ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (4) - ڈاکٹر وسیم مفتی

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (4)

جنگ موتہ

جمادی الاولیٰ۸ھ (۶۲۹ء): سیدہ عائشہ فرماتی ہیں: زید بن حارثہ ،جعفر بن ابوطالب اورعبدﷲ بن رواحہ کی شہادت کی خبر آئی ، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے،آپ کے چہرۂ مبارک پر غم کے آثارنظر آ رہے تھے۔ میں دروازے کی درز سے جھانک رہی تھی، ایک شخص (نام معلوم نہیں ہو سکا) آیا اورحضرت جعفر کے گھر کی عورتوں کے رونے دھونے کا ذکر کیا۔آپ نے انھیں منع کرنے کا حکم دیا۔وہ دوبارہ آیا اور بتایا: وہ کہا نہیں مان رہیں۔ آپ نے اسے پھر روکنے کو کہا۔ وہ تیسری دفعہ آیا اور کہا: ان عورتوں نے مجھے مغلوب کر دیا ہے ۔ آپ نے فرمایا: ان کے مونہوں میں خاک ڈال دو۔ حضرت عائشہ نے اس شخص سے فرمایا: ﷲ تجھے خاک آلود کرے!تو عورتوں کو روک سکا ہے نہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو تکلیف دینے سے باز آیا ہے (بخاری، رقم۴۲۶۳ ۔مسلم، رقم ۲۱۱۷)۔

فتح مکہ

قریش مکہ کی خلاف ورزی پر حدیبیہ کا معاہدۂ صلح ٹوٹ گیا تو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے غزوۂ فتح کی تیاری شروع کر دی۔آپ نے حضرت عائشہ کواخفا سے کام لینے کا حکم دیا۔اس اثنا میں حضرت ابوبکر حضرت عائشہ سے ملنے آئے تو دیکھا کہ گندم چھانی اور صاف کی جارہی ہے۔ پوچھا: بیٹی، کیا تمھیں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے سفرکی تیاری کا حکم دیا ہے؟جواب دیا: ہاں۔ پوچھا: کیا رومیوں سے جنگ کا ارادہ ہے؟حضرت عائشہ نے کچھ نہ بتایا۔کیا قریش پر حملے کی تیاری ہے؟وہ پھر چپ رہیں۔ اتنے میں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور حضرت ابوبکر کو بتایا کہ قریش کو زیر کرنا مقصود ہے۔

