بنا پر دونوں کا کفارہ ایک ہی کردیا گیا ہے؟ اس سوال کا جواب صرف یہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا، یہ تصرفات کے نتیجے میں مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
۳۔اس واقعے سے پہلے اور بعد میں کہیں روزہ توڑنے کا کفارہ نہیں بتایا گیا،لیکن بیاضی جب سوال کے لیے آتا ہے تو اس کا شدتِ تاثر یہ بتا رہا ہے کہ وہ کسی بڑے کفارے ہی کا خیال کرکے آرہا ہے۔ کسی روایت میں یہ ہے کہ وہ ’ہلکت و أہلکت‘ کہتا ہوا آتا ہے، کسی میں بال نوچتا ہوا (جَاءَ رَجُلٌ یَنْتِفُ شَعَرَہُ) آتا ہے ، جو یہ بتا رہا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اب سخت کفارے کا سامنا ہے۔ لہٰذا ان روایتوں کا سائل روزہ توڑنے نہیں، بلکہ ظہار کے کفارے ہی کے بوجھ سے پریشان ہے۔اس واقعے کے علاوہ روزے کے کفارہ کا ذکر نہ ہونا بذاتِ خود ایک اہم سوال ہے۔
۴۔ الفاظ کے تغیر سے قطع نظر، کفارے کا پورا مکالمہ جسں میں آپ پہلے غلام آزاد کرنے کا کہتے ہیں، وہ کہتا ہے کہ میرے پاس غلام نہیں ہے، پھر آپ اسے ساٹھ روزوں کا کہتے ہیں ، وہ اس کی استطاعت کا انکار بھی کرتا ہے، پھر آپ اسے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا کہتے ہیں، وہ اس کی گنجایش سے بھی انکار کرتا ہے، پھر کھجور یں دی جاتی ہیں اور مساکین کو کھلانے سے انکار کرتا ، اوراپنے آپ کو سب سے زیادہ محتاج بتاتا ہے، ان سب روایتوں میں اتنا ملتا جلتا ہے کہ انھیں دو یا تین واقعات شمار کرنا ناممکن لگتا ہے۔
۵۔ بعض روایتوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو روزہ توڑنے کا کفارہ بتانے کے بجاے قضا کے لیے صرف ایک روزہ رکھنا ہی بتایا ہے۔ لیکن اس روایت کا غلبہ اتنا زیادہ ہوا کہ دوسری روایات کے صحیح ہونے کے باوجود وہ فراموش ہی رہی ہیں۔ ۹؂ روایت کے الفاظ یہ ہیں:

عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ،۱۰؂ وَقَالَ: ’’وَصُمْ یَوْمًا مَکَانَہُ‘‘.(سنن ابن ماجہ رقم ۱۶۷۱) ۱۱؂

اسی طرح یہ روایت دیکھیے:

عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَقَعَ بِأَہْلِہِ فِيْ رَمَضَانَ، فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ. وَقَالَ فِيْ آخِرِہِ: ’’فَصُمْ یَوْمًا وَاسْتَغْفِرِ اللّٰہَ‘‘. (صحیح ابن خزیمہ، رقم ۱۹۵۴)۱۲؂ 

ان روایات سے واضح ہے کہ رمضان میں ہونے والے اس واقعے کے پیچھے معاملہ کچھ اور ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے بخاری میں حدیث رقم ۱۹۳۵ سے پہلے ایک نوٹ لکھا ہے، جس میں انھوں نے ابوہریرہ کی مرفوع روایت کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

وَیُذْکَرُ عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رَفَعَہُ: ’’مَنْ أَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ وَلاَ مَرَضٍ، لَمْ یَقْضِہِ صِیَامُ الدَّہْرِ وَإِنْ صَامَہُ‘‘ وَبِہِ قَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ وَقَالَ سَعِیْدُ بْنُ المُسَیِّبِ، وَالشَّعْبِیُّ، وَابْنُ جُبَیْرٍ، وَإِبْرَاہِیْمُ، وَقَتَادَۃُ، وَحَمَّادٌ: ’’یَقْضِيْ یَوْمًا مَکَانَہُ‘‘.

