قرآن کا موضوع - جاوید احمد غامدی

قرآن کا موضوع

 قرآن کے بارے میں یہ بات اس کا ایک عام قاری بھی بہت آسانی کے ساتھ جان سکتا ہے کہ اس کا موضوع صرف وہ حقائق ہیں جن کو ماننے اور جن سے پیدا ہونے والے تقاضوں کو پورا کرنے ہی پر انسان کی ابدی فلاح کا انحصار ہے۔ وہ انھی حقائق کو انفس و آفاق اور تاریخ کے دلائل سے ثابت کرتا ہے، بنی آدم کو انھیں ماننے کی دعوت دیتا ہے، ان کو جھٹلا دینے کے نتائج سے انھیں خبردار کرتا ہے اور ان سے جو تقاضے پیدا ہوتے ہیں، ان کی شرح و وضاحت کرتا ہے۔ ان کے علاوہ کسی چیز سے اسے بحث نہیں ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے وہ عالم طبیعی کے بارے میں بھی اگر کچھ کہتا ہے تو اس کا بیان کبھی حقیقت کے خلاف نہیں ہوتا، لیکن اس عالم کے متعلق جو علوم و فنون انسان کی عقل نے دریافت کیے ہیں اور جو وہ آنے والے زمانوں میں دریافت کرے گی، انھیں قرآن مجید کبھی زیر بحث نہیں لاتا۔ اس طرح کی کوئی چیز سرے سے اس کا موضوع ہی نہیں ہے۔
لیکن اسے کیا کہیے کہ اس امت کی تاریخ میں بارہا لوگ اس کتاب کو اس کی اس اصلی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ چنانچہ انھوں نے پہلے یہ مقدمہ قائم کیا کہ یہ چونکہ اللہ کی کتاب ہے، اس لیے دنیا کے سارے علوم و فنون اس میں لامحالہ ہونے چاہییں۔ اس کے بعد وہ اپنے اس مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے اس بات کے درپے ہوئے کہ کسی طرح ان علوم و فنون کے ماخذ اس کی آیات میں سے ڈھونڈ نکالے جائیں۔ چنانچہ زبان و بیان اور نظم کلام کی ہر دلالت کو نظرانداز کر کے کبھی فلسفۂ یونان کے اوہام اس سے ثابت کیے گئے، کبھی ایک خاص زمانے کی سائنسی معلومات کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ درحقیقت اس کی فلاں اور فلاں آیت سے اخذ کی گئی ہیں، کبھی علم طب اور نجوم و فلکیات کے بعض عقائد اس سے برآمد کیے گئے، اور کبھی انسان کے ایٹم بم بنانے اور چاند پر پہنچنے کا ذکر اس میں سے نکال کر دکھایا گیا۔
یہ ساری زحمت لوگوں کو صرف اس لیے اٹھانا پڑی کہ انھوں نے اس کتاب کے بارے میں بالکل غلط تصور قائم کر لیا۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھے کہ عالم کے پروردگار نے اس کتاب سے پہلے انسان کو عقل عطا کی ہے۔ جس طرح یہ کتاب پروردگار کی عنایت ہے، اسی طرح عقل بھی اسی کی عنایت ہے۔ چنانچہ جن معاملات میں عقل کی رہنمائی اس کے لیے کافی ہے، ان سے اس کتاب کو کوئی تعلق نہیں اور جن سے یہ کتاب بحث کرتی ہے، ان میں عقل اگر اپنے وجود ہی سے غافل نہ ہو جائے تو اس کی رہنمائی سے کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتی۔
یہ صرف قرآن مجید ہی کا معاملہ نہیں ہے، اللہ کے نبی نے اپنے بارے میں بھی یہ حقیقت اپنے ماننے والوں کو بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھائی ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کھجوروں میں گابھا دیتے ہوئے دیکھا توفرمایا: اس کے بغیر ہی ٹھیک ہے۔ انھوں نے اس سال گابھا نہیں دیا ۔ چنانچہ پھل بہت ردی آیا۔ لوگوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: تم اس طرح کے معاملات کو مجھ سے بہتر سمجھتے ہو۔ میں تمھیں اللہ کا دین بتانے آیا ہوں، اس لیے میری طرف صرف اسی کے لیے رجوع کیا کرو۔
ہم اگر قرآن مجید سے فی الواقع ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ اس کی طرف صرف دین کے حقائق و معارف جاننے کے لیے رجوع کریں۔ اپنے سونے کے لیے چارپائی بنانے اور اپنی آواز زہرہ و مریخ تک پہنچانے کے لیے ہمیں اپنی عقل کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس نے انسان کو اپنے دائرۂ عمل میں کبھی مایوس نہیں کیا۔
قرآن مجید ہم کو یہ بتانے کے لیے نازل کیاگیا ہے کہ اپنے پروردگار کی رضا ہم اس دنیا میں کن چیزوں کو مان کر اور کن چیزوں پر عمل کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس کی آیات میں اپنی خواہشوں کا مضمون پڑھنے کے بجائے اپنی خواہشوں کو اس کی پیروی کے لیے مجبور کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات قرآن میں جگہ جگہ واضح کی ہے کہ اس سے ہدایت حاصل کرنے کی پہلی شرط یہی ہے ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دنیا کے سارے علوم و فنون اسی ایک کتاب میں دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو، لیکن اس کی یہ خواہش اس حقیقت کو نہیں بدل سکتی کہ اس میں صرف اس علم کا بیان ہے جو انسان کی ابدی فلاح کے لیے ضروری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2006
مصنف : جاوید احمد غامدی