حجۃ الوداع

۹ھ: ۲۵ ؍ذی قعد کو آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم صحابہ کے جلو میں مدینہ کے میقات ذو الحلیفہ سے احرام باندھ کر حجۃ الوداع کے لیے روانہ ہوئے۔ آپ اور حضرت طلحہ بن عبید ﷲنے حج قران کی نیت کی تھی ،اس لیے قربانی کے اونٹ ساتھ لائے تھے ۔حضرت علی یمن سے پہنچے تھے ،ان کے پاس بھی ہدی کا جانور تھا (بخاری، رقم ۱۶۵۱)۔ حضرت عائشہ اور دوسری ازواج کا ارادہ حج تمتع کاتھا ۔مکہ کے قریبی مقام سرف پر پہنچے تو آپ نے قربانی نہ لانے والے صحابہ کو عمرہ کر کے حلال ہونے کا حکم ارشاد کیا۔ چنانچہ ان سب نے طواف کر کے بال کٹوائے اور احرام کھول دیے (بخاری، رقم ۱۷۸۵)۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم ،حضرت طلحہ اور حضرت علی نے احرام باندھے رکھے۔دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اور اصحاب کے پاس بھی قربانی کے اونٹ تھے اور انھوں نے بھی حج قران کیا (بخاری، رقم ۱۷۸۸)۔ تاہم حضرت عائشہ کی روایت کے مطابق آپ نے آرزو فرمائی، اگر مجھے بعد میں پیش آنے والے واقعات پہلے سے معلوم ہوتے تو میں ہدی نہ لاتا اور عمرہ کر کے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ احرام کھول دیتا (بخاری، رقم ۷۲۲۹)۔ اسی روز حضرت عائشہ کے ایام ماہواری شروع ہو گئے تووہ رونے لگ گئیں اور کہا: کاش! میں اس سال سفرحج میں آپ کے ساتھ نہ آتی۔ لوگ حج سے قبل طواف کر کے احرام کھول چکے اور میں عمرہ بھی نہیں کر سکی۔ آپ نے فرمایا: لگتا ہے تم ایام سے ہو۔ یہ ایسا امر ہے جو ﷲ نے بنات آدم (وحوا) کے لیے لازم کر دیا ہے۔ ۹؍ذی الحجہ (یوم عرفہ)کی رات آپ نے فرمایا: تم طواف کے علاوہ حج کے تمام افعال ادا کرنا۔طہرہو جائے تو سرکے بال کھول کر غسل اور کنگھی کرنے کے بعد حج وعمرہ دونوں کی نیت سے احرام باندھ لینا، دونوں کے لیے ایک ہی طواف و سعی کی ضرورت ہو گی (بخاری، رقم ۱۵۶۰)۔ اس طرح حضرت عائشہ بھی قارنہ ہو گئیں۔ منیٰ میں وہ حیض سے پاک ہوئیں۔ یوم نحر کو گائے کا بہت سا گوشت حضرت عائشہ کے کمرے میں رکھ دیا گیا۔ پوچھا: یہ کیسا گوشت ہے؟لوگوں نے بتایا: آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کی جانب سے قربانی دی ہے (بخاری، رقم ۱۷۰۹)۔ حضرت عائشہ نے کہا: یا رسول ﷲ، آپ کے صحابہ تو حج و عمرہ کا ثواب لے چلے اور میں صرف حج کر سکی ہوں۔آپ نے منیٰ سے لوٹنے کے بعد چودہ ذی الحجہ کی رات انھیں ان کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر کے ساتھ مکہ کے مقام تنعیم سے رہ جانے والا عمرہ کرنے کی اجازت دے دی۔ آج کل یہاں مسجد عائشہ ہے ۔ اس دوران میں آپ ابطح میں ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرتے رہے۔وہ آئیں تو آپ نے مدینہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ (بخاری، رقم ۱۷۸۸، ۲۹۸۳۔ مسلم، رقم ۱۲۱۱)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: حجۃ الوداع کے دوران میں حضرت صفیہ بنت حیی بھی ایام سے ہوئیں تو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ہمیں روک ہی لے گی۔میں نے بتایاکہ وہ منیٰ سے آکر طواف افاضہ (طواف زیارت)کر چکی ہیں توآپ نے فرمایا: پھر وہ ہمارے ساتھ مدینہ کے لیے نکلے، (طواف وداع کی ضرورت نہیں۔ بخاری، رقم ۴۴۰۱)۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو خوشبو لگاتی ۔آپ رات کو ازواج کے پاس جاتے اور صبح احرام باندھ لیتے، خوشبوابھی جسم اطہر سے پھیل رہی ہوتی (مسلم، رقم ۱۱۹۲)۔ حضرت عبدﷲ بن عمر حالت احرام میں خوشبو لگانا مکروہ سمجھتے تھے، لیکن حضرت عائشہ سے کئی روایات مروی ہیں کہ وہ آپ کو حالت حل و احرام میں بہترین خوشبو لگاتی تھیں (بخاری، رقم ۱۵۳۹۔ مسلم، رقم ۱۱۹۱۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۸۹۵۴) ۔ دوسری روایت میں حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: حجۃ الوداع کے موقع پر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت حل و احرام میں مختلف اجزا سے تیارکردہ ذریرہ کی مرکب خوشبو لگائی (بخاری، رقم ۵۹۳۰)۔ ذریرہ کے دوسرے معنی عطرہندی کے ہیں۔

غلاموں کی آزادی اورحضرت عائشہ

غزوۂ عیینہ بن حصن میں کفار کے کچھ لوگ مارے گئے اور کچھ قید ہوئے۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے بنو عنبر کے اسیروں میں سے ایک حضرت عائشہ کو دیا جو انھوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کی جانب سے آزاد کردیا۔

حضرت عائشہ کے پاس بنوتمیم کی ایک عورت جنگی قیدی بن کر آئی تو نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے اسے آزاد کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: بنو تمیم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ آپ کے پاس بنوتمیم کے صدقات آئے تو فرمایا: یہ میری قوم کے صدقات ہیں (بخاری، رقم ۲۵۴۳)۔