’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے مرفوع روایت بیان کی ہے کہ جس نے بغیر کسی عذر اور بغیر کسی مرض کے رمضان کا ایک روزہ توڑا، تو اگر وہ تمام عمر روزے رکھے تو تب بھی اس کا کفارہ ادا نہ ہوگا، بس اتنا ہے کہ وہ اس کی جگہ ایک دن کا روزہ رکھ کر قضا کرلے۔ یہی راے ابن مسعود، سعید بن المسیب، شعبی، ابن جبیر، ابراہیم، قتادہ اور حماد وغیرہ کی تھی۔‘‘

اب دونوں کے درمیان تطبیق دینا ہوگی۔ میرے خیال میں اس شخص نے سحری کے بعد رات کے وقت ہی بیوی سے جماع کیا ہوگا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہار کا کفارہ اور روزے کی قضا، دونوں کا حکم دیا ہوگا۔
۶۔ سعید بن المسیب (۱۵ھ ۔ ۹۴ھ) جو ان روایتوں کے ایک راوی ہیں، انھوں نے ۹۴ ہجری میں وفات پائی، گویا اوائل زمانے کے ہیں۔ مدینہ کے جید علما میں سے ہیں۔ مدینہ کے علما کا حدیث نبوی سے اشتغال سب کو معلوم ہے۔ کثرتِ مرویات کے اعتبار سے غالباً چوتھے نمبر پر آتے ہیں۔ حدیث اور دین کے جید عالم ہیں۔ان کی مرویات میں زیادہ تعداد ابو ہریرہ سے ہے، یہ قصۂ کفارہ ابوہریرہ بھی روایت کرتے ہیں، اور ابوہریرہ ہی سے یہ واقعہ ابن المسیب نے روایت بھی کیا ہے ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے بدلے غلام آزاد کرنے یا کوئی چیز صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا؟ وہ کہتے ہیں کہ نہیں آپ نے تو صرف ایک دن کی قضا کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ اثر بہت سے حوالوں میں آیا ہے:

عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ، فِي الَّذِي یَقَعُ عَلٰی أَہْلِہِ فِيْ رَمَضَانَ، قَالَ: قَالَ لَہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’أَعْتِقْ رَقَبَۃً‘‘، قَالَ: لَا أَجِدُ قَالَ: ’’فَتَصَدَّقْ بِشَیْءٍ‘‘، قَالَ: لَا أَعْلَمُہُ إِلَّا قَالَ: ’’فَاقْضِ یَوْمًا مَکَانَہُ‘‘.(مصنف عبدالرزاق، رقم ۷۴۶۶) 
’’ابن المسیب سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو رمضان میں بیوی سے ملاقات کر بیٹھا تھا کہ آیا نبی کریم نے اس سے کہا تھا کہ ایک غلام آزاد کرو، ابن المسیب کہتے ہیں کہ میں ایسی کوئی بات نہیں پاتا، سائل نے پوچھا کہ آیا صدقہ کا حکم دیا گیا تھا؟ ابن المسیب کہتے ہیں کہ میرے علم میں ایسی بھی کوئی بات نہیں ۔ مجھے بس یہ پتا ہے کہ آپ نے اس سے کہا تھا کہ اس کی جگہ ایک دن کا روزہ رکھ کر قضا کرو۔‘‘

ابن المسیب اس واقعہ کی روایات کے راوی بھی ہیں:

عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ، وَعَنِ الزُّہْرِيِّ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ یَنْتِفُ شَعَرَہُ، وَیَدْعُوْ وَیْلَہُ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’مَا لَکَ‘‘؟ قَالَ: وَقَعَ عَلَی امْرَأَتِہِ فِيْ رَمَضَانَ، قَالَ: ’’أَعْتِقْ رَقَبَۃً‘‘....(مسند احمد، رقم ۶۹۴۴)

