مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا - طالب محسن

مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا

  [ مسلم، رقم۹۸۔۱۰۰]

عَنِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السِّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا.
حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہما) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائے ،وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ سَلَّ عَلَیْنَا السَّیْفَ فَلَیْسَ مِنَّا.
حضرت ایاس بن سلمہ (رضی اللہ عنہ) اپنے والد گرامی سے روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے اوپر تلوار سونتی، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السِّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا.
حضرت ابو موسیٰ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

لغوی مباحث

فَلَیْسَ مِنَّا: اس کا لفظی مطلب ہے: ’’وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘ ۔لیکن یہاں اس سے مراد اس کے اہل اسلام سے تعلق کی نفی ہے۔ یہ نفی اپنے اندر کیا پہلو رکھتی ہے، اسے ہم تفصیل سے معنی کی بحث میں دیکھیں گے۔

معنی

قرآن مجید میں قتال اور قتل کا معاملہ زیر بحث آیا ہے۔ قتل کو قرآن مجید نے ایک بڑا جرم قرار دیا ہے۔ دنیا میں بھی اس کی سزا بیان کی ہے اور آخرت میں بھی قاتل کے لیے ابدی جہنم کی وعید ہے۔ ابدی جہنم کی سزا سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ قتل ایک ایسا جرم ہے جوکیے گئے اعمال صالح ہی نہیں، ایمان جیسی عظیم نیکی کی بھی نفی کر سکتاہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ یہ بات آخرت سے متعلق ہے ،اس کا دنیا کے حقوق و حیثیت سے تعلق نہیں ہے۔ دنیا میں اسے مسلمان ہی سمجھا جائے گا اور اسے وہ تمام حقوق حاصل رہیں گے جو ایک مسلمان کو حاصل ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خَالِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا.(النساء۴: ۹۳)
’’اور جو کسی صاحب ایمان کو بالارادہ قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے، جس میں ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور( اللہ نے) اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کوناحق قتل کرنااس امکان بخشش کو بھی ختم کر سکتا ہے جو توحیدپر قائم ہر مسلمان کو اصولاًحاصل ہے ۔
اوپر مندرج آیت میں قتل کا معاملہ بیان ہوا ہے۔ روایت کے الفاظ محاربے اور بغاوت پر دلالت کرتے ہیں۔ لہٰذا قتل کا معاملہ جان لینے کے حوالے ہی سے اس روایت کے تحت آتا ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ اس روایت میں ’فلیس منا‘کے الفاظ اور اس آیت میں ابدی جہنم کی سزا، یعنی مغفرت سے محرومی کے امکان نے معنوی مشارکت پیدا کردی ہے۔ہم نے یہ آیت اصلاًاسی پہلو سے درج کی ہے۔ لیکن خود مسلمان گروہوں کی باہمی جنگ کا معاملہ بھی قرآن میں زیر بحث آیا ہے۔ سورۂ حجرات میں ہے:

وَاِنْ طَآءِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْ م بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓءَ اِآٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِنْ فَآءَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ.(۴۹: ۹)
’’اگر اہل ایمان کے دو گروہ لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ،اگر ایک دوسری پر چڑھائی کرے تو اس کے خلاف جنگ کرو جس نے چڑھائی کی ہے، یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی کی طرف رجوع کر لے۔ اگر وہ رجوع کر لے تو ان کے درمیان انصاف سے صلح کرادو اور عدل کرو ۔ بے شک ، اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘

سورۂ حجرات کے اس مقام سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کا باہمی قتال ایک ناگوار اور ناقابل قبول عمل ہے اور امت کے جسد اجتماعی کی ذمہ داری ہے کہ اس کو رفع دفع کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، یہاں تک کہ اس کے لیے جنگ بھی کرنی پڑے تو حالات کے قابو میں آنے تک جنگ کی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں دونوں پہلو جمع ہو گئے ہیں۔ ’فلیس منا‘ کہہ کر آپ نے اس جرم کی شناعت بیان کردی۔ ’حمل علینا السلاح‘کے الفاظ میں اس کے گروہی عمل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ سورۂ حجرات کا یہ مقام مرکز کے خلاف اقدام سے متعلق نہیں ہے۔ اس میں اور روایت میں اشتراک صرف مسلمانوں پر ہتھیار اٹھانے کی حد تک ہے۔
’علینا‘سے عام مسلمان مراد ہیں یا حضور اور آپ کے ساتھی مراد ہیں۔ شارحین کے ہاں یہ دونوں رائیں پائی جاتی ہیں۔ اگر حضور اور آپ کے ساتھی مراد ہیں تو ’فلیس منا‘ سے مراد یہ ہوگی کہ وہ عملاً اہل کفر سے جا ملا ہے۔ اس لیے کہ حضور اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف ہتھیار اہل کفر ہی اٹھائے ہوئے تھے۔ اگر اس سے عام مسلمان مراد ہوں تو معنی یہ ہوں گے کہ اس نے مسلمانوں کے عمل کو چھوڑ دیا ہے ۔ مسلمان تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے جان ومال کا محافظ ہے ۔ جب اس نے یہ حق پامال کیا تو اس نے اسلامی طرز عمل کو چھوڑ دیا۔ یہاں شارحین نے کفر کے معنی بھی لیے ہیں اور بعض نے محض اظہار نا پسندیدگی کے معنی میں لیا ہے۔ ہمارے نزدیک، جیسا کہ ہم نے شروع میں بیان کیا ہے، قتل کا جرم قرآن کی بیان کردہ سزا کی رو سے منافی ایمان و عمل ہے اور حضور نے ممکن ہے’ فلیس منا‘ کے الفاظ سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہو۔
ہمارے اوپر ہتھیار اٹھانے سے کیا مراد ہے؟ اس بات کو بھی مختلف انداز سے سمجھا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ محض دھمکانے کے لیے ہتھیار اٹھائے اور یہ بھی قتل کرنے کے لیے ہتھیار اٹھائے۔جملہ پڑھتے ہی ذہن قتل کے لیے ہتھیار اٹھانے کی طرف جاتا ہے اور جملہ میں جو زور ہے، وہ بھی اسی پہلو سے زیادہ مطابق ہے۔ مزید یہ کہ محض دھمکانے کے لیے ہتھیار اٹھانا اس سے باہر نہیں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت مسلمان کے قتل کو ایک شنیع جرم کے طور پر سامنے لاتی ہے۔ اور اس میں یہ وعید ہے کہ بہ اعتبار حقیقت یہ شخص اہل ایمان میں نہیں ہوگا۔بعض شارحین نے ایمان کی نفی کی یہ توجیہ کی ہے کہ اس شخص نے ایک ناجائز کو جائز بنا لیا اور اس طرح شریعت کے ایک مسلمہ امر کے انکار کا مرتکب ہوا۔ یہی انکار اس کی تکفیر کا سبب ہے۔ ہمارے خیال میں کوئی شخص قتل جیسے جرم کی حلت کاقائل نہیں ہو سکتا۔ یہ کام مجرمانہ یا انتقامی ذہن ہی سے کیا جاتا ہے۔
کتب حدیث میں بالعموم یہی جملہ روایت ہوا ہے۔ اس کا سیاق و سباق کیا تھا؟ یہ کسی متن سے سامنے نہیں آتا۔ اس لیے یہ بات حتمی طور پر کہنا ممکن نہیں ہے کہ حضور نے کس طرح کی کارروائی کے لیے یہ بات کہی ہو گی۔ اس جملے میں صرف جمع کے صیغے کا قرینہ ہے، جس سے گروہی کارروائی کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اس پہلو سے یہ روایت مسلمانوں کے خلافت بغاوت کو منافی ایمان وعمل قرار دیتی ہے۔

متون

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ کتب حدیث میں ایک ہی جملہ روایت ہوا ہے۔ اس جملے کے لیے جو مختلف اسالیب یا الفاظ روایت ہوئے ہیں،مسلم میں جمع کر دیے گئے ہیں۔ان میں جو فرق ہیں، محض لفظی ہیں۔’ حمل علینا‘ کی جگہ ’سل علینا‘ اور ’شہر علینا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔اسی طرح ’السلاح ‘کے بجاے ’السیف ‘کا لفظ بھی آیا ہے۔مسلم ہی میں ایک متن میں اس کے ساتھ ’من غش فلیس منا ‘کا جملہ بھی موجود ہے:

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السِّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا وَمَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا.(رقم۱۰۱)
’’حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے ہم پر ہتھیار اٹھائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے، اور جس نے ہمیں دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘

اگر آپ نے یہ باتیں ایک ہی موقع پر فرمائی تھیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امت کے جسد اجتماعی کے خلاف کسی کارروائی کا حصہ بننا اصلاً اپنے آپ کو امت سے کاٹنا ہے۔

کتابیات

بخاری، رقم ۶۴۸۰، ۶۶۵۹۔ ۶۶۶۰؛ ترمذی، رقم۱۴۵۹؛ نسائی، رقم۴۱۰۰؛ابن ماجہ، رقم۲۵۷۵۔۲۵۷۶؛احمد، رقم ۴۴۶۷، ۴۶۴۹، ۵۱۴۹، ۶۲۷۷، ۶۳۸۱ ، ۶۷۲۴، ۶۷۴۲، ۹۳۸۵؛مسند طیالسی، رقم۱۸۲۸؛مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۸۶۸۰۔۱۸۶۸۲؛مسند ابن الجعد، رقم۳۳۰۱؛ سنن دارمی، رقم۲۵۲۰۔ السنن الکبریٰ، رقم۳۵۶۳؛ مسند ابویعلیٰ، رقم۵۸۲۷، ۷۲۶۱، ۷۲۹۲؛ ابن حبان، رقم ۳۱۹۳، ۴۵۸۸، ۴۵۹۰؛ المعجم الکبیر، رقم۶۲۵۱؛المعجم الاوسط، رقم۵۸۳۹؛ المسند المستخرج علی الصحیحین، رقم ۲۸۰، ۲۸۳، ۲۸۵؛مسند الشہاب، رقم ۳۵۱؛ الجمع بین الصحیحین، رقم ۴۴۰، ۱۳۵۷، ۲۶۵۸؛المسندالربیع، رقم۴۶۵؛ مسند الرویانی، رقم۴۷۷؛مسند ابی عوانہ، رقم۱۵۸۔۱۶۰؛ مسند البزار، رقم۳۱۷۴۔

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2011
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Mar 07, 2016
2820 View