حضرت بریرہ ابو احمد بن جحش کی باندی تھیں۔ غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے وہ ابو احمد کی عائد کردہ رقم (بدل کتابت) اکٹھی کررہی تھیں ۔وہ حضرت عائشہ کے پاس آئیں اور کہا: میں نے نو اوقیہ سونے پر مکاتبت کی ہے۔ ہر سال ایک اوقیہ(ایک اونس،سوا اٹھائیس گرام) دینا ہو گا۔ابھی پانچ اوقیہ رہتے ہیں،آپ میری مدد کریں۔ انھوں نے کہا: اگر تو چاہے تو میں تیرے مالک کو کتابت کی رقم دے دیتی ہوں، مگر حق موالات (وراثت)مجھے حاصل ہو گا۔ حضرت بریرہ کے مالک آمادہ نہ ہوئے اور کہا: آپ بدل کتابت دے کر بے شک اسے آزاد کر دیں، لیکن ترکے کا حق ہمیں ہی ہو گا۔جب رسول ﷲصلی ﷲ علیہ وسلم آئے تو حضرت عائشہ نے اس معاملے کا ذکر کیا۔آپ نے فرمایا: بریرہ کو خرید کر آزاد کر دو ۔حق موالات اسی کا ہوتا ہے جو غلام کو آزاد کرے (بخاری، رقم ۲۱۶۸، ۲۵۶۰)۔ اس طرح حضرت بریرہ کا تعلق موالات (حق وراثت) حضرت عائشہ سے قائم ہو گیا۔آزادی کے بعد حضرت بریرہ نے اپنے خاوند سے بھی علیحدگی اختیار کر لی (بخاری، رقم ۲۵۳۶)۔

ذکوان حضرت عائشہ کے غلام مدبر تھے ، انھوں نے وصیت کر رکھی تھی کہ میری تدفین کے بعد میرے غلام ذکوان کو آزاد کر دیا جائے۔

راز کی بات اور آیت تحریم

۹ھ: ﷲ کا ارشاد ہے: ’یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘، ’’اے نبی، آپ (قسم کھا کر) وہ شے (اپنے اوپر) کیوں حرام کر رہے ہیں جو ﷲ نے آپ کے لیے حلال کر رکھی ہے؟(کیا یوں) اپنی بیویوں کی دل جو ئی کرنا چاہتے ہیں ؟ ﷲمعاف کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے‘‘ (التحریم ۶۶: ۱)۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں:رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو شہد اور مٹھائی بہت پسندتھے۔عصر کی نماز پڑھاکر آپ اپنی ازواج کے پاس جاتے توکسی ایک سے قربت بھی اختیار کرتے۔ایک بار آپ نے حفصہ کے ساتھ معمول سے زیادہ وقت گزارا تو مجھے رشک آیا ۔میں نے کھوج لگایا تو پتا چلا کہ حفصہ کو ان کے قبیلے کی ایک خاتون نے شہد کاکپا تحفے میں دیا اورانھوں نے آپ کو بھی پلایاہے۔میں نے تہیہ کر لیا کہ کوئی چال چلوں گی، چنانچہ سودہ سے کہا: آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم تمھارے پاس آئیں تو کہنا: کیا آپ نے مغافیر تناول کیا ہے؟آپ کہیں گے: نہیں تو کہنا: مجھے آپ کے پاس سے یہ بوکیسی آ رہی ہے؟ آپ فرمائیں گے: مجھے حفصہ نے شہد پلایا ہے توکہنا: شہد کی مکھی نے عرفط درخت چوسا ہو گا۔میں نے صفیہ سے کہا: تم بھی یہی کچھ کہنا۔ اسی اثنا میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم حضرت سودہ کے حجرے میں تشریف لے آئے۔انھوں نے آپ سے طے شدہ گفتگوکی پھر میرے پاس آئے تو میں نے وہی جملے دہرائے۔ آپ صفیہ کے گھر گئے تو انھوں نے بھی وہی باتیں کیں۔ یہ سن کر آپ کو اچھا نہ لگا، کیونکہ آپ ہمیشہ خیال رکھتے تھے کہ دہن مبارک یا کپڑوں سے بدبو نہ آئے۔ فرمایا: میں نے مغافیر نہیں ،زینب کے ہاں شہد کھایا ہے۔ قسم کھاتا ہوں کہ آیندہ کبھی نہیں کھاؤں گا، لیکن تم یہ بات کسی کو مت بتانااگلے روز آپ حضرت حفصہ کے ہاں گئے تو انھوں نے پوچھا: میں آپ کو شہد نہ دوں؟ فرمایا: مجھے اس کی چنداں ضرورت نہیں (بخاری، رقم ۴۹۱۲، ۵۲۶۸)۔ مغافیر(گندہ بروزہ یا فیروزہ) وہ گوند ہے جوحجاز کے(ببول سے ملتے جلتے ) ایک کانٹے دار درخت عرفط سے نکلتا ہے اور اس میں کچھ بساند ہوتی ہے۔ شہد کی مکھیاں اس درخت پر بھی بیٹھتی ہیں ۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت حفصہ سے ہونے والے اسی طرح کے ایک نزاع میں آپ نے حضرت ماریہ قبطیہ کو اپنے اوپر حرام کیا ۔