اب سوال یہ ہے کہ ایک طرف وہ اس روایت کو بیان کررہے ہیں جس میں حالتِ صوم میں بیوی سے جماع کا کفارہ ظہار کے کفارے کے برابر ہے اور دوسری طرف وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کو ایک ہی دن کا روزہ رکھنے کا حکم ہوا تھا۔ اب دو صورتیں ممکن ہیں: ایک یہ کہ یہ مانا جائے کہ سعید ابن المسیب کی ایسی تمام روایات کی سند خودساختہ ہو، یعنی ابن المسیب کا نام خود سے شامل کرلیا گیا ہویا فتویٰ ان کا نہ ہو ۔دوسرا یہ امکان ہے کہ ان کے سامنے تصرفات سے پہلے کا پورا واقعہ ہو جس کی روشنی میں وہ یہ تطبیق کرتے ہوں گے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہار کا کفارہ بھی بتایا ، اور چونکہ اس نے جماع روزے کی حالت میں کیا تھا تو روزے کی قضا کا حکم بھی دیا کہ وہ ایک روزہ رکھ کر روزے کی قضا بھی کرے، اس لیے کہ دونوں طرح کی روایات موصول ہوئی ہیں، ظہار کے برابر کفارے والی بھی اور ایک دن کی روزے کی قضا والی بھی، جیسے کہ اوپربیان ہو چکا ہے۔
یہی بات قرآن کے مطابق ہے۔ قرآن مجید نے رمضان کے ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کا کھانا کھلانا رکھا تھا، اور ایک روزے کی قضاایک دن کے روزے سے کرنے کا ضابطہ دیا ہے ۔اپنی نوع کے اعتبار سے بلا عذر روزہ چھوڑنے اور روزہ توڑنے، دونوں میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے، بلکہ عقل تقاضا کرتی ہے کہ توڑنے والے کوروزے کی مشقت نے مجبور کیا ہو گا، اس لیے اس کے ساتھ معاملہ نرم ہونا چاہیے ۔ہمارے ذہنوں میں روزہ توڑنے کی شدت اسی روایت سے بنی ہے ، جو اس وقت زیر بحث ہے۔اس کے علاوہ کسی حدیث میں یہ کفارہ نہیں بتایا گیا ۔ گویا یہ غریب مضمون ہے ۔سنن ترمذی کی ایک روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو توڑنے پر کوئی سختی نہیں کی:

عَنْ أُمِّ ہَانِيأ قَالَتْ: کُنْتُ قَاعِدَۃً عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ مِنْہُ، ثُمَّ نَاوَلَنِيْ فَشَرِبْتُ مِنْہُ، فَقُلْتُ: إِنِّيْ أَذْنَبْتُ فَاسْتَغْفِرْ لِيْ، فَقَالَ: ’’وَمَا ذَاکِ‘‘؟ قَالَتْ: کُنْتُ صَاءِمَۃً، فَأَفْطَرْتُ، فَقَالَ: ’’أَمِنْ قَضَاءٍ کُنْتِ تَقْضِیْنَہُ‘‘، قَالَتْ: لَا، قَالَ: ’’فَلَا یَضُرُّکِ‘‘. ۱۳؂ (ترمذی، رقم۷۳۱۔ ابو داؤد، رقم ۲۴۵۶)

’’ام ہانی فرماتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھی کہ آپ کے پاس کوئی مشروب لایا گیا، جس میں سے آپ نے نوش فرمایا، پھر آپ نے وہ مجھے پکڑا دیا تو میں نے بھی اس میں سے پیا، پھر میں نے آپ سے کہا کہ میں گناہ کر بیٹھی ہوں، آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں، آپ نے دریافت فرمایا: کیسا گناہ؟ انھوں نے کہا :میں روزے سے تھی تو ابھی میں نے روزہ توڑ لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم روزے کی قضا کررہی تھیں؟ کہنے لگیں: نہیں، فرمایا: پھر کوئی مضائقہ نہیں ہے۔‘‘

۷۔ ساٹھ روزوں والی روایت کے مشہور ہونے سے پہلے یا اس کی موجودگی کے علی الرغم صحابہ و تابعین کے فتاویٰ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ روزہ توڑنے پر بس ایک ہی دن کی قضا کا کہتے تھے۔ مثلاً مصنف عبد الرزاق میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک فیصلہ ملتا ہے:

عَنْ بِشْرِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ: کُنَّا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِيْ رَمَضَانَ، وَالسَّمَاءُ مُغَیَّمَۃٌ، فَأُتِيَ بِسَوِیْقٍ وَطَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: مَنْ أَفْطَرَ فَلْیَقْضِ یَوْمًا مَکَانَہُ. (رقم ۷۳۹۴)
’’بشر بن قیس کہتے ہیں کہ ہم رمضان میں حضرت عمر بن الخطاب کے ہمراہ تھے، جب کہ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ، تو ستُّو لائے گئے ۔ پھر کیا دیکھتے ہیں کہ (بادل چھٹ گئے اور) سورج روشن ہو گیا، تو حضرت عمر نے فرمایا کہ جس نے روزہ کھول لیا تھا، وہ بعد میں ایک دن کی قضا کرے گا۔‘‘

اس واقعہ میں حضرت عمر نے بادلوں کی وجہ سے روزہ افطار کرنے کو خطا پر محمول نہیں کیا، بلکہ اسے روزہ توڑنے کے مترادف سمجھا ہے، مگر کفارے کا حکم نہیں لگایا، بلکہ وہی قرآن کے حکم کے مطابق بس ایک دن کی قضا کا فیصلہ دیا ہے۔اگر وہ اسے خطا پر محمول کرتے تو قضا کا بھی حکم نہ دیتے۔
ابن عباس کا فتویٰ یوں ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: ’’إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُکُمْ صَاءِمًا فَبَدَا لَہُ أَنْ یُّفْطِرَ فَلْیَصُمْ یَوْمًا مَکَانَہُ أَوْ قَالَ مَکَانَہُ یَوْمًا‘‘.(سنن الکبریٰ للبیہقی، رقم ۸۳۷۲) 
’’ابن عباس نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو، اور دن چڑھ جائے ، پھراسے محسوس ہو کہ روزہ توڑنا پڑے گا(تو وہ توڑ لے)،مگرپھر بعد میں اس کی جگہ ایک دن کا روزہ رکھے۔‘‘

مصنف ابن ابی شیبہ میں سعید بن جبیر ۱۴؂ کا ایک اثر نقل ہوا ہے۔ انھوں نے رمضان کا روزہ توڑنے کے کفارہ کا انکار کیا ہے اور قضا کرنے کا بتایا ہے:

عَنْ یَعْلَی بْنِ حَکِیْمٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لَہُ: رَجُلٌ أَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا، مَا کَفَّارَتُہُ؟ قَالَ: مَا أَدْرِیْ مَا کَفَّارَتُہُ، ذَنْبٌ أَصَابَہُ، یَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ، وَیَقْضِيْ یَوْمًا مَکَانَہُ.(رقم ۱۲۵۷۸)
’’یعلیٰ بن حکیم سعید بن جبیر کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان سے میں نے پوچھا کہ جو آدمی رمضان میں عمدًا روزہ توڑ لے، اس کا کیا کفارہ ہے، انھوں نے کہا: میں کفارہ وغیرہ تو کچھ نہیں جانتا، بس اتنا ہے کہ اس نے ایک گناہ کیا ہے، اللہ سے توبہ کرے اور ایک دن کا روزہ رکھ کر قضا کرے۔‘‘

ان کی وفات تقریباً ۹۵ ہجری میں ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک ساٹھ روزوں والی حدیث یا تغیر سے محفوظ تھی یا مشہور نہیں ہوئی تھی۔ متعدد صحابہ نے یوم عرفہ کے نفلی روزہ توڑنے والے کو ایک ہی روزہ رکھنے کا فتویٰ دیا:

عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیْرِیْنَ، أَنَّہُ صَامَ یَوْمَ عَرَفَۃَ، فَعَطِشَ عَطَشًا شَدِیْدًا فَأَفْطَرَ، فَسَأَلَ عِدَّۃً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرُوْہُ أَنْ یَقْضِيَ یَوْمًا مَکَانَہُ.(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۹۰۹۳)۱۵؂ 
’’انس بن سیرین سے روایت ہے کہ انھوں نے یوم عرفہ کا روزہ رکھا، مگر پھر پیاس کی شدت محسوس کی تو روزہ توڑ لیا۔ انھوں نے متعدد صحابہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو سب نے یہی کہا کہ اس کی جگہ ایک روزہ رکھ کر قضا کرلینا۔‘‘

امام محمد رحمہ اللہ کے سامنے بھی شاید اس قصے کے تمام طرق تھے، اس لیے ان کا موطا امام محمد میں فتویٰ یوں رقم ہے:

عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَجُلَا أَفْطَرَ فِيْ رَمَضَانَ، فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُکَفِّرَ بِعِتْقِ رَقَبَۃٍ، أَوْ صِیَامِ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ، أَوْ إِطْعَامِ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ، قَالَ: لَا أَجِدُ، فَأُتِيَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ مِنْ تَمْرٍ، فَقَالَ: ’’خُذْ ہٰذَا فَتَصَدَّقْ بِہِ‘‘، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، مَا أَجِدُ أَحَدًا أَحْوَجَ إِلَیْہِ مِنِّیْ، قَالَ: ’’کُلْہُ‘‘،

قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِہٰذَا نَأْخُذُ إِذَا أَفْطَرَ الرَّجُلُ مُتَعَمِّدًا فِيْ شَہْرِ رَمَضَانَ بِأَکْلٍ، أَوْ شُرْبٍ، أَوْ جِمَاعٍ فَعَلَیْہِ قَضَاءُ یَوْمٍ مَکَانَہُ، وَکَفَّارَۃُ الظِّہَارِ أَنْ یَعْتِقَ رَقَبَۃً، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ، فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ، أَطْعَمَ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا.... (موطا روایۃ محمد بن الحسن الشیبانی، رقم۳۴۹)

’’(طوالت سے بچنے کے لیے پہلے پیرے کا ترجمہ نہیں کررہا ہوں، کیونکہ وہی واقعہ ہے اس واقعے کے بعد امام محمد کا فتویٰ ہے)۔امام محمد کہتے ہیں کہ ہم اس سے یہ راے اخذ کرتے ہیں کہ جب کوئی رمضان میں عمدًا روزہ توڑلے، خواہ کچھ کھا کر، پی کر یا جماع کرکے تو اس پر ایک دن کا روزہ ہے، اور ظہار کا کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کرے ، نہ ہو تو دو ماہ کے روزے رکھے، نہ کرسکے تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے ...۔‘‘

ان شواہد کے ہوتے ہوئے یہ بات بہت واضح ہوجاتی ہے کہ ہماری زیر بحث حدیث میں روزہ توڑنے کا نہیں، بلکہ ظہار کا کفارہ بتایا گیا ہے۔روزہ توڑنے کا کفارہ کوئی بیان نہیں ہوا۔ جیسا کہ اوپر مذکور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک روزے کے بدلے ایک روزہ کی قضا کی جائے گی،جو کہ قرآن مجید کے عین مطابق ہے ۔حکم میں یہ تبدیلی متون میں تصرف سے آئی ہے۔ایسی روایات کی کثرت آپ کو ملے گی کہ جس میں سیاق و سباق حذف ہو گیا ہو گا، اس لیے کہ بسا اوقات آدمی یہ سمجھ کر بات بیان کررہا ہوتا ہے کہ سامع کو واقعہ کی باقی تفصیل معلوم ہی ہے،اس لیے وہ ضروری حصہ بیان کرنے پر اکتفا کردیتا ہے۔لہٰذا حدیث کے طرق میں سے ہر متن سے حکم نکالنا صحیح نہیں ہے، بلکہ اسے تمام احادیث کی روشنی میں سمجھنا چاہیے تاکہ اصل اور مکمل بات کا تعین ہو، اور ہم اصل حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ سکیں۔
یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارہ کو معاف نہیں کیا، جیسا کہ اکثر لوگوں نے سمجھا ہے، بعض تعمیم کرنے سے ڈرے اور انھوں نے کہا کہ یہ معافی اس آدمی کے ساتھ خاص ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ بھی تصرفات سے پیدا ہواہے۔ تمام طرق اکٹھے کرکے جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ جب آپ نے کفارے کی تینوں صورتوں کے لیے اس آدمی میں استطاعت نہیں پائی تو ساٹھ مساکین کے کھانا کھلانے میں آپ نے ریاست کی طرف سے مدد کی۔ گویا اسے بیت المال سے دیا گیا تاکہ وہ اپنا کفارہ ادا کرسکے۔روایتوں میں یہ الفاظ بھی منتقل ہوئے ہیں: ’خُذْ ہٰذَا فَأَطْعِمْہُ عَنْکَ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘۔یعنی یہ کھجوریں لے لو، اوراپنی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو۔بلاشبہ بعض میں بس اتنا آیا ہے کہ ’أَطْعِمْہُ عِیَالَکَ‘ تم اپنے گھر والوں کو کھلادو۔ لگتا ہے کہ یہ بھی تصرف ہے، دونوں باتیں ہوں گی کہ ساٹھ مساکین کو کھلاؤ، اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاؤ۔ یہی حل آپ نے خولہ بنت ثعلبہ کے شوہر اوس بن صامت کے لیے تجویز کیا تھا:

عَنْ خُوَیْلَۃَ بِنْتِ مَالِکِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ قَالَتْ: ظَاہَرَ مِنِّيْ زَوْجِيْ أَوْسُ بْنُ الصَّامِتِ، فَجِءْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَشْکُوْ إِلَیْہِ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُجَادِلُنِيْ فِیْہِ، وَیَقُوْلُ: اتَّقِي اللّٰہَ فَإِنَّہُ ابْنُ عَمِّکِ، فَمَا بَرِحْتُ حَتّٰی نَزَلَ الْقُرْآنُ: ’’قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِھَا‘‘ (المجادلۃ ۵۸: ۱)، إِلَی الْفَرْضِ، فَقَالَ: ’’یُعْتِقُ رَقَبَۃً‘‘، قَالَتْ: لَا یَجِدُ، قَالَ: ’’فَیَصُوْمُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘‘، قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّہُ شَیْخٌ کَبِیْرٌ مَا بِہِ مِنْ صِیَامٍ، قَالَ: ’’فَلْیُطْعِمْ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘‘، قَالَتْ: مَا عِنْدَہُ مِنْ شَيْءٍ یَتَصَدَّقُ بِہِ، قَالَتْ: فَأُتِيَ سَاعَتَءِذٍ بِعَرَقٍ۱۶؂ مِنْ تَمْرٍ، قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، فَإِنِّيْ أُعِیْنُہُ بِعَرَقٍ آخَرَ، قَالَ: ’’قَدْ أَحْسَنْتِ، اذْہَبِيْ فَأَطْعِمِيْ بِہَا عَنْہُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا، وَارْجِعِيْ إِلَی ابْنِ عَمِّکِ‘‘.(سنن ابی داؤد، رقم۲۲۱۴)۱۷؂ 
’’خولہ بنت ثعلبہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر اوس بن صامت نے مجھ سے ظہار کر لیا، تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کر آئی، نبی اکرم اس معاملے میں مجھے سمجھاتے بجھاتے، اور کہتے کہ اللہ سے ڈرو وہ تمھارے چچا زاد ہیں، میں اصرار کرتی رہی، یہاں تک کہ سورۂ مجادلہ کی ابتدائی آیات: ’قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا...‘ کفارے کے قانون تک نازل ہوئیں۔تو آیات نازل ہونے پر آپ نے فرمایا کہ اوس کو چاہیے کہ وہ ایک غلام آزاد کردے، خولہ نے کہا کہ اس کے پاس غلام نہیں ہے، آپ نے فرمایا کہ پھر دو ماہ کے روزے رکھ لے، خولہ نے کہا: یارسول اللہ، وہ بہت بوڑھے ہیں، روزے کی طاقت کہاں! آپ نے فرمایا: پھر اسے چاہیے کہ ساٹھ مساکین کو کھانا کھلادے۔ خولہ نے کہا: اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہے کہ اسے صدقہ کرسکے۔ خولہ کہتی ہیں کہ اسی وقت کھجور کا ایک بوریا لایا گیا ۔تو خولہ کہتی ہیں: میں نے آپ سے کہا کہ میں ایک دوسرے بوریے سے اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں،آپ نے فرمایا: بہت خوب، جاؤ، اور اپنی کھجوروں سے اپنے خاوند کی جانب سے ساٹھ مساکین کو کھلا دو، اور اپنے چچا زاد کی طرف رجوع کرلو، (یعنی ظہارسے رجوع)۔‘‘

یعنی مدد کی رقم سے کفارہ ادا کرایا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اہمیت قائم رہے۔دونوں واقعات میں آپ نے یہی حل تجویز فرمایا ہے۔
مختصراًیہ کہ ان احادیث کے مطابق ایک شخص نے روزے کی حالت میں ظہار کی خلاف ورزی کی تھی، یعنی اس نے دو گناہ کیے تھے: ایک ظہار کی خلاف ورزی اور دوسرے روزہ توڑنا۔جس پرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حکم دیے ایک ظہار کا کفارہ ادا کرنے کا اور دوسرا رمضان کے بعد ایک روزہ رکھ کر روزے کی قضا کا۔ لیکن تصرفات کی وجہ سے روایات کا سیاق و سباق حذف ہو گیا ، چنانچہ حکم ہی بدل کر رہ گیا۔ واللّٰہ أعلم بحقیقۃ الأمر۔
[باقی]