ارشادربانی ہے: ’وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَاَظْھَرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَاَعْرَضَ عَنْ م بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّاَھَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَکَم ھٰذَا قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ‘، ’’جب نبی نے اپنی ایک بیوی سے راز کی بات کی اور پھر جب اس نے اسے افشا کر دیااور ﷲنے نبی کو اس پر مطلع کر دیا تو نبی نے کچھ بات بتا دی اور کچھ ٹال دی۔پھر جب آپ نے اس زوجہ سے اس بات کا ذکر کیا تو اس نے پوچھا: آپ کو یہ کس نے بتایا؟ آپ نے فرمایا: مجھے علم اور خبر رکھنے والے ﷲ نے بتایا‘‘ (التحریم ۶۶: ۳)۔ یہ دو ازواج حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ ہیں۔آپ نے راز کی بات حضرت حفصہ سے کہی اور انھوں نے حضرت عائشہ سے کہہ ڈالی۔ وہ راز کی بات کیا تھی ،قرآن مجید نے صیغۂ راز میں رکھی۔پھر بھی مفسرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ شہد نہ کھانے کی قسم کھاناہی راز تھا۔ اس گرفت پر دونوں بیبیاں آپ سے روٹھ گئیں۔

حضرت عبدﷲ بن عباس کو برابریہ خواہش رہی کہ حضرت عمر سے پوچھیں ، وہ دو ازواج النبی کون سی ہیں جن کے بارے میں ﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: ’اِنْ تَتُوْبَآ اِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا‘، ’’تم دونوں ﷲ کی بارگاہ میں توبہ کرو تو یہی بہتر ہے، تمھارے دل تو ﷲ کی طرف مائل ہی ہیں‘‘ (التحریم ۶۶: ۴)۔ آخر کارایک حج کے موقع پر ان کے استفسار کا جواب مل گیاکہ و ہ حضرت عائشہ اورحضرت حفصہ ہیں۔حضرت عمر نے وضاحت کی: ہم قبیلۂ قریش کے لوگ عورتوں پر غالب رہتے تھے۔ مدینہ آکر جب ہم انصار کے پڑوسی بنے تودیکھا کہ ان کی عورتیں اپنے مردوں پر غلبہ رکھتی ہیں۔تب ہماری خواتین نے بھی انصار کی بیبیوں والی دلیری اختیار کر لی۔ایک بار میں اپنی اہلیہ پر چلایاتو اس نے پلٹ کر ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ میں نے برا منایا تو اس نے کہا: آپ نے ہمارا جواب سوال کرنااچھا نہ سمجھا۔ وﷲ! نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی ازواج (آپ کی بیٹی: بخاری، رقم ۴۹۱۳) بھی آپ کوترت جواب دیتی ہیں اور ایک (حفصہ) تو صبح سے شام تک آپ سے خفارہتی ہے۔ میں گھبرایا کہ جس زوجۂ رسول نے ایسا کیا ،وہ تو خائب و خاسر ہو گئی۔ حضرت عمر کہتے ہیں: میں فوراً اپنی بیٹی حفصہ کے پاس آیااور پوچھا: کیا تم میں سے کوئی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم پر صبح سے شام تک غصہ کرتی ہے؟انھوں نے ہاں کہاتو میں نے تنبیہ کی، کیا تجھے خوف نہیں آتا کہ اپنے رسول کے غصہ کرنے پر ﷲ بھی غضب ناک ہو جائے اور تو تباہ ہو جائے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے بہت فرمایشیں نہ کیا کرو، آپ سے تکرارکرنا نہ بولنا چھوڑنا۔اس بات سے فتنے میں نہ پڑجانا کہ تمھاری پڑوسن عائشہ تم سے زیادہ خوب صورت اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہے (بخاری، رقم ۲۴۶۸)۔

اپنی بیٹی حضرت حفصہ کومتنبہ کرنے کے علاوہ حضرت عمر حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ کے پاس بھی گئے۔ حضرت عائشہ نے کہا: ابن خطاب، آپ کا میرے معاملے سے کیا تعلق؟ اپنے عیبوں کی فکر کریں۔حضرت ام سلمہ نے کہا: عمر، تعجب ہے کہ آپ ہمارے ہر کام میں دخل دیتے رہے ہیں اور اب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اور ان کی بیویوں کے معاملات میں بھی مداخلت شروع کر دی ہے؟ (بخاری، رقم ۵۸۴۳۔ مسلم، رقم ۳۶۸۵۔ موسوعہ مسند احمد، رقم ۲۶۶۸۳)۔

اسی اثنامیں یہ خبر پھیلی کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے توحضرت عمر فجرکے وقت آپ سے ملنے گئے۔ نماز پڑھا کر آپ سیڑھی کے ذریعے سے بالا خانے میں(یا حضرت ماریہ کے گھر )چلے گئے جہاں آپ نے تنہائی اختیار کی ہوئی تھی۔ حضرت حفصہ گریہ کناں تھیں،اصحاب رسول بھی منبر نبوی کے پاس بیٹھے رو رہے تھے۔ حضرت عمر نے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے حبشی غلام سے کہا کہ مجھے ملنے کی اجازت لے دو۔تین بار درخواست کرنے کے باوجود آپ نے خاموشی اختیارکی تو حضرت عمر واپس ہونے لگے تب آپ نے انھیں کمر ے میں بلا لیا۔ آپ خالی بوریے پر ،کھجور کی چھال سے بھرے چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگائے لیٹے تھے۔ آپ کے نیچے کوئی بچھونا بھی نہ تھا،چٹائی کے نشان آپ کے پہلو مبارک پر نظر آرہے تھے۔ حضرت عمر نے سلام کرنے کے بعد سوال کیا: کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟فرمایا: نہیں۔حضرت عمر نے آنکھ اٹھا کر دیکھا، آپ کے گھر میں تین کھالوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اس لیے درخواست کی: ﷲ سے دعا کریں کہ آپ کی امت کو بھی وسعت عطا ہو۔ آپ نے جواب فرمایا: ایران وروم کے لوگوں کو جینے کے مزے دنیوی زندگی ہی میں دے دیے گئے ہیں (بخاری، رقم ۲۴۶۸)۔ رخصت ہونے سے پہلے حضرت عمر نے آپ سے اجازت لی کہ لوگوں کو مطلع کر دیں، نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو طلاق نہیں دی۔

حضرت حفصہ نے حضرت عائشہ کو راز کی بات بتا دی تو آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نے قسم کھا لی کہ میں ایک ماہ تک ازواج کے حجروں میں نہ جاؤں گا۔ عزلت کے انتیس دن گزارنے کے بعد آپ حضرت عائشہ کے پاس گئے تو انھوں نے کہا: آپ نے تو ایک ماہ کی قسم کھائی تھی اور ابھی ہماری گنتی انتیس تک پہنچی ہے۔ فرمایا: مہینا انتیس کا بھی ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: اسی موقع پر آیت تخییر نازل ہوئی اور نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے تخییر کی ابتدا مجھ سے کی (بخاری، رقم ۵۱۹۱۔ مسلم، رقم ۳۶۶۵)۔