_____

* اس مضمون کی تیسری قسط ’’متن حدیث میں ہمارے تصرفات‘‘ کے زیر عنوان اپریل ۲۰۱۷ء کے شمارے میں شائع ہو چکی ہے۔

۱؂ المعجم الاوسط، رقم ۱۷۸۷ میں الفاظ یوں ہیں: ’إِنِّيْ أَفْطَرْتُ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا، وَوَقَعْتُ عَلٰی أَہْلِيْ فِیْہِ‘، اور مسند ابی یعلیٰ رقم ۶۳۹۳ میں الفاظ یوں ہیں: ’وَقَعْتُ عَلٰی أَہْلِيْ وَأَنَا صَاءِمٌ‘۔
۲؂ ترمذی کے حاشیہ کے مطابق ان کا نام بعض روایتوں میں سلمہ بن صخر البیاضی بھی آیا ہے ۔
۳؂ خود امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور الالبانی نے اسے صحیح قراردیا ہے۔ صحیح سند کے ساتھ اس کے متعدد طرق ہیں۔ 
۴؂ ناصر الدین الالبانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اور شیخ الارنؤوط نے اس پر یہ تبصرہ کیا ہے: ’حدیث صحیح بطرقہ وشاہدہ. وہذا إسناد ضعیف، محمَّد بن إسحاق مدلس وقد عنعن، وسلیمان بن یسار لم یسمع من سلمۃ بن صخر‘.
۵؂ یہ غالباً اس آیت کے پیش نظر کہا گیا: ’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْءَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَاِنْ تَسْءَلُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْھَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ‘. (المائدہ ۵: ۱۰۱)
۶؂ اس روایت کے بارے میں مسند کے نسخہ، جو دمشق سے طبع ہوا ہے، کے محقق حسین سلیم اسد کا کہنا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔ المعجم الاوسط کے مصنف نے یہ کہا کہ حبیب بن ابی ثابت سے ہارون اس روایت میں منفرد ہیں۔
۷؂ چوتھا سوال بھی بن سکتا ہے، وہ یہ کہ بیوی سے جماع کا عمل حالت اعتکاف میں ہوا۔ یہ مصنف عبدالرزاق کی مروی روایت میں بیان ہوا ہے۔ اس کا متن مع سند یہ ہے: 
عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ، قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ فِي الَّذِيْ یَقَعُ عَلَی امْرَأَتِہِ وَہُوَ مُعْتَکِفٌ؟ فَقَالَ: ’’یَعْتِقُ رَقَبَۃً، وَإِنْ لَّمْ یَجِدْ فَیَصُوْمُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ، فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘‘؟(رقم ۸۰۸۰) 
۸؂ بیروت سے طبع شدہ صحیح ابن خزیمہ کے محقق محمد مصطفی الاعظمی نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
۹؂ امام مالک رحمہ اللہ کی راے بھی کچھ ایسی ہی ہے، موطا میں لکھتے ہیں: 
سَمِعْتُ أَہْلَ الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ: لَیْسَ عَلٰی مَنْ أَفْطَرَ یَوْمًا فِيْ قَضَاءِ رَمَضَانَ بِإِصَابَۃِ أَہْلِہِ نَہَارًا أَوْ غَیْرِ ذٰلِکَ، الْکَفَّارَۃُ الَّتِيْ تُذْکَرُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیمَنْ أَصَابَ أَہْلَہُ نَہَارًا فِيْ رَمَضَانَ. وَإِنَّمَا عَلَیْہِ قَضَاءُ ذٰلِکَ الْیَوْمِ. قَالَ مَالِکٌ: ’’وَہٰذَا أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ فِیْہِ إِلَيَّ‘‘. (موطا امام مالک، رقم۲۹)
۱۰؂ اس ’بذلک‘ کا اشارہ سنن ابن ماجہ میں اس سے متصلاً پہلے مذکور اسی روایت کی طرف ہے جو اس وقت زیر مطالعہ ہے ۔ اس روایت کا متن یوں ہے:
عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: ہَلَکْتُ، قَالَ: ’’وَمَا أَہْلَکَکَ؟‘‘ قَالَ: وَقَعْتُ عَلَی امْرَأَتِيْ فِيْ رَمَضَانَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’أَعْتِقْ رَقَبَۃً‘‘، قَالَ: لَا أَجِدُ. قَالَ: ’’صُمْ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘‘، قَالَ: لَا أُطِیْقُ. قَالَ: ’’أَطْعِمْ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘‘، قَالَ: لَا أَجِدُ. قَالَ: ’’اجلِسْ‘‘ فَجَلَسَ، فَبَیْنَا ہُوَ کَذٰلِکَ إِذْ أُتِيَ بِمِکْتَلٍ یُدْعَی الْعَرَقَ، فَقَالَ: ’’اذْہَبْ فَتَصَدَّقْ بِہِ‘‘، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَالَّذِيْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، مَا بَیْنَ لَابَتَیْہَا أَہْلُ بَیْتٍ أَحْوَجُ إِلَیْہِ مِنَّا، قَالَ: ’’فَانْطَلِقْ فَأَطْعِمْہُ عِیَالَکَ‘‘.(رقم ۱۶۷۱)
۱۱؂ شیخ شعیب الارنؤوط نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ سنن ابن ماجہ کے علاوہ یہ حدیث بہت سے ضعیف وصحیح طرق میں مصنف عبدالرزاق، سنن ابی داؤد، مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں آئی ہے۔
۱۲؂ علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ دوسری روایتوں سے بھی اس مضمون کی تائید ہوتی ہے۔ ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو وہم قرار دیا تھا، علامہ البانی اس کا جواب دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: 
الحدیث صحیح فإن ہشام بن سعد حسن الحدیث وہو وإن کان وہم في الإسناد کما بینہ المؤلف لمخالفتہ الثقات فإن اللفظۃ التي جاء بہا في الأمر بالقضاء لم یتفرد بہا فقد جاء ت من طرق أخری یقوی بعضہا بعضًا کما قال الحافظ في الفتح وقد کنت خرجتہا في تعلیقي علی رسالۃ الصیام لابن تیمیۃ وفاتني ہناک ہذا الشاہد الذي ساقہ المصنف بعدہ من روایۃ عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ صرح فیہ الحجاج بن أرطاۃ في بعض الطرق بالتحدیث فہو شاہد قوي لا یدع مجالًا للشک في ثبوت ہذہ الزیادۃ. (صحیح ابن خزیمہ، طبع شدہ المکتب الاسلامی، بیروت)
۱۳؂ ناصر الدین الالبانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس روایت کا یہ جملہ کہ ’أَمِنْ قَضَاءٍ کُنْتِ تَقْضِیْنَہُ‘ اہم ہے ۔اس مضمون کی بہت سی ضعیف روایات میں پوری بات نقل ہوئی ہے کہ اگر قضا کررہی تھیں تو قضا بعد میں ایک ہی روزے سے پوری کرلیں اور اگر قضا نہیں یونہی ایک نفلی روزہ تھا تو بس پھر قضا کی بھی ضرورت نہیں ہے۔لیکن اس مضمون کا کوئی طرق مجھے صحیح روایت کی شکل میں نہیں مل سکا، اس لیے میں نے اسے پیش نہیں کیا۔
۱۴؂ سعید بن المسیب کاایک فتویٰ یہ نقل ہوا ہے کہ ہررمضان کے روزے کے بدلے ایک ماہ کے روزے رکھے جائیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۹۷۸۰۰)۔ واضح رہے کہ انھی کے حوالے سے مصنف عبد الرزاق کا اثر یہ نقل ہوا ہے کہ وہ اس آدمی کے کفارہ کے بارے میں جو رمضان میں بیوی سے جماع کربیٹھا تھا، صرف اتنا جانتے ہیں کہ اسے ایک روزہ رکھنے کا کفارہ بتایا گیا تھا۔

۱۵؂ یہ چونکہ اثر ہے حدیث نہیں ہے، اس کی صحت کے لیے حدیث جیسی تحقیق سند کی ضرورت نہیں ہے، لیکن شیخ ارنؤوط وغیرہ نے مسند احمد کی روایت ۲۵۰۹۵کے تحت ابن شیبہ کی اس روایت کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔
۱۶؂ واضح رہے کہ عَرق نامی بوری میں اتنی کھجور آجاتی ہے جو بہ آسانی ساٹھ مساکین کا کھانا بن جاتا تھا۔
۱۷؂ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت ستمبر 2017
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Nov 07, 2018
2509 View