تخییر ازواج

زمین کے خزانوں کا نگران و مہتمم فرشتہ اپنی کنجیاں لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ﷲ نے آپ کو اختیار (choice) دیا ہے کہ آپ نبی پادشاہ بن جائیں یا نبی عبد رہنا پسند کر لیں۔ جواب فرمایا: میں تو نبی بندہ رہنا چاہتا ہوں۔ ایک دن بھوکا رہتا ہوں اور ایک روز پیٹ بھر لیتا ہوں۔ آپ نے دعا کی: اے ﷲ، مجھے مسکینی کی زندگی اور مسکینی کی موت دینا، روز حشر مساکین کے ساتھ اٹھانا۔آپ کا اختیار پوچھنے کے بعد ﷲ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کی تخییر کا ارادہ فرمایا۔ ازواج مطہرات کا آپ سے کچھ ضرورت ،کچھ آسایش کی چیزوں کا تقاضا کرنا اور سوتاپے کی وجہ سے آپ سے ناراض ہونا بھی آیت تخییرنازل ہونے کا سبب بنا (مسلم، رقم ۳۶۸۳ا۔ مسند احمد، رقم ۱۴۵۱۵)۔ ارشاد ربانی ہے: ’یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَھَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا. وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا‘، ’’اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے، اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی زیب و آرایش حاصل کرنا چاہتی ہو تو آؤ ،میں تمھیں مال و متاع دے کر بھلے طریقے سے رخصت کر دیتا ہوں۔لیکن اگر تم ﷲ، اس کے رسول اور آخرت میں قائم رہنے والے گھر کی طلب رکھتی ہو توﷲ نے تم نیک بیبیوں کے لیے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے‘‘ (الاحزاب ۳۳: ۲۸۔ ۲۹)۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے تخییر کی ابتدا حضرت عائشہ سے کرتے ہوئے فرمایا تھا: عائشہ، میں تم سے ایک سوال کرنے لگا ہوں۔تم اس کا جواب اپنے والدین ابوبکر اور ام رومان سے مشورہ کیے بغیر نہ دینا۔ پھرآپ نے آیات تخییر سنائیں تو حضرت عائشہ نے کہا: اس باب میں مجھے والدین سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں ﷲ، اس کے رسول اور دار آخرت کا انتخاب کرتی ہوں (بخاری، رقم ۴۷۸۵۔ موسوعہ مسند احمد، رقم ۲۵۷۷۰)۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم ان کا جواب سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا: اب میں تمھاری ساتھی ازواج سے یہی سوال کروں گا۔ کہا: انھیں میرا جواب نہ بتانا۔ باقی ازواج کا جواب بھی یہی تھا (بخاری، رقم ۴۷۸۶)۔

تخییر سے تفویض تک

عہد رسالت میں تو اتنا ہی ہوا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو ایک باراختیار (choice) دیا کہ وہ آپ کو چھوڑ کر جانا چاہیں تو چلی جائیں، تاہم اس واقعے پرایک بڑے فقہی مسئلے کی بنا رکھ دی گئی ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیاتو ہم نے ﷲ و رسول کواختیار کیا۔آپ نے اسے کچھ شمار نہ کیا، یعنی ایک طلاق بھی واقع نہ ہوئی (بخاری، رقم ۵۲۶۲)۔ حسب معمول ایک متضاد قول بھی ان سے مروی ہے۔ حضرت عائشہ کے شاگردمسروق کہتے ہیں: مجھے کوئی پروا نہیں ، اپنی بیوی کو سو بار بھی اختیار دوں اور وہ مجھے چن لے تو کچھ نہ ہو گا (بخاری، رقم ۵۲۶۶۳)۔ بہ فرض محال اگر ازواج مطہرات میں سے کوئی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے الگ ہونے کا فیصلہ کرتی تو آپ اسے طلاق دیتے جیسا کہ ’اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا‘، ’’میں تمھیں مال و متاع دے کر بھلے طریقے سے رخصت کر دیتا ہوں‘‘کے الفاظ سے واضح ہے نہ کہ وہ خود اپنے آپ کو طلاق دیتی۔ اسی فرمان کو مد نظر رکھتے ہوئے حسن اور قتادہ کہتے ہیں: یہ تخییر طلاق نہ تھی، بلکہ ازواج النبی کو دنیا وی زیب و آرایش اور آخرت میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کو کہا گیا۔ اہل تاویل کی اکثریت کا خیال ہے کہ زیبایش دنیا کو اختیار کر لینے کا مطلب طلاق لینا ہی ہو سکتاتھا۔ابوبکر جصاص نے طرفین کے دلائل بیان کرنے کے بعد اکثریت کی راے کو ترجیح دی۔ حضرت علی کا قول ہے: اگر عورت نے خاوند کے بجاے خود کو اختیار کیا تو ایک بائنہ طلاق واقع ہو جائے گی۔ فقہاے حنفیہ نے اسی راے کو اختیار کیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ طلاق اسی صورت میں موثر ہو گی اگر عورت ملنے والے اختیار (choice) کوفوراً اسی نشست میں استعمال کر لے ۔حضرت عمر اور حضرت عبدﷲ بن مسعود نے اسے ایک رجعی طلاق قرار دیا۔علی الفور کی شرط کے ساتھ یہی شوافع کا مسلک ہے۔امام مالک کا فتویٰ ہے ،لفظ تخییر کا اطلاق تین طلاقوں ہی پر ہوتا ہے۔ فقہاے متقدمین نے تخییر طلاق کے مسئلے کو وسعت دے کر کئی شقوں اختیار، امر بالید اور مشیت میں تقسیم کر دیا۔ اس طرح نیابت طلاق یا تفویض طلاق کے عنوان سے ﷲ کی طرف سے مرد کو دیے گئے حق، ’بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ‘ (اس کے ہاتھ میں سررشتۂ نکاح ہے، البقرہ۲: ۲۳۷) کی مستقل منتقلی کی راہ ہموار ہو گئی۔

ابن حزم ظاہری واحد فقیہ ہیں جنھوں نے تفویض طلاق کا بالجزم رد کیا ۔کہتے ہیں: اس باب میں اجماع کا دعویٰ کرنا صریح جھوٹ ہے۔ قرآن مجید اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے ارشادات سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ رہے حضرت عمر ،حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت زید بن ثابت ،حضرت عبدﷲ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ کے اقوال تو وہ باہم متناقض ہیں۔حضرت عبدﷲ بن مسعود کا قول ان سے ثابت ہی نہیں اورحضرت عبدﷲ بن عباس کی روایت بے اصل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے، ’امرک بیدک‘ (تمھارا فیصلہ تمھارے ہاتھ ہے)، ’قد ملکتک امرک‘ (میں نے تمھارے معاملۂ طلاق کا مالک تمھیں ہی بنا دیا ہے)، یاوہ کہتا ہے: ’اختاري‘ (تو اپنی راہ چن لے)۔ یہ تمام اقوال اس بات کو لازم نہیں کرتے کہ وہ اسے طلاق دے رہاہے یاتفویض طلاق کر رہا ہے۔ اس لیے ان بیانات کی بنا پر کسی عورت کو اس کے مردپر حرام قرار نہیں دیا جا سکتا (المحلی ۱۰/ ۱۲۴)۔

تفویض طلاق کا مسئلہ فقہ کی کتابوں سے ہوتا ہوا ہمارے ملک کے Family Law تک پہنچا تو یہ عبارت سامنے آئی:

Power to give divorce, though belonged to husband, but he could delegate said power to wife or to third person, either absolutely or conditionally and either for a particular period or permanently151

Section 7 of Muslim Family Laws Ordinance, 1961 had specifically provided such Talaq which was known as 145Talaq-i-Tafweez146151Person to whom power was so delegated, could then pronounce same accordingly151

Temporary delegation of power was irrevocable, but a permanent delegation could be revoked151Such delegation of option called `Tafweez146 by husband to his wife, would confer on her power of divorcing herself151Said 145Tafweez146 was of three kinds viz,

Ikhtiar, giving her the authority to Talak herself;

Amr-ba-Yed, leaving the matter in her own hand

Mashiat, giving her the option to do what she liked151

قانون جدیدکی اس روشنی میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ حق تفویض سے آراستہ ایک خاتون نے اپنے خاوند کو طلاق دے ڈالی ، وکلا اور روشن خیال اسکالرزنے اسے فسخ نکاح قرار دے دیا۔دارالافتا پہنچنے پر یہ طلاق لغو ٹھیری۔

آں حضرت کی اونٹنیاں

حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں: رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمارا زیادہ گزر دودھ پر ہوتا تھا۔ آپ کی دودھ دینے والی اونٹنیاں جو مدینہ سے باہر چرتی تھیں، آپ نے اپنی ازواج میں تقسیم فرما دی تھیں۔ایک اونٹنی کا نام عریس تھا جو خوب دودھ دیتی۔ عائشہ کی اونٹنی کا نام سمرا تھاجو میری اونٹنی سے زیادہ دودھ دیتی تھی۔ دوسری اونٹنیوں کے نام بردہ، یسیرہ، مہرہ، شقرا، ریا اور حنا تھے۔ ان کا دودھ دوہ کر شام کو ہمارے پاس پہنچ جاتا تھا۔ ایک غلام یسارجو ان کی نگہبانی کرتا تھا ،اسے کفار نے قتل کر دیا تھا۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، احکام القرآن (جصاص)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، احکام القرآن(ابن عربی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، سیراعلام النبلاء (ذہبی)، البداےۃ والنہاےۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ، امین ﷲ وثیر)۔

[باقی]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اپریل 2018
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Jun 13, 2019
5769 View